Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 46
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
الَّذِیْنَ : وہ جو يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ مُلَاقُوْ : رو برو ہونے والے رَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف رَاجِعُوْنَ : لوٹنے والے
اور جو یقین کئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
اَلَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ ( جنہیں خیال ہے) یعنی وہ لوگ جو اللہ کے ملنے کی امید یا یقین رکھتے ہیں۔ علامہ بغوی فرماتے ہیں کہ لفظ ظن اضداد سے ہے کبھی تو اس کے معنی شک کے ہوتے ہیں اور کبھی یقین کے۔ مراد یہ کہ لفظ ظن مشترک ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ لفظ مشترک تو نہیں اس کے معنی فقط گمان غالب کے ہیں لیکن مجازاً کبھی کبھی یقین کو ظن اس لئے بول دیتے ہیں کہ اس میں بھی ایک طرف غالب ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حق تعالیٰ نے جو لفظ ظن ارشاد فرمایا اور علم و یقین کا لفظ نہ فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ جسے اس امر کا گمان غالب بھی ہوگا کہ میں اللہ سے ملنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ نیکی بدی کا بد لہ دے گا تو وہ اگر عقل صحیح وتعلیم رکھتا ہوگا تو طاعت پر قائم رہنا اور معصیت سے مجتنب رہنا ضرر سے بچنے کے لیے اس پر سہل و آسان ہوجائے گا دیکھو اگر کسی کو بظن غالب یہ بات معلوم ہو کہ اس کو زہ (پیالہ ‘ 12) کا پانی زہر آلود ہے تو وہ پیاس کی تکلیف اور شدۃ کو برداشت کرلے گا اور اس پانی کو کبھی نہ پئے گا ایسے ہی اگر کسی کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ فلاں کو زہ (پیالہ ‘ 12) کا پانی امراض سے شفا دیتا ہے اور بدن میں قوت بخشتا ہے تو وہ اگرچہ تلخ اور بد مزہ ہی کیوں نہ ہو اسے خوشی خوشی پی جائے گا تو جب ایسے قلیل ضرر سے بچنے اور فانی نفع کے حاصل کرنے کے لیے آدمی ایسی مشقت کو برداشت کرلیتا ہے تو بھلا وہ شخص جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے وہ تعب و مشقت محبوب حقیقی کی رضا کے لیے کیونکر نہ گوارا کرلے گا اور چونکہ ان تکالیف کا محبوب نے حکم فرمادیا ہے اس لیے اس کی برداشت اور مشغولی میں اسے ایک طرح کی لذت اور مزہ آئے گا۔ اسی لیے فخر موجودات سرور عالم ﷺ نے فرمایا ہے : جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ ( یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے) اس حدیث کو حاکم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ اَنَّھُمْ مُّلَاقُوْا رَبِّھِمْ ( کہ ضرور وہ اپنے رب سے ملنے والے) یعنی وہ اس کی توقع رکھتے ہیں کہ اپنے رب کو آخرت میں دیکھنے والے ہیں سچ ہے کہ نماز مؤمن کی معراج ہے بندہ کے لیے رویت باری تعالیٰ کا وسیلہ بن جاتی ہے چناچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے : وَ مِنَ اللَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ( یعنی اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو یہ تمہارے لیے فرض زائد ہے عنقریب تمہیں تمہارا رب مقام محمود میں کھڑا کرے گا) ربیعہ بن کعب سے مروی ہے کہ میں سرور عالم ﷺ کے قریب سویا کرتا تھا ایک رات کا ذکر ہے کہ میں حضور کے پاس وضو کا پانی اور بعض حاجت کی چیزیں لایا تو حضور نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں چاہتا ہوں کہ حضور کے ساتھ جنت میں رہوں فرمایا اس کے سوا کچھ اور۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بس یہی۔ فرمایا اگر یہی مطلوب ہے تو یہ ہمت کر کہ کثرت سے سجدے کیا کر۔ ( یعنی کثرت سے نوافل پڑھا کر) اس کو مسلم نے روایت کیا، ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب حالتوں میں سجدہ کی حالت خدا تعالیٰ سے زیادہ قرب کی ہے اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مُلَاقُوْ رَبِّھِمْ میں لقاء سے حشر اور معاملہ خداوندی مراد ہے۔ وَ اَنَّھُمْ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ( اور بلا شبہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) یعنی جو اسے جانتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف جانے والے ہیں اور وہاں اللہ تعالیٰ نیک و بد کا بدلہ دینے والا ہے جو شخص اس کا لحاظ کرے گا کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے معاملہ پڑتا ہے اور وہاں جزا و سزا بھی ہونی ہے تو اسے صبر آسان ہوجائے گا۔ اسی لیے جو شخص مصیبت زدہ ہو اس کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا کرے۔
Top