Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 55
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَجِئْتَنَا : کیا تم لائے ہو ہمارے پاس بِالْحَقِّ : حق کو اَمْ : یا اَنْتَ : تم مِنَ : سے اللّٰعِبِيْنَ : کھیلنے والے (دل لگی کرنیوالے)
وہ بولے کیا تم ہمارے پاس (واقعی) حق لائے ہو یا (ہم سے) کھیل (کی باتیں) کرتے ہو؟
قالوا انہوں نے کہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ان کو عجیب معلوم ہوا۔ باپ دادا کو گمراہ بتانا ان کی نظر میں عجیب تھا ‘ اس لئے خیال کیا کہ شاید ابراہیم کوئی دل لگی کی بات کہہ رہا ہے۔ اجئتنا بالحق ام انت من اللعبین۔ کیا واقعی کوئی صحیح بات ہم سے کہہ رہے ہو یا دل لگی کر رہے ہو یعنی کیا کوئی ایسی حق بات کہہ رہے ہو جس کی کوئی عقلی سند اور واقعی ثبوت ہو یا یہ محض تفریح طبع کے طور پر یوں ہی کہہ رہے ہو۔ استفہام انکاری ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ تمہاری بات مبنی برحق تو نہیں ہے ‘ (اسلاف کو گمراہ بتانا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے) معلوم ہوتا ہے کہ تم دل لگی کر رہے ہو۔
Top