Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 92
وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس مُوْسٰى : موسیٰ بِالْبَيِّنَاتِ : کھلی نشانیاں ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهٖ : اس کے بعد وَاَنْتُمْ : اور تم ظَالِمُوْنَ : ظالم ہو
اور موسیٰ تمہارے پاس کھلے ہوئے معجزات لے کر آئے تو تم ان کے (کوہِ طور جانے کے) بعد بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے اور تم (اپنے ہی حق میں) ظلم کرتے تھے
وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ ( اور اچکے تمہارے پاس) ابو عمرو و حمزہ و کسائی اور ہشام نے قَدْ جَاءَ کُم میں جہاں کہیں ہو قد کی دال کو جیم میں ادغام کرکے پڑھا ہے اور اسی طرح لَقَدْ ذَرَأَنَا میں دال اور ذال میں اور لَقَد زَیَّنَّا میں دال اور زاد میں اور قد سمع میں دال اور سین میں اور قد شغفھا میں دال اور شین میں اور فقدد ضل میں دال اور ضاد میں فَقَد ظَلَمَمیں دال اور ظاء میں ادغام کرکے پڑھا ہے اور طاء مہملہ قرآن شریف میں جس جگہ بعد دال کے واقع ہوئی ہے اس میں ادغام ضروری ہے اور ہشام کے سوا اور قراء نے لَقَدْ صَرَّفْنَا کی دال کو صاد میں ادغام کیا ہے اور ابن ذکوان نے چار موقعوں میں حمزہ کسائی اور ہشام کا اتباع کرکے ادغام کیا ہے یعنی ذال اور زاء اور ضاد اور ظاء جب قد کے بعد واقع ہوں اور ورش نے صرف اخیر کے دو حرفوں میں یعنی ضاد اور ظاء میں موافقت کی ہے ابن کثیر اور عاصم اور قالون نے ان آٹھوں حروف گذشتہ میں بغیر ادغام کے پڑھا ہے اور قد کے بعد اگر دال ہو تو وہاں سب کے نزدیک ادغام ہوگا جیسیقَدْ دَخَلُوْا اسی طرح قد کے بعد اگر تا ہو تو وہاں بھی سب کے نزدیک ادغام ہوگا۔ جیسے : قَد تَبَیَّین لیکن حسین نے نافع سے روایت کیا ہے کہ اگر تاء بعد قد کے ہوگی تو ادغام نہ کرینگے بلکہ اظہار کرینگے۔ مُّوْسٰى بالْبَيِّنٰتِ ( موسیٰ کھلی نشانیاں لے کر) اس سے نبوت کی صاف صاف نشانیاں یعنی معجزات مراد ہیں اور وہ نو معجزے تھے۔ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ( پھر بنا لیا تم نے گو سالہ کو معبود ان کے پیچھے) یعنی موسیٰ ( علیہ السلام) کی تشریف آوری کے بعد یا موسیٰ کے کوہ طور پر جانے کے بعد۔ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ( اور تم ظلم کرتے تھے) یہ یا تو حال ہے اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ تم نے گو سالہ کو معبود بنا لیا اس حالت میں کہ تم ظالم تھے یا جملہ معترضہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہاری تو عادت ہی ظلم کی ہے۔ یہ آیت اور اس کے بعد کی آیت یہود کی تردید کے لئے لائی گئی ہے کیونکہ انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ : نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا ( یعنی ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر نازل کیا گیا ہے۔ خلاصہ آیت کا رد کے پیرایہ میں یہ ہے کہ کیوں جی تم جو یہ کہتے ہو کہ جو ہم پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں ( بولو کیا یہی ایمان لانا ہے کہ گوسالہ کو معبود بنا لیا ہے اور باوجود معجزات دیکھنے کے بھی ایمان نہ لائے) اور نیز اس امر پر تنبیہ کرنا منظور ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی ان لوگوں کا برتاؤ ایسا ہی ہے جیسے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ تھا۔ اس تفسیر پر اس قصہ کی تکرار بےوجہ نہ ہوگی۔
Top