Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 29
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۗ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِىْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا لَكُمْ : واسطے تمہارے مَّا : جو کچھ ہے فِى الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سارے کا سارا / سب کچھ ثُمَّ : پھر اسْتَوٰٓى : وہ متوجہ ہوا / ارادہ کیا اِلَى : طرف السَّمَآءِ : آسمان کے فَسَوّٰىھُنَّ : پس برابر کردیا ان کو / درست بنایا ان کو / ہموار کیا ان کو سَبْعَ : سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَ : اور ھُوَ : وہ بِكُلِّ : ساتھ ہر شَىْءٍ : چیز کے عَلِيْمٌ : خوب علم والا ہے
وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے
ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ (وہی ہے جس نے بنایا تمہارے لیے) پھر متوجہ ہوا آسمان ( بنانے کی طرف) خَلَقَ لَکُمْ یعنی ( جو کچھ زمین میں ہے وہ دنیا و آخرت میں) تمہارے نفع اور فائدہ مند ہونے کے لیے پیدا کیا ہے دنیا میں ( اس کی تمام چیزوں سے سود مند ہونا تو محتاج دلیل نہیں) بواسطہ یا بلاواسطہ ( دنیا کی) سب چیزوں سے انسان منتفع ہوتا ہے۔ رہا آخرت کا نفع سو وہ یہ ہے کہ دنیا و ما فیہا کو دیکھ کر عبرت حاصل کی جاتی ہے۔ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا (سب کا سب جو کچھ زمین میں ہے) اور اس آیۃ کریمہ میں جو نعمت بیان کی گئی ہے وہ نعم مذکورہ آیت سابقہ پر مرتب ہے ( کیونکہ دنیا کی اشیاء سے منتفع ہونا تو ظاہر ہے کہ بعد اعطاء حیات وجود میں آیا ہے) ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ : پھر آسمان کا قصد کیا ( کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے) ابن عباس ؓ اور اکثرسلف صالحین نے تو یہ تفسیر فرمائی ہے کہ پھر آسمان کی طرف صعود فرمایا۔ اس تفسیر پر یہ آیت مثل الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی (رحمن عرش پر قائم ہوا) کے متشابہات میں سے ہوگی۔ ابن کیسان اور فراء اور نحویوں کی ایک جماعت کا میلان اس طرف ہے کہ استواء کے یہ معنے ہیں کہ آسمان پیدا کرنے کی طرف توجہ و قصد کیا 2 ؂۔ کہتے ہیں کہ استواء بمعنی قصد عرب کے قول استوٰی اِلَیْھِم کا سھم المرسل سے مشتق ہے اور یہ اس وقت بولتے ہیں کہ جب سیدھ باندھ کر بغیر کسی دوسری طرف توجہ کے کسی شے کی جانب کسی نے قصد کیا ہو۔ امام بیضاوی نے کہا ہے کہ ثم استوی میں کلمہ ثم ( پھر) لانے کی دو وجہ ہوسکتی ہیں اول یہ کہ زمین اور اس کی کل چیزیں پیدا کرنے اور آسمان کے پیدا کرنے میں مدت فاصل ہو۔ دوسری وجہ یہ کہ یہ بات ظاہر فرمائی ہے کہ آسمان کو زمین پر شرف و فضیلت ہے۔ چناچہ دوسرے مقام پر بھی کلمہ ثم ترقی مرتبہ کے لیے ارشاد فرمایا ہے : ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ( اور یہ دوسری وجہ ہی صحیح ہے کیونکہ اگر مدت فاصل ہونا مراد ہوگا۔ تو بظاہر دوسری آیت سے تعارض لازم آئے گا اور وہ آیت یہ ہے : وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا (یعنی زمین کو آسمان وغیرہ بنانے کے بعد بچھایا) یہ آیت صاف بول رہی ہے کہ زمین کا بچھانا آسمان کے پیدا کرنے اور اس کے برابر کرنے کے بعد واقع ہوا ہے ( اور جب زمین کا درست کرنا اور بچھانا آسمان کے بعد ہوا ہے تو زمین کی اشیاء ظاہر ہے کہ بطریق اولیٰ آسمان کے بعد ہونگی اور جب آسمان کے بعد ہوئیں توکلمہ ثم کا لانا کس طرح درست ہوگا) علامہ بغوی نے آیہ والْاَرْضَ بَعْدَ ذَالِکَ دَحٰھَا کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوّل زمین کو مع اس کی پیداوار کے جو اس کے اندر ہے پیدا فرمایا مگر اسے بچھایا نہیں۔ پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی توسات آسمان برابر بنائے پھر اس کے بعد زمین کو پھیلایا بعض نے کہا ہے کہ والْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا کے یہ معنی ہیں کہ آسمان کے پیدا کرنے کے ساتھ ہی زمین کو بچھا دیا اور لفظ بعد بمعنی مع ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا ہے : عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ ( یعنی بد خو ہے اور اس سب کے ساتھ بد اصل بھی ہے) یہاں بھی لفظ بعد بمعنی مع ہے۔ علامہ بغوی نے سورة حم السجدہ کی آیت خَلَقَ الْاَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ ۔۔ (کی تفسیر میں فرمایا کہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ زمین کو اتوار اور پیر دو دن میں بنایا ہے وَ قَدَّ رَفِیْھَا اَقْوَاتَھَا ( اور دو دن یعنی منگل اور بدھ میں اس کے رہنے والوں کی خوراک مقرر کردی) تو یہ دو دن پہلے دو سے مل کر چار روز ہوگئے۔ اسی واسطے فرمایا ہے : وَ قَدَّرَ فِیْھَا اَقْوَاتَھَا فِی اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ ( یعنی زمین میں اس کے رہنے والوں کی خوراک چار دن کے اندر مقرر فرمادی) اس کے بعد فرماتا ہے : فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ ( پھر انہیں پنج شنبہ اور جمعہ دو دن میں سات آسمان بنا دیئے) یہی اقوال سلف سے مستفاد ہے ‘ واللہ اعلم۔ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ( تو انہیں سات آسمان ہموار بنا دئیے) یعنی ہموار و برابر پیدا کئے کہیں ان میں رخنہ اور دراڑ نہیں۔ ھُنَّکی ضمیر السَّمَآءُ کی طرف اس تقدیر پر راجح ہے کہ سماء سے مراد ہیں اجرام سماویہ کیونکہ سماء یا تو جمع ہے یا جمع کے معنی میں ہے اور سَبْعَ سَمٰوٰتٍ اس ضمیر ھُنَّ سے بدل ہے اور السماء کی تفسیر اجرام سے نہ کریں تو اس وقت ضمیر ھُنَّ مبہم ہے ( یعنی کسی کی طرف راجع نہیں اور سَبْعَ سَمٰوٰتاس کی تفسیر ہے) جیسا کہ عرب کے قول رُبُّہٗ رَجُلًا میں ( ضمیر کا مبہم ہے اور رَجُلًا اس کی تفسیر ہے) اب اگر کوئی کہے کہ اہل ارصاد نے تو نو افلاک ثابت کئے ہیں سات یہ اور آٹھواں فلک اطلس جو فلک الافلاک ہے اور نواں فلک ثوابت (1)[ یہاں آٹھویں اور نویں آسمان کی ترکیب ظاہر کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ اہل ہیئت کے نزدیک آٹھواں آسمان فلک ثوابت اور نواں فلک اطلس یعنی فلک الافلاک ہے۔] یہ دونوں بےجز کے ہیں (2) [ یعنی فلک ثوابت اور فلک اطلس میں افلاک جزئیہ نہیں ہیں، باقی ساتوں افلاک میں افلاک جزئیہ بھی ہیں۔] اور انہوں نے سات افلاک کے کچھ ازاء ثابت کئے ہیں۔ بعض تو ان میں سے تین افلاک سے مرکب ہیں کہ وہ افلاک مرکز کے باہر واقع ہیں اور انہیں ایک کوکب اور ایک متمم حاوی اور ایک متمم محوی ہے اور بعض ان میں سے پانچ افلاک خارج مرکز اور دو متمم حاوی اور دو متمم محوی سے مرکب ہیں اور اس میں اور بھی افلاک ہیں کہ جو بالکل ٹھوس ہیں اور ان میں بالکل خلاء نہیں اور اس میں کواکب متحیرہ قائم ہیں اہل ہیئت نے اس کا نام فلک التدویر رکھا ہے۔ میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں کہ اہل ہیئت نیافلاک کا شمار کواکب کی حرکات کے اعتبار سے کیا ہے جب انہوں نے دیکھا کہ کل کواکب اور آفتاب رات دن دورہ کرتے ہیں تو ایک نے افلاک الافلاک ثابت کیا جو تمام کواکب کو مشرق سے مغرب کی طرف حرکت قسریٰ دیتا ہے اور جب یہ دیکھا کہ کواکب سبعہ کے سوا اور کواکب ایک طرح حرکت کرتے ہیں اور کواکب سبعہ سیارہ کی حرکت تیزی اور سستی میں مختلف ہے اور کبھی بروج شمالیہ سے جنوبیہ کی طرف اور کبھی بروج جنوبیہ سے شمالیہ کی طرف حرکت کرتے ہیں تو انہوں نے ان کی حرکات کے موافق فلک کی شمار کی اور جب یہ دیکھا کہ آفتاب کے سوا اور سیاروں کی حرکت کبھی تیز ہوجاتی ہے کبھی دھیمی کبھی مشرق کی طرف ہوتی ہے اور کبھی مغرب کی طرف اور کبھی ٹھہر (3) [ قولہ ٹھہر ٹھہر کر۔ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی (رح) نے فرمایا ہے کہ ٹھہرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اگر اس طرح افلاک کے درمیان انفصال فرض کرلیا جائے تو جدا جدا افلاک ان کی حرکات سے واجب اور ضروری ہوں گے ( اور اس میں کوئی قباحت نہیں) ہاں محوی کا متحرک ہونا اسی صورت میں لازم ہوسکتا ہے کہ حاوی اور محوی دونوں میں تلاصق اور اتصال ہو اور یہ تعدد افلاک کے علاوہ دوسرا مر ہے ( جس سے یہاں بحث نہیں) (حضرت قاضی صاحب (رح) جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں افلاک کے متلاصق ہوتے ہوئے توقف ( ٹھہر جانے) کی وجہ اہل ہیئت کا یہ خیال ہے کہ ہر کوکب اور ایسے ہی شمس و قمر کی دو حرکتیں ہیں۔ ایک حرکت قسری جو نویں فلک کے تابع ہے جس سے اسکا دورہ ایک رات دن میں پورا ہوتا ہے اور اسی حرکت پر رات اور دن کی بناء ہے اور دوسری حرکت طبعی مشرق کی طرف ہے جس سے ان کی حرکتوں میں اختلاف ہوتا ہے اور جس پر فصلوں کا اور مہینوں وغیرہ کے اختلاف کا مدار ہے۔ بلکہ ہر کوکب کی بوجہ قسر کے بہت سی حرکتیں ہیں ایک تو یہی ہے جو فلک الافلاک کے تابع ہے۔ دوسری متممات حاویہ اور محویہ کے قسر کی وجہ سے اور متحیرہ کی طبعی حرکت ان کی تدویرات کی ہی حرکت ہوا کرتی ہے اور جو کوکب کی تدویز نہ ہو تو اس کی حرکت طبعی وہی ہوا کرتی ہے جو اسکے فلک کی ہوتی ہے جس میں وہ مرکوزہوتا ہے اور حرکت قسری تو بدون تلاصق کے متصور ہی نہیں ہوسکتی۔ میرے نزدیک اس مقام کی تحقیق میں شبہات ہیں جن کی گنجائش اس جگہ نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ کواکب اور شمس و قمر سب کے سب آسمان دنیا میں ہیں اور ہر ایک کی علیحدہ اور مختلف حرکت ہے۔ ہر کوکب اپنے فلک میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مچھلی پانی میں ان میں سے کوئی بھی دوسرے فلک کے قسر سے نہیں۔ رات دن اور موسموں کا اختلاف کواکب کی حرکت کے اختلاف سے مربوط ہے۔ یہ بحث طویل ہے۔ یہ مقام اس کے مناسب نہیں۔] ٹھہر کر تو انہوں نے تداویرات متعددہ ثابت کردیں۔ تو اس حساب سے افلاک کی شمار قریب تیس کے پہنچ گئی۔ اگر مفصل بحث دیکھنی منظور ہو تو علم ہیئت (4) [ آسمانوں کی یہ گنتی اور ترتیب اور اتصال ہیئت قدیم کا مسلمہ ہے اکثر علماء تفسیر نے آیات قرآنی کو اسی مسلمہ پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے جو میرے نزدیک تاویل زائغ یا تحریف ہے۔ تحقیقات کائنات کی کوئی آخری حد نہیں نہ کسی قول کو آخری قول کہا جاسکتا ہے نہ کسی مسلمہ کو یقینی قطعی ناقابل شک کہہ سکتے ہیں ہاں اگر تطبیق ہی دینی ہے تو علوم عقلیہ کو نص قرآنی کے مطابق بنانے کی کوشش مضر نہیں منصوصاتِ الٰہیہ کو اصل ناقابل شک قرار دینا ضروری ہے اور تصریحات علماء کو ان کی شہادت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ ہیئت ترتیب اتصالی کی قائل نہیں نہ افلاک کا حصر صرف نو میں کرتی ہے اس وقت تک کی تحقیقات سے اس کائنات کے چالیس کروڑ کرے ثابت ہوچکے ہیں دس کروڑ آسمان اور تیس کروڑ زمینیں ہر آسمان کے آس پاس تین زمینیں ہیں ہر کرہ بعلاقہ کشش اپنی جگہ قائم ہے اور حرکت مستدیر کر رہا ہے کوئی کسی سے متصل نہیں ہر کرہ کا فاصلہ دوسرے کرہ سے لاکھوں میل کا ہے بلکہ بعض کا فاصلہ تو کروڑوں اور اربوں میل تک پہنچتا ہے ہاں ایک کرہ کو دوسرے کرہ کے اوپر یا نیچے کہا جاسکتا ہے اور وہ بھی اضافی طور پر ورنہ حقیقی فوق و تحت تو موجودہ ہیئت میں مفقود الوجود ہے نہ کوئی مرکز عالم ہے نہ محیط کل ہر کرہ کا مرکز اور محیط جدا جدا ہے کسی فلک کے مادۂ تخلیق کی تعیین بھی ابھی تک نہیں ہوسکی کہ کس قسم کے اجزاء سے بنا ہوا ہے اور اس کی فضاء میں کونسے اجزاء موجود ہیں۔ ہاں اگر مجمل لفظ بولا جاسکتا ہے تو برقیات مکفوفہ یا بستہ لہریں یا محدود شعاعیں یا اسی قسم کا کوئی دوسرا لفظ بول سکتے ہیں مگر یہ لفظ بھی صرف فہمائش کے لیے بولا جائے گا حقیقت کی تعبیر کے لیے یہ بھی کافی نہیں پھر ہر فلک کا رنگ حجم اور دوسری کیفیات کا علم حاصل کرنے کے لیے ارشادات نبویہ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اصطلاحی علوم اس کے واقعی بیان سے قاصر ہیں ہر روز کی تنقیح ترقی پذیر ہے اور ترقی پذیر رہے گی۔ قرآن اور احادیث میں جو سبع سماوات کا لفظ آیا ہے اور عرش و کرسی کی صراحت کی گئی ہے اس کو ہیئت قدیم کی خرافات کی تائید میں پیش کرنا احمقانہ کوشش ہے۔ سبع سماوات کو سات اونچے کرے یعنی سیارات سبعہ کیوں نہ قرار دیا جائے اور عرش و کرسی کو اقتدار الٰہی کیوں نہ کہہ لیا جائے مگر یہ تاویلیں بھی قطعی نہیں۔] کی طرف رجوع کرنا چاہئے جب یہ بات معلوم ہوگئی تو اب جاننا چاہئے کہ اس طرف پر افلاک کا شمار باعتبار حرکات کواکب ثابت کرنا محض باطل اور وہ بھی چند مفروضات پر مبنی ہے کہ وہ بھی بےاصل ہیں ان مفروضات میں سے ایک مفروضہ تو یہ ہے کہ وہ زعم کرتے ہیں کہ توڑ جوڑ اجسام فلکیہ کا بالکل محال ہے اور ایک مفروضہ یہ ہے کہ تمام افلاک ایک دوسرے سے باہم ملے ہوئے ہیں جیسا کہ پیاز کے چھلکے کہ وہ ایک دوسرے سے باہم متصل ہیں اور یہ مقدمات اسے مستلزم ہیں کہ فلک الافلاک کی حرکت سے تمام افلاک میں حرکت جبریہ ہو اور یہ جملہ مفروضات سے جو لازم آتا ہے سب کا سب باطل محض ہے کیونکہ آسمان کا پھٹ جانا عقلاً جائز اور نقلاً واجب ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ (کہ جب آسمان پھٹ جائے گا) اور مثل اس کے بہت سی آیتوں سے آسمان کا پھٹنا ثابت ہوتا ہے اور اسی طرح آسمانوں کا باہم متصل نہ ہونا اور ہر دو آسمان کے مابین مسافت کا ہونا شرعاً ثابت ہے۔ ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک وقت حضور فخر عالم ﷺ اور صحابہ تشریف فرما تھے کہ ایک بادل آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا : ابر ہے۔ زمین کے لیے روایت کی مثل ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ایسی قوم کی طرف بھی بھیجتا ہے کہ جو اس کا شکر نہیں کرتی نہ اس سے دعا مانگتی ہے پھر فرمایا جانتے ہو یہ تمہارے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ عالم ہیں۔ فرمایا آسمان ہے جو ایک سقف محفوظ اور موج بستہ ہے۔ پھر فرمایا جانتے ہو تمہارے اور آسمان کے درمیان کس قدر مسافت ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور رسول ہی کو خبر ہے۔ فرمایا : پانچ سو برس کی پھر فرمایا : جانتے ہو کہ اسکے اوپر کیا ہے ؟ عرض کیا اللہ اور رسول ﷺ کو علم ہے۔ فرمایا ایک اور آسمان ہے کہ اس آسمان اور اس کے مابین پانچ سو برس کی مسافت ہے اسی طرح رسول خدا ﷺ فرماتے رہے اور صحابہ ؓ سنتے رہے اور جواب دیتے رہے حتیٰ کہ آپ ﷺ نے سات آسمان گنوائے اور ہر دو آسمان کے درمیان مثل اسی بعد (500) پانچ سو برس کے جو آسمان دنیا اور زمین کے مابین ہے ثابت فرمایا پھر فرمایا جانتے ہو ان سب کے اوپر کیا ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ خبر ہے۔ فرمایا ان سب کے اوپر عرش عظیم ہے اس کے اور آسمان کے مابین پانچ سو برس کی مسافت ہے پھر فرمایا جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے صحابہ نے کہا اللہ اور رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں فرمایا زمین ہے پھر فرمایا کچھ خبر ہے کہ اس کے نیچے کیا ہے صحابہ نے مثل سابق ہی جواب دیا۔ فرمایا اس کے نیچے ایک اور زمین ہے اور دونوں زمینوں کے مابین پانچ سو برس کی مسافت ہے غرض کہ حضور ﷺ نے ساتوں زمینیں شمار فرما کر ہر ایک کے مابین پانچسو برس کی مسافت ظاہر فرمائی پھر فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی کہ جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر تم یہاں سے ایک رسّی سب سے نیچے کی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ رسّی اللہ کی ذات پر جا کر اترے گی۔ پھر حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھی :۔ ھُوَ الْاَوّلُ وَ الْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ( وہی آخر ہے وہی ظاہر وہی باطن ہے اور وہی ہر شے کو جاننے والا ہے) اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اس آیت کو تلاوت فرمانا اس پر دلیل قاطع ہے کہ حضور نے ان الفاظ سے کہ وہ رسّی اللہ پر اترے گی یہ مراد لی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت پر اترے گی اور اللہ کا علم ہر مکان میں ہے اور وہ خود عرش پر ہے (چنانچہ اللہ نے خود اپنی نسبت فرمایا ہے : اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْش اسْتَویٰ ( یعنی رحمن عرش پر قائم ہے) میں (مفسر) کہتا ہوں کہ حضور ﷺ کا یہ فرمانا کہ وہ رسّی اللہ پر اترے گی۔ متشابہات (5) [ ظاہر حدیث سے چند امور پر روشنی پڑتی ہے سات آسمان ہیں ہر آسمان کا فاصلہ دوسرے آسمان سے پانچسو برس کی راہ ہے۔ ہر آسمان دوسرے آسمان سے اوپر ہے۔ عرش سب کے اوپر ہے۔ سات زمینیں ہیں ہر زمین کا فاصلہ دوسری زمین سے پانچ سو برس کی راہ کے برابر ہے اگر زمین کی طرف کوئی رسّی لٹکائی جائے تو ذات خدا پر منتہی ہوگی۔ اس کے ثبوت میں حضور نے آیت : ہو الاول۔۔ تلاوت فرمائی۔ ترمذی کے نزدیک ذات خدا سے علم اور قدرت مراد ہے مؤلف کے نزدیک رسّی کا ذات پر منتہی ہونا متشابہات میں سے ہے ناقابل فہم۔ صوفیہ کے نزدیک اللہ کی معیت بلاکیف ہر شی کے لیے ثابت ہے اس فقیر کے نزدیک حدیث یا جزاء بغیر کسی تاویل کے صحیح ہے اور صوفیہ کا قول بھی حقیقت پر مبنی ہے ترمذی کی تاویل کی ضرورت نہیں نہ حدیث کا آخری حصہ متشابہات میں سے ہے حضور کا آیت : ھو الاول .... کو بطور ثبوت تلاوت فرمانا خود اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ حدیث کا آخری حصہ متشابہات میں سے نہیں ہے ورنہ آیت قرآن کو بطور دلیل نہ پیش کیا جاتا متشابہات یونہی واجب التسلیم ہیں۔ دلیل کی روشنی میں فہم و افہام نازیبا ہے۔ سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت مذکورہ متشابہات میں سے نہیں ہے ورنہ ایک متشابہ کی ثبوت میں دوسرے متشابہ کو پیش کرنا جو بجائے خود ناقابل فہم ہے نہ فقط غیر مفید بلکہ کلام بلغاء کے خلاف ہے۔ ترمذی کا ذات سے علم وقدرت مراد لینا یا آیت مذکورہ کی تاویل میں بعض متکلمین کا یہ کہنا کہ اللہ کے اوّل آخر اور ظاہر باطن ہونے سے مراد ہے اس کی قدرت اور حکمت کا ظاہر اور باطن ہونا۔ قصور علمی کی سپر اندازی اور کلام کو صحیح کرنے کے لیے خود ساختہ توجیہ ہے حقیقی مطلب وہی ہے جو صوفیہ صافیہ نے بیان کیا کہ اللہ ہر چیز کے ساتھ ہے۔ لیکن اس کی معیت بےکیف ہے۔ اس کا کوئی رنگ ہے نہ بو ‘ نہ شکل ‘ نہ مسافت ‘ نہ احتیاج زبانی ‘ نہ اقتران مکانی ذات خداوندی اتنی لطیف ہے کہ اس کی لطافت ہر تصور سے ما وراء ہے وہ ایسی نازک حقیقت ہے جو ہر بےحقیقت کو حقیقت کے لباس میں نمودار کرتی اور ہر جگہ ہر وقت ہر شیء کو محیط ہونے کے باوجود خود نہ مرئی ہے۔ نہ مسموع نہ مشموم نہ ملموس نہ معقول نہ متصور گویا ہر چیز اسی کی پر تو اندازی سے ظاہر ہے ورنہ حقیقت میں بےحقیقت روحانیت کی لطیف ترین تنقیح اور مشاہدات سے قطع نظر کرکے مادی موشگافیاں بھی اسی نتیجہ تک پہنچ جاتی ہیں جس نتیجہ تک صوفی کا مشاہدہ پہنچتا ہے مادۂ اولیٰ کیا ہے۔ جرثومہ اولیٰ جو ہر اوّل کائنات کا سنگ بنیاد۔ اوّل ترین ایٹم کیا ہے اس کی کیا حقیقت ہے پوست کھینچ کر دیکھو تو برقیات مثبت منفی لہریں اور متضاد القویٰ کرنیں ہیں جن میں کوئی رنگ نہیں کوئی بو نہیں لیکن قوام ہے وزن ہے حجم ہے مسافت ہے لیکن مثبت منفی لہروں کی کیا حقیقت ہے محض طاقت خالص قوت جو پیمائش سے خارج ہے ضخامت نہیں رکھتی حجم سے منزہ ہے پھر طاقت اور قوت کی مزید تحلیل کرو۔ قوت برقیہ کی تلطیف کرو تو ایک بےکیف نور ہر روشنی سے بلند اور ہر تصور سے ماوراء ہر طاقت کو طاقت بنانے والا ہر قوت میں چھپا ہوا اور ہر طاقت کے روپ میں جھلکنے والا ملے گا اس سے آگے کی حقیقت ناقابل تعبیر ہے صحیح ہے ” اللہ نور السماوات والارض “ ہر چیز کی تحلیل کرتے جاؤ تو تصور کی آخری حد پر وہی حقیقت ملے گی پھر ہر چیز کی تکثیف ‘ تشکیل ‘ تلوین اور تجسیم کرتے آؤ تو وہی باطن حقیقت سب سے زیادہ ظاہر نظر آئے گی بلکہ وہ ظاہر ہوگی اس کے علاوہ کچھ دست نظر میں نہ آئے گا پس اوّل بھی وہی ہے اور آخر بھی وہی تلطیف کی آخری حد بھی وہی ہے اور تکثیف کا انتہائی نقطہ بھی وہی ہے۔ ہر سلسلہ خیال تحتانی ہو یا فوقانی تکثیف کی جانب اس کو کھینچا جائے یا تلطیف کی جانب اسی حقیقت بےمثال پر جا کر ٹوٹ آئے گا پس وہ ہر شئی کے ساتھ ہے مگر بلا کیف اور ہر مادی مسلسل رسّی اسی کی ذات پر پہنچ کر اترے گی رہا سماوات کا باہمی فاصلہ اور عرش کا سب سے بالا ہونا تو یہ حقیقت بالکل بدیہی ہے کہ اس کائنات میں کوئی کرہ دوسرے سے متصل نہیں ‘ نہ چسپاں ہے ‘ نہ دوسرے کو محیط ایک فضائی خلاء ہے ہر کرہ اس میں معلق ہے اور ہر سیارہ اور ستارہ سریع اور بطی حرکت کے ساتھ ہموار رفتار سے اس میں تیر رہا ہے پانچ سو برس کی راہ کوئی محدود مسافت نہیں معین مقدار نہیں نہ مسافر کی تعیین ہے نہ رفتار کی نہ سرعت اور بطوء کی سفر جسمانی ہے یا نظری یا برقی یا نوری کچھ نہیں معلوم اس لیے اتنا ہی سمجھا جاسکتا ہے کہ کروں کے مابین مسافت بعیدہ ہے اور اقتدار خداوندی سب سے بالا ہے سب سے اعلیٰ ہے ممکن ہے کہ کسی کرہ کو عرش بریں فرمایا ہو اور وہ مظہر نور جمال خصوصیت کے ساتھ اسی طرح ہو جس طرح قلب مؤمن جلوہ گاہ الوہیت ہے۔ واللہ اعلم ] میں سے ہے جیسا کہ آیت : الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی اور ہوسکتا ہے کہ حضور ﷺ کی مراد اس سے یہ ہو کہ وہ رسّی اللہ کے عرش پر اترے گی مضاف کو حذف کردیا گیا ہے۔ اس تقدیر پر حدیث اس پر دلالت کرے گی کہ عرش اور اس کے اندر جس قدر سمٰوٰت ہیں سب کے سب کروی ہیں اور عرش زمین کے اطراف کو محیط ہے تو حدیث کے معنی اس تقدیر پر یہ ہوں گے کہ اگر تم ایک رسّی سب سے نیچے کی زمین کی طرف لٹکاؤتو وہ ساتوں آسمانوں اور اللہ تعالیٰ کے عرش عظیم پر جا کر لگے گی اور صوفیہ کرام کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی معیت بلا کیف ہر شئے کے لئے ثابت ہے اور نیز فرماتے ہیں کہ مؤمن کے قلب پر جو عالم صغیر میں اللہ تعالیٰ کا عرش ہے ایک خاص تجلی ہے اور ایک تجلی خاص کعبہ کے اندر رکھی گئی ہے اور اسی طرح ایک تجلی رحمانی عرش پر واقع ہے جو عالم کبیر کا قلب ہے اور آیت : اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰمیں اسی تجلی کی طرف اشارہ ہے اور اسی لیے بعض نے کہا ہے کہ حدیث سابق میں جو آیا ہے اگر تم ایک رسّی سب سے نیچے کی زمین کی جانب لٹکاؤ تو وہ اللہ کی ذات پر اترے گی اس میں تاویل کی حاجت نہیں بلکہ حقیقتاً اس رسّی کا اللہ پر اترنا جائز ہے اور یہ ایک ایسا مضمون ہے جیسا کہ جناب باری نے اپنے کلام پاک میں فرمایا کہ مجھے بندہ مؤمن کے دل کے سوا کوئی شے بھی سما نہیں سکتی۔ “ (حدیث قدسی) ترمذی اور ابو داوٗد نے بروایت حضرت عباس ؓ ایک حدیث ذکر کی ہے کہ جس میں یہ مضمون ہے کہ آسمان اور زمین کے مابین اکہتر یا بہتر یا تہتر برس کا فاصلہ ہے اور جو آسمان اس سے اوپر ہے اس کے اور اس کے مابین بھی اسی قدر فاصلہ ہے اور اس طرح حضور سرور عالم ﷺ نے سات آسمان تک شمار فرمائے اور فرمایا کہ ساتویں آسمان کے اوپر ایک دریا ہے کہ اس کے نیچے اور اوپر والے حصہ کے مابین اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کا پھر اس سب کے اوپر آٹھ فرشتے بز کو ہی 1 ؂ جیسے ہیں کہ ان کے سموں اور سرینوں کے مابین اتنی مسافت ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے کی اور ان کی پشت پر عرش عظیم ہے کہ اس کے اعلیٰ اور اسفل کے درمیان بھی اتنی ہی مسافت ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی اس پر اللہ تعالیٰ ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں یہ اختلاف جو دربارۂ مسافت احادیث میں آیا ہے سو یہ اختلاف یا تو چلنے والوں کے اختلاف کی وجہ سے ہو کہ اگر رفتار تیز ہو تو مسافت کم مدت میں طے ہوگی اور جو دھیمی ہے تو زیادہ مدت لگے گی اور یا یہ وجہ ہو کہ مسافت کا بتلانا منظور نہیں بلکہ اس کی زیادتی بیان کرنی مقصود ہے 2 ؂ اور یہ جو وارد ہوا ہے کہ اکہتر یا بہتر یا تہتر تو یہ راوی کا شک ہے کہ یا تو اکہتر فرمایا یا بہتر یا تہتر واللہ اعلم سلسلہ کلام یہاں بہت طویل ہوگیا ہے۔ حاصل مقصود یہ ہے کہ علم ہیئت بالکل باطل اور نقش بر آب ہے اور عقلاً یہ امر جائز اور شرعاً ثابت ہے کہ تمام کواکب آسمان دنیا میں ثابت ہیں چناچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے : زَیَّنَا السَّمَآء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ ( یعنی آسمان دنیا کو ہم نے کواکب سے زینت دی) پس تمام کواکب اپنے فلک میں تیز ہو یا دھیمی جس چال سے اللہ میاں چاہتا ہے چلتے ہیں جیسے مچھلی پانی میں تیرتی پھرتی ہے۔ اس تقدیر پر آسمان کو حرکت نہیں۔ واللہ اعلم۔ وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ ( اور وہ ہر شے کو جاننے والا ہے) یہ آیت مضمون سابق کے لیے بمنزلہ دلیل اور علت کے ہے۔ گویا حاصل مرام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ چونکہ تمام اشیاء کی حقیقت کو پوری طرح جانتا ہے اس لیے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ بطرز مناسب کامل اور بطریق احسن نافع پیدا کیا ہے۔ ابو جعفر، ابو عمرو ‘ کسائی اور قالون وَھُوَ اور وھی کو جبکہ ہاء سے پہلے اور واؤ ہو بسکون ہاء پڑھتے ہیں جیسے یہاں اور جیسے : وَھِیَ تَجْرِیْ بِھِم اور ہائے سے پہلے فا یا لام ہو تو جب بھی سکون ہی سے پڑھتے ہیں جیسے فَھُوَ وَلِیُّھُمْ اور اِنَّ اللّٰہَ لَھُوَ الْوَلِیُّ اور فَھِیَ کَالْحِجَارَۃِ اور لَھِیَ الْحَیْوَان اور کسائی و قالون ثم کے بعد جب ہاء واقع ہو تو اس وقت بھی ہاء کو مساکن کرتے ہیں جیسے : ثُمَّ ھُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ ۔ علامہ بغوی فرماتے ہیں کہ کسائی اور قالون نے ھُوَ کی ہاء کو آیت : اَنْ یَمِلَّ ھُوَ میں بھی ساکن پڑھا ہے لیکن قراء کے نزدیک بالاتفاق ایسے موقع میں اسکان نہیں۔ شاطبی نے اسی طرح فرمایا ہے۔
Top