Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد کرو، جو میں نے تم پر کئے تھے اور یہ کہ میں نے تم کو جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی
یٰبَنِیْ ٓ اِسْرَآءِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ ( اے بنی اسرائیل یاد کرو میرا احسان جو میں نے تم پر کیا) حق تعالیٰ نے اس مضمون کو تاکید کے لیے مکرر ذکر فرمایا اور اس میں ایک نعمت اور زیادہ یاد دلائی کہ تمہیں اوروں پر فضیلت دی اور یہ نعمت سب نعمت سے زیادہ ہے اور اسے بڑی سخت وعید کے ساتھ مربوط فرمایا ہے ( چناچہ آگے ارشاد ہوتا ہے) وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُم ( اور میں نے تمہیں فضیلت دی) ان کو فضیلت دینے سے ان کے آباؤ اجداد کا فضیلت دینا مراد ہے ( جیسے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تم لوگوں کو ہمیشہ دیتے لیتے رہے ہیں یعنی تمہارے باپ دادا کے ساتھ سلوک کرتے رہے ہیں) آباؤ اجداد سے بھی وہی لوگ مراد ہے جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں تھے اور جو ان کے بعد گذرے مگر انہوں نے اپنے دین میں رخنہ اندازی و فتنہ پر دازی نہیں کی۔ نبوۃ، کتاب اور علم، ایمان، اعمال صالحہ، ملک و عدالت اور انبیاء کی نصرت یہ سب نعمتیں اللہ نے بنی اسرائیل کو عطا فرمائیں۔ باپ دادا کی نعمت کو اولاد پر جتلانے کی وجہ یہ ہے کہ باپ دادوں میں اگر کوئی فضیلت ہوتی ہے تو وہ اولاد کے شرف کا باعث بن جاتی ہے تو وہ نعمتیں جو انہیں دی گئی تھیں گویا کہ وہ انہیں بھی دی گئیں۔ اس آیت میں بنی اسرائیل کو اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ تم نے اپنے شرف آبائی کو کم کردیا ہے اسے حاصل کرنا چاہئے اور اس کے حاصل کرنے کی یہی صورت ہے کہ محمد ﷺ اور قرآن پاک کا اتباع کرو اور یہی موسیٰ اور توراۃ کا اتباع ہے کیونکہ تمہارے آباء کو جو شرف و فضل حاصل ہوا تھا اس کی یہی صورت تھی کہ انہوں نے وحی اور انبیاء اور کتاب اللہ کا اتباع کیا تھا اسی طرح تم بھی کرو۔ عَلَی الْعَالَمِیْنَ ( جہاں کے لوگوں پر) سارے جہان والوں پر فضیلت دینے کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ اس زمانہ میں موجود تھے ان پر فضیلت عطا فرمائی۔ ابن جریر نے مجاہد ابو العالیہ اور قتادہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ یا یہ مطلب کہ جہاں والوں میں سے جن میں یہ فضائل نہیں ان پر فضیلت دی۔
Top