Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ لوگ (کسی اور طرح) مدد حاصل کر سکیں
وَاتَّقُوْا یَوْمًا ( اور ڈرو اس دن سے) دن سے ڈرنے کا مطلب ہے اس دن کے عذاب و شدائد سے ڈرنا۔ لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا ( کہ نہ کام آئے گا کوئی کسی کے کچھ) مراد یہ ہے کہ کوئی کسی کافر کو کچھ نفع نہ پہنچا سکے گا یہ معنی نہیں کہ مسلمان کے کام نہ آئے گا کیونکہ آیات و احادیث یہ صاف بتارہی ہیں کہ حضرات انبیاء ( علیہ السلام) اور دیگر نیک بندے گنہگاروں کی شفاعت کریں گے اور اس پر جملہ اہل حق کا اجماع ہے اور شیئاً سے مراد اگر حق ہو تو اس وقت لفظ شیئاً آیت میں مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا اور آیت کے یہ معنے ہونگے ” کہ کوئی کسی کے لیے حق کا بدلہ نہ دے گا اور اگر شیئاً سے مراد جزاء ہو تو مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا اور آیت کے یہ معنی ہونگے کہ کوئی کسی کو بدلہ نہ دے گا خواہ کسی قسم کا بدلہ دینا ہو۔ بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ بعض نے کہا ہے یہ معنی ہیں کہ کوئی قیامت کی سختیوں اور عذاب میں کسی کے لیے کفایت نہ کرے گا۔ جملہ لَا تَجْزِیْ نَفْسٌ۔۔ یوْمًا کی صفت ہے اور ضمیر جو موصوف کی طرف عائد ہوتی ہے محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے لا تجزی فیہ یعنی اس دن کوئی کام نہ آئے گا۔ وَ لَا یُقْبَلُ ( اور نہ قبول ہوگی) ابن کثیر ‘ ابو عمرو اور یعقوب نے لَا تقبل تاء فوقانی کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی قراء یا کے ساتھ پڑھتے ہیں کیونکہ فاعل جب مؤنث غیر حقیقی ہوتا ہے تو اس میں فعل کو مذکر مؤنث پڑھنا دونوں جائز ہیں۔ مِنْھَا ( اس کی طرف سے) ضمیر ہا دو احتمال رکھتی ہے (1) یا تو نفس عاصیہ (گنہگار نفس کی طرف راجع ہو۔ اس تقدیر پر آیت کے یہ معنی ہوں گے ” گنہگار کی طرف سے سفارش مقبول نہ ہوگ (2) یا نفس شافعہ ( شفاعت کرنے والے) کی طرف راجع ہو اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ کسی متنفس کی شفاعت منظور نہ ہوگی۔ شفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ ( کوئی سفارش اور نہ لیا جائے گا اس سے کوئی بدل عدل سے مراد فدیہ بعض نے کہا بدل لغت میں عدل کے معنی برابر کرنے کے ہیں۔ وَّ لَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ ( اور نہ انہیں مدد پہنچے گی) یعنی وہ اللہ کے عذاب سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ ضمیر ھم دوسرے نفس کی طرف راجع ہے۔ بظاہر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جمع کی ضمیر واحد کی طرف کس طرح راجع ہوئی تو جواب یہ ہے کہ لفظ نفس چونکہ نفی کے نیچے آگیا ہے اس لیے وہ عام ہوگیا اب نفس واحد محض نہیں رہا بلکہ جمع کے حکم میں ہوگیا۔ باری تعالیٰ کا مقصود اس آیت سے یہ ہے کہ کفار سے کوئی شخص کسی طرح سے عذاب دفع نہیں کرسکتا کیونکہ کسی پر سے عذاب دور کرنے کی چند صورتیں ہوا کرتی ہیں یا تو زبردستی اس سزا دینے والے سے ہاتھ سے چھڑائے جسے نصرت ( مدد ‘ 12) کہتے ہیں یا زبردستی تو نہیں کرسکتے مگر کسی کے کہنے سے اسے مفت چھوڑ دیا جاتا ہے اسے شفاعت کہتے ہیں یا جو اس کے ذمے ہو وہ ادا کردیا جاتا ہے یہ جزاء ہے یا جو اس کے ذمے ہے وہ تو ادا نہیں کیا مگر اس کا بدل دے دیا یہ عدل ہے اللہ تعالیٰ نے ان سب صورتوں کی نفی فرمادی تو حاصل یہ ہوا کہ قیامت میں کوئی بھی کسی کافر سے کسی تدبیر کے ساتھ عذاب دفع نہ کرسکے گا۔ شان ( علیہ السلام) ِ نزول اس آیت کا یہ ہوا تھا کہ یہود دعویٰ کرتے تھے کہ ہمارے باپ داد ہماری شفاعت کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس گمان باطل کو رد فرما دیا۔
Top