Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 64
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ۚ فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ
ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ : پھر تم پھرگئے مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ : اس کے بعد فَلَوْلَا : پس اگر نہ فَضْلُ اللہِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهُ : اور اس کی رحمت لَكُنْتُمْ ۔ مِنَ : تو تم تھے۔ سے الْخَاسِرِیْنَ : نقصان اٹھانے والے
تو تم اس کے بعد (عہد سے) پھر گئے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو تم خسارے میں پڑے گئے ہوتے
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَلَولَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ ( پھر تم اس کے بعد پھرگئے (یعنی عہد کے پورا کرنے سے تم نے منہ پھیرا) تو اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی) فضل سے مہلت دینا اور عذاب کو مؤخر کرنا مراد ہے اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اے نبی اسرائیل اگر محمد ﷺ کے وجود با جود کا فضل تم پر نہ ہوتا تو تم پر ضرور عذاب الٰہی نازل ہوتا کیونکہ حق تعالیٰ نے حضور سرور عالم ﷺ کو رحمت للعالمین بنایا ہے اس لیے حضور کے وجود سراپا جود سے عذاب مؤخر کردیا گیا اور دھنس جانے اور صورتیں بدل جانے کا عذاب اٹھا لیا گیا۔ لَکُنْتُمْ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ( تو بیشک تم خسارہ یاب ہوتے) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو تم اب بھی خسارہ اور عذاب میں گرفتار ہوتے جس طرح کہ پہلے اگر اللہ کا حکم قبول نہ کرتے تو پہاڑ سے ہلاک کر ڈالے جاتے۔
Top