Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 64
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب (تیار) ہے
خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ ( ان کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے) تو وہ بھلائی اور نیک باتوں کو یاد نہیں رکھ سکتے قلب ایک گوشت کے لوتھڑے کا نام ہے ( جو صنوبری شکل میں بائی جانب پسلیوں کے قریب لٹکا ہوا ہے) لیکن کبھی اس کا اطلاق عقل اور معرفت پر بھی ہوا کرتا ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ارشاد ہوا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ واضح ہو کہ خدا تعالیٰ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے خواہ وہ اعراض ہوں یا جواہر اور اسباب سب کے اسباب نظر یہ ہیں جن کے عقب میں خدا تعالیٰ ان کے نتائج پیدا کرتا ہے تو جب آدمی اپنے حواس یعنی کان ‘ آنکھ وغیرہ سے کام لیتا اور انہیں استعمال میں لاتا ہے تو اس کے بعد خدا علم بالمحسوسات پیدا کرتا ہے اور جب اسے علم بالمحسوسات حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ذہن کو دو مقدموں کی ترتیب میں خرچ کرتا ہے تو حق سبحانہ و تعالیٰ علم بالنتیجہ پیدا کرتا ہے اگر خدا چاہے تو کوئی چیز بھی پیدا نہ کرے اور حواس کو معطل و بیکار اور ذہن کو مشوش و پریشان کردے اور چاہے تو علم بالمحسوسات حاصل کرادے لیکن یہ علم قلب میں ذرا بھی مؤثر و مفید نہ ہو۔ اسی واسطے جناب نبی عربی ﷺ نے فرمایا کہ اِنَّ قُلُوْبَ بَنِیْ اٰدَمَ کُلّھَا بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُّصَرِّفُہٗ کَیْفَ یَشَآءُ ثُمَّ قَالَ اَللّٰھُمَّ مُصَرِّفَّ الْقلوب صرف قُلُوْبُنَا عَلٰی طَاعَتِک . (یعنی تمام بنی آدمی کے دل خدا کی دو انگلیوں میں اس طرح واقع ہیں جیسے ایک دل۔ وہ دل کو جس طرف چاہتا ہے پلٹ دیتا ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا بار خدایا دلوں کے پلٹ دینے والے تو ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف پلٹ دے۔ (مسلم) الغرض چونکہ خدا تعالیٰ کو کفار کے دلوں کا پاک کرنا منظور نہ تھا اس لیے ان کو آیات میں فکر کرنے اور قدرت کی نشانیوں میں غور کرنے سے روک دیا اگرچہ انہوں نے آیات و معجزات بھی دیکھے مگر اس کے بعد بھی ان کے دلوں میں ایمان و یقین کے اثر قبول کرنے کا ملکہ پیدا نہیں کیا۔ اسی عدم تاثر اور تصریف قلوب کو کہیں ختم سے اور کہیں طبع سے کسی موقع پر اغفال سے ‘ کسی جگہ اقساء اور غشاوہ سے مجازاً تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلاً : خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا نے اس گوشت کے لوتھڑے پر جسے ہم دل کہتے ہیں کوئی پتھر یا شیشے کی سچ مچ مہرلگادی ہے بلکہ مہر لگانے کا یہ مطلب ہے کہ اس نے دلوں میں یہ صلاحیت و قابلیت ہی پیدا نہیں کی کہ وہ ایمان و یقین کے اثر کو قبول کرلیں یا یوں کہئے کہ خدا نے ان کے دلوں کو اور حواس کو ان چیزوں سے تمثیل دی ہے جن پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے یا یوں کہو کہ ختم سے وہ سیاہی مراد ہے جو گناہوں کے مرتکب ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ گنہگاروں کے دلوں پر پیدا کردیتا ہے چناچہ امام بغوی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : المؤمن اذا اذنب ذنبا کانت نکتۃ سودآء فی قلبہ فان تاب و نزع و استَغْفَر صُقِلَ قلبہ منھا و ان زاد زادت حتیٰ تعلو قلبہ فذٰلک الران الذی ذکر اللہ فی کتابہ کَلَّا بل ران عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْایَکْسِبُوْنَ ( یعنی مؤمن جب گناہ کرتا ہے تو ایک چھوٹا سا سیاہ نقطہ اس کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے پھر اگر اس نے جھٹ پٹ توبہ کرلی اور آگے کو گناہ سے باز رہا اور بارگاہ الٰہی میں عفو جرائم کی درخواست کی تو اس کے دل سے وہ سیاہ نقطہ چھیل دیا جاتا اور قلب صاف شفاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بھی بڑھتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتا ہے تو جس زنگ کا خدا نے اپنی کتاب یعنی آیت : کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ میں ذکر فرمایا یہ وہی زنگ ہے۔ میں کہتا ہوں یہاں دل کے سیاہ ہونے کا وہی مطلب ہے جو سابق کی حدیث میں مذکور ہوچکا۔ یعنی دل کا بگڑ جانا اور اس کا خراب و فاسد ہوجانا ارشاد فرمایا تھا : اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلَہٗ اور فساد قلب ضد ہے صلاح قلب کی اور جب مؤمن کے گناہ کی یہ کیفیت ہے کہ ایک گناہ کرنے سے دل سیاہ ہوجاتا ہے تو کافر کی کیا کچھ کیفیت ہوگی اسی کیفیت اور ہیئت کے پیدا کرنے کو کہیں طبع سے تعبیر کیا ہے اور کہیں اغفال سے اور کہیں اقساء وغیرہ سے ختم کے لغوی معنی چھپانے کے ہیں چونکہ کسی چیز پر مہر لگانے سے اس کے مضبوط کرنے اور چھپانے میں مبالغہ کرنا مقصود ہوا کرتا ہے اس لیے دلوں پر مہر لگانے کو ختم سے تعبیر کیا گیا یا یوں کہئے کہ جس طرح کسی چیز پر مہر لگانا یہ اس شخص کا آخری فعل ہے جو اس چیز کے محفوظ کرنے اور چھپانے میں کیا کرتا ہے اسی طرح دلوں کے فاسد و خراب ہونے کا یہ آخری نتیجہ ہے کہ وہ اس مہر لگانے کے بعد بالکل نکمے اور بےکار ہوجاتے ہیں۔ وَ عَلٰی سَمْعِھِمْ ( اور ان کے کانوں پر بھی مہر لگا دی ہے) سَمْعٌ اگرچہ لفظاً مفرد ہے لیکن معنی میں ہے جمع کے یعنی وَ عَلٰی اَسْمَاعِھِمْ اور چونکہ التباس کا خوف نہ تھا اور نیز اعتبار اصل بھی مقصود اور مد نظر تھا اس لیے ایسا کیا گیا سمع اصل میں مصدر ہے اور مصادر جمع کی صورت میں نہیں لائے جاتے اس لیے یہاں لفظ سمع مفرد لایا گیا اس کا عطف علیٰ قُلُوْبِھِمْ پر ہے جیسا کہ قرآن مجید میں دوسرے موقعہ پر ارشاد ہوا ہے وَ خَتَمَ عَلٰی قَلْبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشَاوَۃً اور جبکہ دل اور کان کا کسی چیز کو دریافت کرنا ہر طرف سے ممکن تھا اور اس میں سب جہتیں مساوی و یکساں تھیں تو ان دونوں کی مانع و حاجب ایک ہی چیز یعنی ختم قرار دی گئی بخلاف آنکھ کے کہ وہ صرف مقابلہ کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے مانع غِشَاوَۃً (پردہ) ٹھہرایا گیا جو مقابلہ کے ساتھ مختص ہے چناچہ فرمایا۔ وَ عَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ ( اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے) ابصار جمع ہے بصر کی اور اس کے معنی ہیں کسی چیز کا آنکھ سے ادراک کرنا۔ لیکن اس کا اطلاق کبھی قوت باصرہ پر بھی ہوا کرتا ہے مجازاً اور کبھی نفس آنکھ کو بھی بصر کہتے ہیں اور اسی پر قیاس کرلیجئے سمع کو بھی۔ ابو عمر و ابصار کو امالہ سے پڑھتے ہیں اور کسائی 1 ؂ ہر اس الف میں کیا بحالت وصل اور کیا بحالت وقف امالہ جائز بتاتے ہیں جسکے بعد راء مجرور واقع ہو اور واقع بھی ہو تو لام کلمہ کی جگہ جیسے وَ عَلٰی ابْصَارِھِمْ اور اٰثَارِھِمْ اور النَّار اور النھار اور بقنطار اور بدینار اور الابرار وغیرہ۔ ابو الحارث اس قاعدہ میں ابو عمرو اور کسائی دونوں کی تقلید تو کرتے ہیں مگر مطلق نہیں بلکہ صرف اس موقعہ میں جہاں راء مکرر واقع ہو جیسے الاشرار اور اَلْاَبْرَار وغیرہ ورش ان تمام مقامات میں بین بین سے پڑھتے ہیں اور حمزہ اس قاعدہ میں انکے تابع ہیں مگر اسی موقعہ میں جہاں مقرر واقع ہو ہاں اَلْقَھََّار اور دار البَوَار کو مستثنیٰ کرتے ہیں باوجوی کہ یہاں پر مکرر واقع نہیں لیکن پھر بھی امالہ جائز رکھتے ہیں ابن ذکو ان 2 ؂ نے فقط سورة بقرہ وجمعہ کے ان لفظوں میں اِلٰی حِمَارک . الحمار میں امالہ پڑھا ہے غِشَاوَۃ اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی چیز کو حاوی ہو اور اسے سب طرف سے ڈھانک لے یہ مرفوع ہے یا تو اس وجہ سے کہ ترکیباً مبتدا مؤخر واقع ہوا ہے یا اسلئے کہ ظرف کا فاعل ہے۔ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ( اور آخرت میں ان کو بڑا عذاب ہونے والا ہے) عذاب لیا گیا ہے اَعْذَبَ الشَّیْء سے اور جب کوئی شخص کسی چیز کا منع کرنے اور روک دینے والا ہوتا ہے تو اہل محاورہ ایسے موقع پر اعَْذَبَ الشیء بولا کرتے ہیں چونکہ سزا بھی مجرم کو دوبارہ جرم پر دلیر ہونے سے منع کرتی اور روکتی ہے اس لیے اسے عذاب کہنے لگے پھر اس کے معنی میں یہاں تک توسیع ہوگئی کہ ہر دکھ اور درد کو عذاب کہنے لگے اگرچہ وہ سزا اور مانع نہ ہو ‘ یا یوں کہئے کہ عذاب مشتق ہے تعذیب سے جس کے معنی ہیں عذاب یعنی شیرینی کے زائل اور دور کرنے کے عَظِیْم ضد ہے حقیر کی ( جیسا کہ کبیر نقیض ہے صغیر کی) اور جب یہ ہے تو عظیم کبیر سے بھی ایک درجہ اوپر رکھتا ہے جیسے حقیر صغیر سے کم رتبہ ہوجاتا ہے۔
Top