Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے اَلْحَيُّ : زندہ الْقَيُّوْمُ : تھامنے والا لَا تَاْخُذُهٗ : نہ اسے آتی ہے سِنَةٌ : اونگھ وَّلَا : اور نہ نَوْمٌ : نیند لَهٗ : اسی کا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَنْ ذَا : کون جو الَّذِيْ : وہ جو يَشْفَعُ : سفارش کرے عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَھُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہیں يُحِيْطُوْنَ : وہ احاطہ کرتے ہیں بِشَيْءٍ : کس چیز کا مِّنْ : سے عِلْمِهٖٓ : اس کا علم اِلَّا : مگر بِمَا شَآءَ : جتنا وہ چاہے وَسِعَ : سما لیا كُرْسِيُّهُ : اس کی کرسی السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور الْاَرْضَ : زمین وَلَا : اور نہیں يَئُوْدُهٗ : تھکاتی اس کو حِفْظُهُمَا : ان کی حفاظت وَھُوَ : اور وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْعَظِيْمُ : عظمت والا
خدا (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب اسی کا ہے کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ (یعنی عبادت کا مستحق اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، اسی کا دانا بینا شنوا اور صاحب قدرت و ارادہ ہونا درست ہے اور تمام مناسب صفات اس کے لیے لازم ہیں وہ خود ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور اس کی تمام صفات بھی ازلی ابدی ہیں کیونکہ عدم فعلیت اور امکان سے وہ پاک ہے پس حیات ہی اس کی تمام صفات کمالیہ کا سرچشمہ ہے۔ الْقَيُّوْمُ (مخلوق کو تھامنے والا) عمر وبن مسعود ؓ کی قرأت میں اَلْقِیَّام اور علقمہ کی قرأت میں اَلْقَیّمُ ہے۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے ان تمام الفاظ کا معنی ایک ہی ہے۔ قیوم کا معنی ہے نگران۔ (ابن مجاہد) یا ہر نفس کے اعمال کا نگران۔ (کلبی) قیوم کا ترجمہ منتظم بھی کیا گیا ہے۔ ابو عبیدہ ؓ نے کہا قیوم کا معنی ہے غیر فانی۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ قیوم وہ ہے جو ہمیشہ مخلوق کی حفاظت اور تدبیر کرنے والا ہو سیوطی (رح) نے ترجمہ کیا ہے ہمیشہ باقی رہنے والا۔ میں کہتا ہوں ان تمام اقوال کا مشترک معنی یہ ہے کہ اللہ لا زوال ہے بذات خود موجود ہے دوسری چیزوں کی نگرانی کرنے اور ہستی کو قائم رکھنے والا ہے اس کے بغیر کسی چیز کی بقاء اور ہستی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اللہ کے قیوم ہونے کا تقاضا ہے کہ جس طرح ہر چیز اپنی ہستی کے لیے خدا کی محتاج ہے اسی طرح بقاء ہستی میں بھی اس سے بےنیاز نہیں ہے جس طرح سایہ اصل شئ کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ کائنات اللہ کی محتاج ہے شان اعلیٰ اللہ کی ہی ہے۔ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ( اس کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند) اونگھ کا ذکر نیند سے پہلے کیا باوجود یکہ زوربیان کا تقاضا تھا کہ نیند کا ذکر اونگھ سے پہلے کیا جاتا ( کیونکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نیند نہیں آتی نیند تو نیند اونگھ بھی نہیں آتی۔ ) مذکورہ طرز بیان کی وجہ یہ ہے کہ وجود خارجی کے لحاظ سے اونگھ نیند سے پہلے ہوتی ہے۔ اونگھ اعصاب دماغی کی وہ سستی ہوتی ہے جو نیند کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور نیند اس استرخائی کیفیت کو کہتے ہیں جو مرطوب بخارات کے چڑھنے سے دماغی اعصاب میں پیدا ہوجاتی ہے اور اعضاء کے اسی ڈھیلے پن کی وجہ سے ظاہری حواس ( بیرونی) احساس سے بیکار ہوجاتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں صفت سلبیہ کا اظہار ہے جس سے تشبیہ ( مخلوق سے مشابہت) کی نفی ہو رہی ہے گویا اللہ کے حی وقیوم ہونے کی یہ تائید ہے نیند موت کی بہن ہے جس کو نیند یا اونگھ آتی ہے اس کا (بیرونی) نظام زندگی درست نہیں رہتا۔ وہ اشیاء کی حفاظت اور نگہداشت سے (نیند کے اوقات میں) قاصر ہوجاتا ہے اسی لیے القیوم اور لا تاخذہ کے درمیان حرف عاطف نہیں لایا گیا ( کیونکہ حرف عطف مغایرت پر دلالت کرتا ہے اور یہاں فقدانِ نُعاس و نوم اللہ کی قیومیت کی دلیل ہے) حضرت ابو موسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے ہمارے مجمع میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں فرمائیں۔ فرمایا : کوئی شک نہیں کہ اللہ نہیں سوتا اور نہ سونا اس کے لیے زیبا ہے۔ وہ میزان کو نیچا اونچا کرتا ہے، اس کے سامنے رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے لائے جاتے ہیں اور دن کے اعمال کی پیشی رات کے اعمال (آنے) سے پہلے ہوجاتی ہے۔ اس کا حجاب نور ہے اگر پردۂ نور الٹ جائے تو اس کے انوار جمال حد نگاہ تک مخلوق کو سوختہ کردیں۔ (مسلم) لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ (آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ ) یہ جملہ اللہ کی قیومیت کی تائید اور توحید الوہیت کی دلیل ہے مراد یہ ہے کہ زمین و آسمان کی حقیقت کا جن اجزاء سے قوام ہوا ہے یا وہ اشیاء جو آسمان و زمین کے قوامی اجزاء تو نہیں ہیں مگر ان کے اندر موجود ہیں سب کی سب اللہ ہی کی ہیں اگر لہ السموات والارض و ما فیہن کہا جاتا تو مفہوم مذکور اس جملہ سے پورے طور پر ادا نہیں ہوتا۔ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ (اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے کون سفارش کرسکتا ہے) یہ عظمت خداوندی کا اظہار ہے اور اس امر کا بیان ہے کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے برابر اور ہمسر نہیں کہ خود سفارش کرے اللہ کے عذاب کو دور کرسکے مقابلہ کرکے عذاب کو روک دینے کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ (وہی ان کے سامنے کی اور پیچھے کی چیزوں کو جانتا ہے یعنی ان سے پہلے کی اور بعد کو آنے والی چیزوں کو یا ان چیزوں کو جانتا ہے جن کو انسان جانتے ہیں اور ان چیزوں کو بھی جن کو انسان نہیں جانتے یا ان چیزوں کو جانتا ہے جن کو لوگ لیتییا ترک کرتے ہیں یا کسی چیز کو انداز کردینا بتاتا ہے کہ انداز کرنے والے نے اس چیز کو پس پشت پھینک دیا۔ ھُمْ کی ضمیر ما فی السموات والارض کی طرف راجع ہے ما فی السمٰوات والارض عاقل اور بےعقل دونوں کو شامل ہے لیکن اہل عقل کو بےعقل مخلوق پر ترجیح دے کر ایسی ضمیر ذکر کردی جو اہل عقل کے لیے مخصوص ہے اور بےعقل مخلوق اہل عقل کے ذیل میں آگئی یا ھُمْ کی ضمیر ذا کی طرف راجع ہے (جومَنْ ذَالَّذی میں مذکور ہے) اور ذَا سے مراد ہیں انبیاء اور ملائکہ۔ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ ( اور اہل علم اللہ کے علم کے کسی حصہ کا احاطہ نہیں کرسکتے یعنی اللہ کی معلومات کے کسی حصہ کو پورے طور پر نہیں جان سکتے۔ اللہ کو ہر چیز معلوم ہے پھر من عِلْمِہٖ کی قید لگانے سے اس بات پر تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ کوئی علمی احاطہ نہیں کرسکتا۔ احاطہ علمی کی نفی سے مراد ہے ایسے علم کامل کی نفی جو تمام اشیاء کی حقیقت کو محیط ہو۔ علم محیط صرف باری تعالیٰ کی خصوصیت ہے کسی مخصوص چیز کی حقیقت کا کامل علم بطور ندرت ممکن ہے کہ کسی کو ہوجائے لیکن تمام اشیاء کی حقیقت کوئی نہیں جانتا۔ یا علم سے مراد وہ علم غیب ہے جو اللہ کے لیے مخصوص ہے یعنی اللہ کے علم غیب کے کسی حصہ کو کوئی احاطہ کے ساتھ نہیں جانتا۔ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ (ہاں جس چیز کا علم اللہ دینا چاہے) تو اس کو مخلوق کا علم محیط ہوتا ہے اور ایسا کم ہے اللہ نے خود ارشاد فرمایا ہے : وما اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً وَ لَا یُحِیْطُوْنَ میں واؤ حالیہ ہے اور یعلم کی ضمیر فاعلی ذوالحال ہے ‘ یا واؤ عاطفہ ہے۔ دونوں جملوں کا مجموعہ بتارہا ہے کہ محیط کل اور ہمہ گیر علم ذاتی اللہ کی خصوصیت ہے اور یہ اللہ کی وحدانیت کا ثبوت ہے اس لیے دونوں جملوں کے درمیان حرف عطف کو ذکر کیا۔ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (اس کی کرسی آسمانوں اور زمینوں کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔ بیضاوی (رح) نے لکھا ہے یہ محض تمثیل 1 ؂ ہے اللہ کی عظمت کی تصویر کشی مقصود ہے ورنہ واقع میں نہ اللہ کی کرسی ہے اور نہ وہ کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ سعید بن جبیر ؓ کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : کرسی سے مراد علم ہے مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ صحیفہ علمی 2 ؂ کو کُرَّاسۃ اسی وجہ سے کہتے ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ کرسی سے مراد حکومت اور اقتدار ہے موروثی حکومت کو عرب کرس کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر کرسی کا معنی علم یا اقتدار قرار دیا جائے تو آیت : لہ ما فی السموات وما فی الارض یعلم مابین ایدیھم و ما خلفھم کے بعد جملہ مذکورہ کا ذکر بےسود ہوگا ( کیونکہ آیت مذکورہ کا ابتدائی حصہ اللہ کے اقتدار پر اور آخری حصہ اللہ کے کمال علمی پر دلالت کر رہا ہے) محدثین کا مشہور قول یہ ہے کہ کرسی ایک جسم ہے ( جس میں لمبائی، چوڑائی اور موٹائی ہے) بغوی (رح) کا بیان ہے کہ کرسی ( کے مصداق) میں علماء کا اختلاف ہے حسن کا قول ہے کہ کرسی ہی عرش ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول ہے کہ کرسی عرش کے سامنے قائم ہے اور آیت : وسع ..... کا مطلب یہ ہے کہ کرسی کی وسعت زمین اور آسمان کی وسعت کے برابر ہے۔ ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابوذر ؓ کی روایت سے رسول اللہ : ﷺ کا فرمان نقل کیا ہے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہیں جیسے کسی بیابان میں کوئی چَھلّا پڑا ہو اور کرسی سے عرش کی بڑائی ( بھی) ایسی ہے جیسے چھلّے سے بیابان کی بڑائی۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول مروی ہے کہ کرسی کے اندر ساتوں آسمان ایسے ہیں جیسے کسی ڈھال میں سات درہم ڈال دیئے جائیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور مقاتل کا قول ہے کہ کرسی کے ہر پایہ کا طول ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کے برابر ہے۔ کرسی عرش کے سامنے ہے کرسی کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ہر فرشتے کے چار منہ ہیں ان فرشتوں کے قدم ساتویں نچلی زمین کے نچلے پتھر پر ہیں یہ مسافت پانچ سو برس کی راہ کے برابر ہے ایک فرشتہ کی شکل ابو البشر یعنی حضرت آدم کی طرح ہے جو سال بھر تک آدمیوں کے لیے رزق کی دعا کرتا رہتا ہے دوسرے فرشتہ کی صورت چوپایوں کے سردار یعنی بیل کی طرح ہے چو پایوں کے لیے سال بھر رزق مانگتا رہتا ہے۔ لیکن جب سے گو سالہ کی پوجا کی گئی اس وقت سے اس کے چہرہ پر کچھ خراشیں ہوگئی ہیں تیسرے فرشتہ کی صورت درندوں کے سردار شیر کی طرح ہے جو سال بھر درندوں کے لیے رزق کا طالب رہتا ہے چوتھے فرشتہ کی صورت پرندوں کے سردار یعنی گدھ کی طرح ہے جو پرندوں کے لیے سال بھر رزق کا سوال کرتا رہتا ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ حاملین عرش اور حاملین کرسی کے درمیان ستّر حجاب تاریکی کے اور ستّرحجاب نور کے ہیں اور ہر حجاب کی موٹائی پانچ سو برس کی راہ کے برابر ہے اگر یہ حجابات نہ ہوں تو کرسی کے اٹھانے والے عرش کے اٹھانے والوں کے نور سے سوختہ ہوجائیں۔ (یعنی جل جائیں ‘ 12) اصل میں کرسی صرف اتنی ہی جگہ کو کہتے ہیں جس پر بیٹھا جاتا ہے نشست گاہ سے فاضل جگہ کو کرسی نہیں کہا جاتا گویا لفظ کرسی کرس سے بنا ہے کرس کا معنی ہے کسی چیز کے اجزاء کو باہم جوڑ دینا۔ کرسی عرش اور بیت کی نسبت خدا کی طرف کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں ایک خاص قسم کے جلوہ الٰہی کے لیے مخصوص ہیں۔ آیت : فَسَوَّاھُن سبع سموات کی تفسیر کے ذیل میں ہم نے لکھا ہے کہ عرش کی شکل کا کروی ہونا اور اس کا آسمانوں کو محیط ہونا حدیث سے مستنبط ہے لیکن اس جگہ حضرت ابوذر کی روایت مذکورہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ کرسی آسمانوں کو محیط ہے اور عرش کرسی کو گھیرے ہوئے ہے اور بعض آسمان بعض کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اس قول کا تقاضا ہے کہ ہر آسمان بھی کردی ہو اسی لیے بعض لوگ قائل ہیں کہ آٹھواں آسمان کرسی ہے اور نواں آسمان عرش۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آسمانوں کی تعداد سات بتائی ہے اور عرش و کرسی کا شمار آسمانوں میں نہیں کیا اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دوسرے آسمانوں سے عرش و کرسی کی ماہیت جدا ہے اور خاص تجلیات کے لحاظ سے ان کو دوسرے آسمانوں سے امتیازحاصل ہے۔ وا اللہ اعلم۔ (1) [ ہیئت قدیم کے یونانی اور مصری علماء کہتے تھے جیسا کہ سبع شداد اور شرح چغمنی وغیرہ کتب میں مذکور ہے کہ مجموعۂ عالم کی شکل کروی ہے گویا یہ کائنات ایک پیاز کی گانٹھ ہے جس کے تیرہ پرت ہیں اور ہر چھلکا اپنے اندرونی چھلکوں کو محیط ہے سب کو محیط فلک الافلاک اطلس ہے اس کے اندر فلک ثوابت ہے اس کے نیچے فلک زحل پھر فلک مشتری پھر فلک مریخ پھر فلک شمس پھر فلک زہرہ پھر فلک عطارد پھر فلک قمر گویا فلک قمر فلک دنیا ہے اور ہماری جانب سب سے اوّل یہی ہے اور آخری انتہائی نواں آسمان فلک الافلاک ہے فلک قمر کے نیچے کرۂ نار ہے اور کرۂ نار کے نیچے کرۂ ہوا اور ہوا کے نیچے پانی اور پانی کے نیچے زمین اور یہی زمین مرکز عالم ہے۔ علماء ہیئت قدیم افلاک کو تہ بر تہ محیط مانتے تھے قرآن مجید اور احادیث مقدسہ میں عرش کرسی اور سبع سموات کے الفاظ آئے ہیں سبع سموات کے ساتھ طباقاً کا لفظ بھی مذکور ہے کچھ علماء اسلام نے یونانی ہیئت و فلسفہ کی صداقت تسلیم کرنے میں اتنا غلو کیا کہ قرآن کی عبارت کو بھی اس کے مطابق بنانے کی مکروہ کوشش کی کچھ احادیث کے اشارات یا صراحتوں کو اپنے مطلب کی تائید میں لے آئے فضلو و اضلوا عرش کو نواں اور کرسی کو آٹھواں آسمان بنا دیا۔ طباقاً کا ترجمہ تہ بر تہ کردیا۔ عرش و کرسی کو الگ ذکر کرنے کی وجہ ماہیات کے امتیاز اور خصوصی تجلیات کی بارش کو قرار دیا لیکن فلسفہ قدیم تو آسمانوں کو ازلی ابدی قدیم بالغیر کہتا ہے عمر میں خدا کے برابر قرار دیتا ہے ان کا پھٹنا اور پھر جوڑا جانا محال سمجھتا ہے بلکہ مادۂ عناصر کو بھی لا زوال کہتا ہے اور زمانہ کو بھی حادث نہیں مانتا، فلسفہ کا وہ کونسا عقیدہ اور فکر یہ ہے جو قرآنی صراحت یا حدیث کی عبارت سے جوڑ کھا سکتا ہے پھر صرف ترتیب عالم کے سلسلہ میں قرآنی صراحت اور وحی غیر منطوق کی عبارت کو ہیئت قدیم کے مطابق بنانے کی کوشش مہلک نہیں تو اور کیا ہے کیا یہ تفسیر بالرائے نہیں اگر فلسفہ اور ہیئت کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی تو پھر بھی یہ کاوش قابل برداشت ہوتی سود مند نہ ہوتی مگر تباہ کن بھی نہیں ہوتی مگر قرآن کو توڑنا مروڑنا اور بےمزہ تاویلیں کرکے فلسفہ سے جوڑنا تو قرآن کو بازیچہ حکماء بنا دے گا کسی فلسفہ کو اٹل صداقت کا حامل نہیں قرار دیا جاسکتا ایک فلسفہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہے جدید قدیم کو داستان پارینہ قرار دیتا ہے موجودہ سائنس افلاک کو محیط مانتی ہی نہیں سات آسمان نہیں دس کروڑ آسمان کہتی ہے تیس کروڑ زمینیں قرار دیتی ہے۔ وہ کہتی ہے چالیس کروڑ گیندیں خلاء میں فطری ضابطۂ جذب کے زیر اثر معلق ہیں کوئی اونچی کوئی نیچی دکھائی دیتی ہے واقع میں نہ کوئی اوپر ہے نہ نیچے کوئی منتہی ہی نہیں پھر تحت اور فوق کا حقیقتاً تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہر کرہ کا دوسرے کرہ سے فاصلہ لاکھوں کروڑوں میل بلکہ بعض کا فاصلہ تو ناقابل احاطہ ہے اس کا حساب کرنے سے علم حساب عاجز ہے کوئی کرہ اتنا چھوٹا ہے کہ ہمارے ایک دن رات میں اس کی دوری حرکت پوری ہوجاتی ہے کوئی اتنا بڑا ہے کہ اس کی دوری حرکت ہماری پچیس یا پچاس ہزار سال میں پوری ہوتی ہے۔ یہ ساری فضا مادۂ سیال یا چمکدار برقیات سے بھری ہوئی ہے ہر کرہ اپنے محور پر گھوم رہا ہے زمین بھی گھوم رہی ہے بڑے بڑے یہی سات سیارے ہیں چاند سوج، مریخ، زحل، مشتری، عطارد، زہرہ باقی سیاروں کی کامل شناخت آلات اور مراصد پر موقوف ہے۔ چالیس کروڑ کروّں میں بھی کائنات کا حصر نہیں۔ یہ آخری گنتی نہیں جتنا معلوم ہوا ہے وہ بہت قلیل حصہ ہے خدا جانے نامعلوم کتنا باقی ہے کیا سائنس کے یہ مسلمات غلط ہیں ممکن ہے کچھ وہم کی کارپردازی ہو کچھ حقیقت ثابتہ ہو جس زمانہ میں جس فلسفہ نے جو کچھ کہا صحیح سمجھ کر ہی کہا۔ فلسفہ کا یونہی ردو بدل ہوتا رہے گا اور ہوتا رہا ہے لیکن حقیقت قرآنیہ اپنی جگہ ثابت ہے ناقابل تغیر ہے فلسفہ قدیم یا تحقیقات جدیدہ سے موافق بنانے کے لیے آیات و احادیث میں تاویل بارد کرنا مذہبی افلاس کا ثبوت اور عقلی دہشت زدگی کی علامت ہے۔ قرآن مجید میں سبع سموات کلمۂ حصر نہیں کہ زیادتی کا انکار کیا جائے نہ مزید کی کوئی خاص شمار بتائی ہے کہ تعداد کو محدود کردیا جائے۔ طباقاً کا ترجمہ تہ بر تہ محض احتمالی ہے احتمال سے تعیین نہیں ہوتی۔ طبقاً عن طبق کا ترجمہ تہ بر تہ نہیں درجہ بدرجہ ہے طباقاً کا ترجمہ بھی درجہ بدرجہ ہوسکتا ہے اور یہ ترتیب درجات بھی اضافی اور عرفی ہے حقیقی فوق و تحت کو تسلیم کرنا ضروری نہیں غیر محاذی اشیاء میں زیر و زبر اور بالا و پست کا تصور بلکہ وقوع ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ احاطہ کا قول غلط ہو اور تاثیر جذب کے زیر اثر تمام کردی اجسام جدا جدا معلق ہوں حدیث معراج میں ایک آسمان کا دوسرے آسمان سے فاصلہ پانچ سو برس کی راہ کے برابر بتایا گیا ہے اگر یہ طباقاً کے لفظ کے منافی نہیں تو پھر تمام قرات کو جدا جدا اور درجہ بدرجہ قرار دینا کیونکر طباقاً کے مفہوم کے خلاف قرار دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوذر اور حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی احاطہ کرسی صراحتاً ثابت ہوتا ہے نہ استنباطاً کیونکہ اس میں عظمت کرسی کی تصویر کشی کی گئی ہے دوسرے آسمانوں کو کرسی کے مقابلہ میں اتنا چھوٹا دکھایا گیا ہے جیسے سپر کے اندر سات چھلیّ یا صحراء میں ایک چھلاّ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرسی سموات کو محیط ہے لیکن یہ احاطہ محتاج تاویل ہے جسمانی احاطہ ہے یا اقتدار اور حکم کا احاطہ یا عظمت و بزرگی کا احاطہ کوئی تعیین از خود نہیں کی جاسکتی اللہ ہر چیز کو محیط ہے کیا یہ احاطہ جسمانی ہے یا قدرت حکمت اور علم کا احاطہ ہے یا حکم اور اقتدار کا احاطہ ہے اہل ایمان کے قلوب کا رحمن کی چٹکی میں ہونا کیا قلوب کے جسمانی احاطہ پر دلالت کرتا ہے پھر وسعت کرسی کو جسمانی جوسے تعبیر کرنا اور فلک ہشتم کو ہر طرف سے سماوات کو محیط ماننا فلسفہ قدیم سے شکست خوردگی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے پس صحیح مسلک اس فقیر کی نظر میں یہ ہے کہ احادیث مقدسہ اور قرآن مجید کی صراحتوں میں کوئی ایسی تاویل اور تعیین اور خواہ مخواہ ایسا استنباط نہ کیا جائے جس کا مقصود ہی فلسفہ سے تطبیق ہو ہاں اگر کوئی فلسفہ قرآنی صراحت کی تائید کر رہا ہو تو اس کو شہادت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ وا اللہ اعلم ] وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ یہ لفظ اَوَدٌ سے ماخوذ ہے اَوَدٌ کا معنی ہے کجی۔ حِفْظُهُمَا (یعنی آسمان و زمین یا کرسی اور کرسی کے اندر سمائی ہوئی چیزوں کی حفاظت کا اللہ پر بار نہیں پڑتا ان کی نگہداشت اللہ کو تھکا نہیں دیتی۔ یہ اور اس سے پہلے کا جملہ اللہ کی علمی وسعت اور اس کی عمومی واقفیت کی ہمہ گیری کا بیان ہے یا مرتبۂ خداوندی کی عظمت و جلال اور اس کی قیومیت محیطہ کا اظہار ہے مذکورہ بالا دونوں جملے ایک ہی جملہ کا حکم رکھتے ہیں اور چونکہ گذشتہ کلام میں سے ہر جملہ سابق جملہ کی تاکید اور توضیح ہے ( گویا ایک ہی کلام کے متعدد اجزاء ہیں) اس لیے کسی جملہ کا دوسرے پر عطف نہیں کیا۔ وَھُوَ الْعَلِيُّ ( اللہ ہر مثل اور نظیر سے برتر وبالا ہے کوئی کسی طور پر اس کی طرح نہیں نہ ذات کے لحاظ سے نہ اوصاف کے لحاظ سے تعریف کرنے والے اس کی تعریف کرتے ہیں اور بیان کرنے والے اس کے اوصاف بیان کرتے ہیں لیکن وہ ہر تعریف اور بیان سے برتر ہے اس کی شان وہی ہے جو اسی کے لیے زیبا ہے۔ الْعَظِيْمُ وہ اتنی عظمت والا ہے کہ تمام کائنات اس کے مقابلہ میں بےمقدار ہے۔ آیت الکرسی میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی ذات وصفات کے مباحث بیان کئے گئے ہیں یہ آیت بتارہی ہے کہ اللہ ہی کا وجود اصلی اور حقیقی ہے ‘ اس کی ہر صفت کامل ہے ‘ اس کی حیات اور حیات کی تابع دوسری صفات مثلاً علم قدرت، ارادہ، سننا، دیکھنا اور کلام کرنا سب ہی اوصاف کمال ہیں۔ وہ ساری کائنات کو ہستی اور قوام ہستی عطا کرنے والا ہے ہر چیز کا قیام اسی کی ذات سے ہے لیکن یہ قیام ایسا نہیں جیسا عرض کا جو ہر کے ساتھ ہوتا ہے بعض اکابر کا قول ہے کہ عالم ایک مجموعہ اعراض ہے جو ذات واحد میں جمع ہیں اس قول سے دھوکہ ہوسکتا ہے کہ ذات خداوندی سے عالم کا قیام اس طرح ہے جس طرح جو ہر کے ساتھ عرض کا قیام ہوتا ہے مگر یہ مطلب غلط ہے قیام عالم باللہ کی کیفیت ناقابل تصور ہے خیال کی پہنائیاں اس کو نہیں سما سکتیں۔ قیام کے مفہوم کی قریب الفہم تعبیر کے لیے ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ہماری رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہے مگر یہ قرب مکانی نہیں نہ حلولی ہے اللہ احتیاج مکانی اور حلول سے پاک ہے ہر تغیر اور ضعف سے منزہ ہے مالک الملک و الملکوت ہے اس کی گرفت بہت سخت ہے اس کا انتقام ناقابل برداشت ہے اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس سے سفارش بھی نہیں کرسکتا۔ اس کا علم ہمہ گیر ہے ہر ظاہر اور پوشیدہ چیز کی حقیقت کو ہر طرح محیط ہے اس کی معلومات کا علم کسی کو نہیں ہاں اگر وہی کچھ بتادے تو ہوسکتا ہے۔ اس کی حکومت اور قدرت سے کوئی چیز خارج نہیں وہ بعض مخلوق پر جلوہ انداز ضرور ہوتا ہے لیکن یہ پر تو افگنی اس کی ذاتی برتری میں رخنہ انداز نہیں ہوتی کوئی امر دشوار اس کے لیے تعب آفریں (تھکا دینے والا ‘ 12) نہیں ہوتا کسی شئ میں مشغولیت اس کو دوسری چیز سے غافل نہیں بنا سکتی وہ تمام نا مناسب اوصاف سے پاک اور کل حمد کرنے والوں کی ستائش سے برتر ہے وہ رسول مکرم ﷺ جس کے دست مبارک میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا ہوگا خود ذات الٰہی کی حمد کا حق ادا کرنے سے قاصر تھا اسی لیے اس نے ( اپنی دعا میں) کہا تھا تو ویسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی ثنا کی ہے اللہ کی عظمت کے سامنے ہر چیز حقیر ہے اس کی بزرگی پورے طور پر کوئی عالم نہیں جانتا نہ کسی عابد کی عبادت اللہ کی عظمت کا حق ادا کرسکتی ہے رسول اللہ نے خود اپنی عبادت کے قصور کا اقرار کیا ہے فرمایا ہے ہم نے تیری عبادت تقاضائے عبادت کے برابر نہیں کی اسی لیے جب حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ قرآن میں سب سے بڑھ کر عظمت والی آیت کونسی ہے ؟ فرمایا : آیت الکرسی : اَﷲُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ ۔۔ عرض کیا گیا سب سے زیادہ عظمت والی سورت کونسی ہے۔ فرمایا : قُلْ ھُوَ اللہ اَحَدٌ۔ ( دارمی، بروایت اسقع بن عبد کلابی) حارث بن اسامہ ؓ نے بروایت حسن مرسلاً بیان کیا کہ سب سے بڑھ کر عظمت والی آیت آیۃ الکرسی ہے۔ حضرت ابی بن کعب کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ابو المنذر ؓ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی سب سے زیادہ عظمت والی آیت کونسی ہے ؟ میں نے عرض کیا : اَﷲُ لَآ اِلٰہَ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ حضور ﷺ نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا تجھ کو علم مبارک ہو پھر فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس آیت کی ایک زبان اور دو لب ہیں پایۂ عرش کے پاس فرشتہ اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے۔ (مسلم) میں کہتا ہوں شاید اس آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے اس آیت کی تلاوت کرکے اللہ کی تقدیس کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ عالم مثال میں ہر چیز کی ایک صورت ہے یہاں تک کہ قرآن کی آیات قرآن کی اور رمضان کی بھی ( عالم مثال میں) شکلیں معین ہیں۔ ابن مردویہ نے بروایت حضرت ابن مسعود ؓ اور ابن راہویہ نے اپنی مسند میں بروایت حضرت عوف بن مالک ؓ اور امام احمد (رح) و امام مالک (رح) نے بروایت حضرت ابوذر غفاری ؓ ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ آیت الکرسی آیات قرآنی کی سردار ہے (ترمذی و حاکم) حضرت انس کی روایت ہے کہ آیت الکرسی (ثواب میں) چوتھائی قرآن (کے برابر) ہے۔ (احمد) حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص آیت الکرسی اور : حٓمٓ تنزیل الْکِتَابِ مِنَ اللہ الْعَزِیْزِ العَلِیْمِ کی دو آیتیں صبح کو پڑھے گا وہ دن بھر شام تک محفوظ رہے گا اور جو شام کو پڑھے گا اور رات بھر ( اللہ کی) امان میں صبح تک رہے گا۔ (رواہ الترمذی والدارمی) ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کے مال کی حفاظت پر مامور فرمایا : (رات کو) کوئی آکر لپ بھر بھر کر غلہ اٹھا کرلینے لگا میں نے اس کو پکڑ لیا اور اس سے کہا میں تجھے رسول اللہ کی خدمت میں لے جاؤ . ں گا وہ بولا میں محتاج ہوں عیالدار ہوں، بڑا ضرورت مند ہوں میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا حضور ﷺ نے فرمایا : ابوہریرہ ؓ رات والے تمہارے قیدی کا کیا ہوا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس نے اپنی سخت محتاجی اور عیالداری کا دکھ ظاہر کیا تھا مجھے اس پر رحم آگیا میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ فرمایا : آگاہ ہوجاؤ اس نے تم سے جھوٹ بولا آئندہ وہ پھر لوٹ کر آئے گا یہ سن کر مجھے اس کے دوبارہ آنے کا یقین ہوگیا۔ چناچہ میں اس کی تاک میں رہا وہ آیا اور پھر لپ میں غلہ بھرنے لگا فوراً میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا اب تو میں رسول اللہ کی خدمت میں تجھے ضرور لے کر جاؤں گا اس نے پہلے کی طرح پھر وہی بات کہی کہ مجھے چھوڑ دو ۔ الخ ( صبح کو) رسول اللہ نے بھی وہی بات فرمائی جو پہلے فرمائی تھی آخرتیسری بار (جب وہ پھر چوری کرنے آیاتو) میں نے کہا یہ آخری باری ہے تو دوبارہ نہ آنے کا وعدہ کرتا رہا اور پھر واپس آتا رہا ( اب تو میں تجھے ضرور ہی لے جاؤں گا) اس نے کہا تم مجھے چھوڑ دو میں تم کو چند الفاظ ایسے سکھاتا ہوں جن سے اللہ تم کو فائدہ عطا فرمائے گا۔ جب تم اپنے بستر پر ( رات کو لیٹنے کے لیے) جاؤ تو آیت الکرسی اَﷲُ لَآ اِلٰہَ اِلّا ھُوَ الْحَیُّ القیوم ...... پڑھ لیا کرو۔ تمہاری نگہداشت کے لیے اللہ کی طرف سے ایک نگران مقرر رہے گا پھر صبح تک کوئی شیطان تمہارے پاس آنے نہ پائے گا۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ صبح کو خدمت گرامی میں پہنچا تو حضور ﷺ نے فرمایا : تمہارا رات والا قیدی کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا : حضور ﷺ اس نے کہا کہ میں تم کو چند الفاظ ایسے بتاتا ہوں کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تم کو فائدہ عطا فرمائے گا۔ ارشاد فرمایا : سنو وہ ہے تو جھوٹا مگر اس نے یہ بات تم سے سچ کہی۔ کیا تم واقف ہو کہ تین راتوں سے تم کس سے گفتگو کرتے رہے ؟ میں نے عرض کیا : نہیں فرمایا : وہ شیطان ہے (بخاری) نسائی، ابن حبان اور دارقطنی (رح) نے بروایت حضرت ابو امامہ اور شعب الایمان میں بیہقی (رح) نے بروایت حضرت صلصال ؓ دیہمی وحضرت علی ؓ بن ابی طالب مرفوعاً بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے گا اس کو ( حجاب) موت کے علاوہ جنت کے داخلہ سے اور کوئی چیز روکنے والی نہ ہوگی۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جو شخص بستر خواب پکڑتے وقت آیت الکرسی پڑھے گا اللہ اس کے گھرکو اس کے ہمسایہ کے گھر کو اور گردا گرد کے دوسرے گھر والوں کو اپنی امان میں رکھے گا۔ بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس ؓ کی مرفوع روایت لکھی ہے کہ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے گا اللہ اگلی نماز تک اس کا محافظ رہے گا اور اس کی پابندی صرف نبی کرتا ہے یا صدیق یا شہید۔ (1) [ دنیوری نے مجالس میں حسن کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل ( علیہ السلام) نے مجھ سے آکر کہا کہ جنی شیطان تمہارے ساتھ فریب کرنے ( کی گھات) میں لگا رہتا ہے لہٰذا جب بستر پر پہنچا کرو تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو۔ فردوس میں حضرت ابو قتادہ ؓ کی روایت سے منقول ہے کہ بےچینی کے وقت جو شخض آیت الکرسی پڑھتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ حضرت عمر ؓ ایک روز برآمد ہوئے اور فرمایا : کہ تم میں سے کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں سب سے زیادہ عظمت والی، سب سے بڑھ کر عدل آگیں اور خوفناک ترین اور سب سے بڑھ کر امید آفریں کونسی آیت ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : میں نے خود آنحضور ﷺ سے سنا ہے کہ قرآن میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت : اَﷲُ لاَ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْم ہے اور سب سے بڑھ کر عدل آگیں آیت : اِنَّ اللہ یَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَان الخ ہے اور خوفناک ترین آیت : فَمَنْ یََّعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہُ وَ مَنْ یَّعْمَل مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرَّا یَّرَہُ ہے اور سب سے زیادہ امید آفریں آیت : قُلْ یٰا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اِلٰی اَخرِہٖ ہے۔ مؤلف (رح) ۔ ]
Top