Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ، اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ
وَلَا تَلْبِسُوْا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ ( اور نہ ملاؤ سچ میں جھوٹ) لَبْسٌ کے معنی لغت میں خلط ( ملانا) ہے اور یہاں ایک بات کو دوسری کے ساتھ ایسی طرح رلانا ملانا مراد ہے جس سے دونوں میں کچھ فرق اور تمیز نہ رہے۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ اے بنی اسرائیل جو سچی بات یعنی محمد ﷺ کی نعت اور صفت میں نے تم پر اتاری ہے اسے باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اس کو اپنے ہاتھوں متغیر نہ کرو کہ حق اور باطل میں بالکل تمیز نہ رہے۔ مقاتل نے فرمایا ہے کہ توراۃ میں جو سرور کائنات خلاصہ موجودات محمد ﷺ کی صفت اور نعت وارد ہوئی تھی اس میں سے یہود نے بعض چیزوں کا تو اقرار کیا اور بعض کو چھپالیا اور یہ انہوں نے اس لیے کیا تاکہ اپنا کام بھی بن جائے اور خدا تعالیٰ کے دربار میں بھی جھوٹے نہ ہوں اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اس کے موافق وَ لَا تَلْبِسُوا الحَقَّ میں الحق سے مراد بعض اشیاء کا اقرار اور الباطل سے بعض کا چھپانا مراد ہے۔ وَ تَکْتُمُو الْحَقَّ ( اور نہ چھپاؤ حق بات) یا تو لا نہی کے تحت میں داخل ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے اور یا بعد واؤ کے ان مقدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور ترکیب اخیر کے موافق معنی یہ ہوں گے کہ حق و باطل کے ملانے جلانے اور حق بات کے چھپانے میں ان دونوں فعل کو جمع نہ کرو۔ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ( جان بوجھ کر) یعنی باوجود اسکے کہ تم جانتے ہو کہ محمد ﷺ نبی برحق ہیں اور اس سے بھی خوب واقف ہو کہ یہ ہمارا فعل ایک امر حق کو چھپانا ہے پھر بھی ایسے امور پر دلیر ہو یہ نہایت قبیح اور برا ہے کیونکہ اگر جاہل ہوتے تب تو بظاہر یہ عذر بھی ہوسکتا تھا کہ ہم جاہل تھے ہم کو خبر نہ تھی جان بوجھ کر جرأت کرنا بہت بےحیائی ہے۔
Top