Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 36
فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ١۪ وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
فَاَزَلَّهُمَا : پھر ان دونوں کو پھسلایا الشَّيْطَانُ : شیطان عَنْهَا : اس سے فَاَخْرَجَهُمَا : پھر انہیں نکلوا دیا مِمَّا ۔ کَانَا : سے جو۔ وہ تھے فِیْهِ : اس میں وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ بَعْضُكُمْ : تمہارے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے عَدُوْ : دشمن وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُسْتَقَرٌّ : ٹھکانہ وَمَتَاعٌ : اور سامان اِلٰى۔ حِیْنٍ : تک۔ وقت
پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس (عیش ونشاط) میں تھے، اس سے ان کو نکلوا دیا۔ تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں سے) چلے جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کر دیا گیا) ہے
فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطَانُ عَنْھَا ( پھر پھسلا دیا شیطان نے انہیں وہاں سے) عنہا میں ضمیر ھا یا تو شجرہ کی طرف راجع ہے اس وقت یہ معنی ہوں گے کہ شیطان نے آدم و حوا (علیہما السلام) کو اس درخت کے کھانے کے سبب رستہ سے ڈگمگا دیا اور یا جنت کی طرف راجع ہے اس وقت یہ معنی ہوں گے کہ شیطان نے انہیں جنت سے دور کردیا اور اس آخری معنی کی تائید حمزہ کی قرأت فَنَازَلَّھُمَا سے ہوتی ہے جس کے معنی ہیں : ” دور کیا ان دونوں کو “ شیطان شطن بمعنی بعدْ ( دوری) سے مشتق ہے کیونکہ شیطان بھی خیر اور رحمت سے دور اور پرے ہے اس بارے میں اختلاف ہے کہ جب شیطان بارگاہ خداوندی سے ملعون اور راندۂ درگار ہوا اور اسے نکل جانے کا حکم ہوا تو پھر کسی طریق سے اسے آدم ( علیہ السلام) تک رسائی ہوئی کیونکہ وہ تو جنت میں تھے۔ علامہ بغوی فرماتے ہیں کہ جب ابلیس نے آدم و حوا ( علیہ السلام) کو بہکانے کے لیے جنت میں جانے کا ارادہ کیا تو اسے جنت کے نگہبانوں نے روکا تو اس کے پاس سانپ آیا چونکہ ابلیس کی پہلے سے اس کے ساتھ دوستی تھی اور یہ سانپ کل جانوروں سے زیادہ خوبصورت تھا اس کے چاروں پاؤں مثل اونٹ کے تھے اور یہ بھی جنت کا محافظ تھا ابلیس نے کہا تو مجھے اپنے منہ میں رکھ کر جنت میں پہنچا دے اس نے قبول کیا اور منہ میں لے کر چلا جب جنت کے اور محافظ ملے تو انہیں کچھ خبر نہ ہوئی کہ ابلیس اس کے منہ میں بیٹھا ہے یہ اس طریق سے جنت میں چلا گیا۔ ابن جریر نے ابن مسعود ابن عباس، ابو العالیہ، وہب بن منبہ اور محمد بن قیس ؓ سے بھی اسی روایت کے موافق روایت کیا ہے حسن نے کہا ہے کہ آدم و حوا (علیہما السلام) اکثر جنت کے دروازے پر آیا کرتے تھے ایک روز جو وہ معمول کے موافق آئے تو شیطان نے انہیں بہکا دیا۔ علامہ بغوی نے فرمایا کہ جب حضرت آدم جنت میں گئے تو بولے کیا خوب ہو جو ہمیشہ اس میں رہا کریں پھر جبکہ شیطان جنت میں آدم و حوا کے پاس جا کھڑا ہوا تو انہیں خبر نہ تھی کہ یہ ابلیس ہے ( یہ بات سنتے ہی) بےاختیار زارو قطاررونے لگا اور اتنا رویا اور نوحہ کیا کہ ان دونوں پر بھی رقت طاری ہوگئی ( سب سے پہلے نوحہ کرنے والا ابلیس ہے) جب آدم و حوا نے اس کے نوحہ وزاری کو دیکھا تو بولے کیوں روتا ہے ؟ ابلیس نے کہا مجھے تمہارے ہی اوپر رونا آتا ہے کہ اب تم دونوں مرو گے اور جنت کی نعمتیں تم سے چھوٹ جائیں گے یہ خبر وحشت اثر سن کر آدم و حوا (علیہما السلام) کو بھی اثر ہوا اور دونوں کے دونوں غمزدہ ہوگئے جب ابلیس لعین نے دیکھا کہ میرا جادو اثر کر گیا تو چارہ گری کے لہجے میں کہنے لگا کہ خیر جو مقدر میں ہے وہ تو ہو کر ہی رہے گا لیکن اب میں تمہیں ایک تدبیر بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ فلاں درخت کھانے سے ہمیشہ کی زندگی نصیب ہوجاتی ہے۔ حضرت آدم نے انکار کیا اور کہا کہ میں اس درخت کو کبھی نہ کھاؤں گا جب اس نے دیکھا کہ میرے ہاتھ سے شکار نکلا تو بولا خدا کی قسم میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ آدم و حوا ( علیہ السلام) اس لعین کی باتوں میں آکر دھوکہ کھا گئے اور خیال کیا کہ بھلا ایساکون ہے جو خدا کی جھوٹی قسم کھائے ( آخر کار) پہلے تو حضرت حوا نے پیش قدمی کی اور جا کر اسے کھالیا پھر حضرت آدم ( علیہ السلام) نے کھایا۔ سعید بن المسیب ؓ اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) نے ہوش و حواس میں نہیں کھایا بلکہ حوا نے انہیں شراب پلا دی تھی جبکہ خود نشہ میں مست ہوگئے تو حوا انہیں کھینچ کر اس درخت کے پاس لے گئیں انہوں نے کھالیا۔ فَاَخْرَجَھُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ پس نکلوا دیا دونوں کو اس ( آرام) سے کہ جس میں تھے۔ ابن عباس اور قتادہ ؓ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے فرمایا آدم جو نعمتیں ہم نے تمہارے لیے جنت میں جائز اور مباح کردی تھیں کیا وہ کافی نہ تھی جو یہ تم نے کھایا آدم نے عرض کیا خداوندا جنت کی نعمتیں بیشک میرے لیے بہت تھیں مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ کوئی تیرے نام کی جھوٹی قسم بھی کھاتا ہے۔ سعید بن جبیر ؓ نے ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ( علیہ السلام) سے فرمایا آدم تم نے یہ فعل کیوں کیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ الہ العالمین حوا نے ایسی باتیں بنائیں کہ وہ درخت مجھے بھلا معلوم ہوا۔ جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ میں اس پر عذاب مسلط کروں گا یعنی حمل میں تکلیف ہوگی اور پھر وضع حمل کے وقت دکھ اور تکلیف اور رنج علیحدہ اور ہر مہینے جو خون آیا کرے گا وہ جدا یہ سن کر حوا رونے لگیں حکم ہوا کہ تجھ پر اور تیری سب بیٹیوں پر رونا مسلط کیا گیا۔ وَ قُلْنَا اھْبِطُوْا ( اور ہم نے حکم دیا کہ تم سب اتر جاؤ) ُبَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ( تم ایک دوسرے کے دشمن ہو) بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدَوٌّ حال ہے ضمیر کی وجہ سے واؤ حالیہ کی ضرورت نہ رہی۔ علامہ بغوی نے عکرمہ ؓ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرکے کہا ہے یہ حدیث مرفوع ہی ہے کہ نبی ﷺ سانپوں کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا کرتے تھے اور فرمایا ہے جو انہیں خوف کی وجہ سے چھوڑ دے اور نہ مارے وہ ہم میں سے نہیں۔ ایک روایت میں ہے جب سے ہماری انکی ( یعنی سانپوں کی) لڑائی ہوئی پھر صلح نہیں ہوئی ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ میں جنوں کی ایک قوم مسلمان ہوگئی ہے اگر تم کہیں سانپ دیکھو تو (اسی وقت نہ مارو ممکن ہے کہ کوئی ان جنوں میں سے ہوا) اوّل اسے تین بار مہلت دو پھر اگر دل چاہئے تو مار ڈالو کیونکہ وہ شیطان ہے۔ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ ( اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے) مستقر موضع قرآن ہے۔ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حینَ ( اور نفع مندہونا ہے ایک مدت تک ( موت کے آنے تک)
Top