Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
وَاَقِیْمُوْا : اور تم قائم کرو الصَّلَاةَ : نماز وَآتُوْا : اور ادا کرو الزَّکَاةَ : زکوۃ وَارْکَعُوْا : اور رکوع کرو مَعَ الرَّاكِعِیْنَ : رکوع کرنے والوں کے ساتھ
اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰة دیا کرو اور (خدا کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو
وَ اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ وَ اٰتُو الزَّکٰوۃَ ( اور قائم کرو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ) مراد یہ ہے کہ جیسی نماز مسلمان پڑھتے اور جیسی زکوٰۃ مسلمان دیتے ہیں ایسی ہی نماز اور زکوٰۃ تم بھی پڑھو اور ادا کرو۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفار جس طرح اصول 1 ؂ کے مکلف ہیں اسی طرح فروع ( یعنی احکام مثل نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہا) کے بھی ادا کرنے کے مخاطب اور مکلف ہیں۔ لفظ زکوٰۃ یا توز کا الزرع ( بڑھی کھیتی) سے مشتق ہے اور یا تزکی (پاک ہوا) سے مشتق ہے کیونکہ زکوٰۃ میں مال پاک بھی ہوجاتا ہے اور بڑھتا بھی ہے چناچہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے : یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقَات یعنی اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھتا ہے۔ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ( اور جھکو جھکنے والوں کے ساتھ) یعنی محمد ﷺ اور حضور کے صحابہ ؓ کے ساتھ مل کر نما زپڑھا کرو نماز کو بلفظ رکوع ذکر فرمایا حالانکہ رکوع نما زکا ایک رکن ہے خود عین نماز نہیں ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ حکم یہود کو ہے اور یہود کی نماز میں رکوع نہ تھا۔ اس آیت میں باجماعت نماز پڑھنے کی ترغیب وتحریض ہے۔ مسئلہ داؤد ظاہری کے نزدیک جماعت رکن ہے اور امام احمد کے نزدیک فرض رکن نہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک سنت موکدہ، واجب کے قریب ہے چناچہ صبح کی سنتیں سب سنتوں سے زیادہ مؤکد ہیں ہاں اگر یہ خوف ہو کہ جماعت فوت ہوجائے گی تو سنت ترک کردینا ضروری ہے اس سے معلوم ہوا کہ جماعت واجب کے قریب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے جماعت کی نماز ستائیس درجے افضل ہے علیحدہ نماز پڑھنے سے۔
Top