Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 52
ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
ثُمَّ : پھر عَفَوْنَا : ہم نے معاف کردیا عَنْكُمْ : تم سے مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ذَٰلِکَ : یہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کر دیا، تاکہ تم شکر کرو
ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن ( پھر اس کے بعد بھی ہم نے تم سے در گذر کی تاکہ تم احسان مانو) یعنی جب تم نے توبہ کی تو ہم نے درگذر کی عفو ( گناہ کے محو کرنے کو کہتے ہیں) عفا ( مٹ گیا، محو ہوا) سے مشتق ہے۔ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ ( یعنی بعد اس معبود بنانے کے) مفسرین نے کہا ہے کہ شکر سے مراد طاعت ہے اور شکر قلب، زبان، اعضا سب سے ہوتا ہے۔ حسن نے کہا ہے کہ نعمت کا شکر اس کا ذکر کرنا ہے اور سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی (رح) فرماتے ہیں کہ نعمت کا شکریہ ہے کہ اس نعمت کو منعم حقیقی کی رضا میں صرف کیا جائے بعض نے کہا ہے کہ شکر کی حقیقت شکر سے عجز کا ظاہر کرنا ہے۔ علامہ بغوی فرماتے ہیں منقول ہے کہ موسیٰ بارگاہ باری تعالیٰ میں عرض کیا کرتے تھے خداوندا مجھے آپ نے سینکڑوں نعمتیں عطا فرمائیں اور مجھے آپ نے ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا بھی حکم فرمایا مگر اے پروردگار میرا کسی نعمت پر شکر ادا کرنا بھی تو تیری ہی نعمت ہے۔ ارشاد ہو : اموسیٰ ! تم بڑے عالم ہو تم سے زیادہ اس زمانے میں کسی کا علم نہیں یاد رکھو میرے بندہ کو شکر اتنا ہی کافی ہے کہ وہ یہ اعتقاد رکھے کہ جو نعمت ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ حضرت داؤد ( علیہ السلام) اپنی مناجات میں عرض کیا کرتے تھے کہ پاکی اس ذات کے لیے جس نے بندہ کے شکر سے عاجز ہونے کے اقرار کو شکر قرار دیا جیسا کہ معرفت سے عاجز ہونے کے اقرار کو معرفت بنا یا۔
Top