Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 13
لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِیْهِ وَ مَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْئَلُوْنَ
لَا تَرْكُضُوْا : تم مت بھاگو وَارْجِعُوْٓا : اور لوٹ جاؤ اِلٰى : طرف مَآ : جو اُتْرِفْتُمْ : تم آسائش دئیے گئے فِيْهِ : اس میں وَمَسٰكِنِكُمْ : اور اپنے گھر (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُسْئَلُوْنَ : تمہاری پوچھ گچھ ہو
مت بھاگو اور جن (نعمتوں) میں تم عیش وآسائش کرتے تھے ان کی اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ۔ شاید تم سے (اس بارے میں) دریافت کیا جائے
لا ترکضوا وارجعوا الی ما اترفتم فیہ ومسکنکم (ان سے کہا گیا) بھاگو مت اور اپنے سامان عیش کی طرف اور اپنے مکانوں کی طرف واپس چلو۔ یعنی ان سے بزبان حال یا کسی فرشتے یا کسی مؤمن کی زبانی کہا گیا کہ (اب کیوں بھاگتے ہو) مت بھاگو اُتْرِفْتُمْ جس عیش میں پڑے تھے اسی کی طرف پلٹو۔ اتراف نعمت پر اترا جانا۔ خلیل نے کہا مترف اس شخص کو کہتے ہیں جو خوش حال ‘ فارغ البال ہو کوئی پریشانی اور فکر اس کو نہ ہو۔ لعلکم تسئلون۔ شاید تم سے کوئی پوچھے پاچھے۔ تا کہ کل کو تم سے پوچھا جائے کہ تم پر اور تمہارے مال و متاع پر کیا گزری اور تم اس کا جواب معائنہ کے بعد دے سکو۔ یا یہ مراد ہے کہ تم لوٹ کر جاؤ اپنے جلسوں میں بیٹھو ‘ شاید پھر تمہارے نوکر چاکر اور کارندے تم سے دریافت کریں کہ اب ہم کو آپ کیا حکم دیتے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ شاید لوگ تمہاری مجلسوں میں آکر تم سے اپنی اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کے متعلق دریافت کریں۔ یا یہ مطلب ہے کہ شاید کل کو تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہوگی یا تم کو عذاب دیا جائے گا۔ باز پرس بھی عذاب کی ابتدائی تمہید ہی ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا تم سے قتل نبی کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ بغوی نے لکھا ہے اس آیت کا نزول حضور ا کے باشندوں کے حق میں ہوا ‘ حضور ا یمن کی ایک بستی تھی جس کے باشندے عرب تھے ‘ اللہ نے ان کی ہدایت کے لئے ایک نبی کو مبعوث فرمایا ‘ پیغمبر نے ان کو توحید کی دعوت دی اہل حضور ا نے نبی کی تکذیب کی اور اس کو قتل کردیا ‘ اللہ نے (بطور سزا) شاہ بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا ‘ بخت نصر نے ان کو قتل اور قید کیا جب عام طور پر لوگ قتل ہونے لگے تو پشیمان ہوئے اور (بستی چھوڑ کر) بھاگ کھڑے ہوئے فرشتوں نے ان کو آواز دی بھاگو مت ‘ اپنے گھروں اور مالوں کی طرف لوٹو۔ شاید تم سے (کچھ) مانگا جائے ‘ قتادہ نے (اس کی تشریح میں) کہا شاید تم سے کچھ دنیوی مال و متاع مانگا جائے اور پھر جس کو چاہو تم دے دو اور جس کو چاہو نہ دو ‘ تم بڑے مالدار اور اہل ثروت ہو ‘ غرض بخت نصر نے ان کا تعاقب کیا اور بےدریغ قتل کیا اور کسی ہاتف نے اوپر سے آواز دی انبیاء کا انتقام۔ یہ حالت دیکھ کر ان کو اپنے کئے پر پشیمانی ہوئی لیکن اقرار قصور نے ان کو کچھ فائدہ نہ دیا۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں نے بعض سے کہا بھاگو نہیں لوٹ کر گھروں کو چلو شاید تم سے بطور تاوان مال طلب کیا جائے اور تم مال دے کر قتل ہونے سے بچ جاؤ اس وقت آسمان سے ندا آئی انبیاء کا انتقام۔
Top