Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 111
وَ اِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
وَاِنْ : اور نہیں اَدْرِيْ : جانتا میں لَعَلَّهٗ : شاید وہ فِتْنَةٌ : آزمائش لَّكُمْ : تمہارے لیے وَمَتَاعٌ : اور فائدہ پہنچانا اِلٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو اور ایک مدت تک (تم اس سے) فائدہ (اٹھاتے رہو)
وان ادری لعلہ فتنۃ لکم ومتاع الی حین۔ اور میں نہیں جانتا کہ ( کیا مصلحت ہے) شاید وہ (تاخیر عذاب) تمہارے لئے (صورۃً ) امتحان ہو اور ایک وقت (یعنی موت) تک فائدہ پہنچانا مقصود ہو۔ یعنی باوجودیکہ اللہ تمہارے ظاہر و باطن سے واقف ہے پھر بھی تم کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا اس تاخیر کی وجہ مجھے معلوم نہیں شاید یہ تاخیر عذاب تمہارے لئے ڈھیل ہو جو تمہارے لئے مزید فتنہ میں پھنس جانے کی موجب ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ شاید یہ تاخیر عذاب تمہاری آزمائش ہو کہ تم نصیحت اندوز ہوتے ہو یا نہیں۔ ومتاع الی حین کا یہ مطلب ہے کہ تاخیر عذاب اللہ کی طرف سے تھوڑے وقت اور قلیل مدت کے لئے ایک حقیر بہرہ اندوزی اور فائدہ ہے۔ قضاء الٰہی میں پہلے ہی فیصلہ ہوچکا ہے کہ تم کو اتنی مدت تک باقی رکھا جائے گا اس لئے فیصلہ شدہ مدت تک تمہاری بقاء ضروری ہے۔ جلال الدین محلی نے لکھا ہے کہ لعل اظہار امید کے لئے آتا ہے اور فتنہ سے امید کی وابستگی غیر مناسب ہے اس لئے فتنہ کے مقابل مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنِکو ذکر کیا۔
Top