Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 58
فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ
فَجَعَلَهُمْ : پس اس نے انہیں کر ڈالا جُذٰذًا : ریزہ ریزہ اِلَّا : سوائے كَبِيْرًا : بڑا لَّهُمْ : ان کا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
پھر ان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر ایک بڑے (بت) کو (نہ توڑا) تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں
فجعلہم جذاذا الا کبیرا لہم پس ان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا مگر پرزے بت کو بغیر توڑے ان کے لئے چھوڑ دیا۔ جذاذ بروزن فعال بمعنی مفعول ہے جیسے حطام۔ یہ جذ سے ماخوذ ہے جذ کا معنی ہے کاٹنا۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں جذاذ جمع کا صیغہ ہے لیکن اس کا کوئی مفرد نہیں ہے ‘ کبیر سے مراد ہے بڑا بت جس کو حضرت ابراہیم نے نہیں توڑا اور اس کے کاندھے پر تیر رکھ دیا۔ فَجَعَلَہُمْمیں جمع مذکر کی ضمیر اس لئے ذکر کی کہ بت پرستوں کے خیال میں ان کے بت ذی علم تھے۔ لعلہم الیہ یرجعون۔ کہ شاید وہ لوگ ابراہیم کی طرف (دریافت کرنے کے لئے) لوٹیں۔ الیہ کی ضمیر ابراہیم کی طرف راجع ہے حضرت ابراہیم بتوں سے دشمنی رکھنے اور بت پرستی کی مخالفت کرنے میں مشہور تھے اس لئے حضرت نے بتوں کو توڑ دیا اور بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ خیال کر کے جب یہ لوگ واپس آئیں گے تو میرے پاس آئیں گے اس وقت میں ان کو جتلا دوں گا کہ تمہارے معبود ایک آدمی کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یا اِلَیْہِ کی ضمیر بڑے بت کی طرف راجع ہے مطلب یہ ہے کہ بت پرست لوگ جب میلہ سے واپس بڑے بت کے پاس آئیں گے تو اس سے دریافت کریں گے کہ چھوٹے بتوں کی یہ حالت کس نے کی معبود کو علم ہونا اور جواب دینا چاہئے۔ وہ معبود ہی کیا جو نہ کچھ جانے نہ جواب دے آخر جواب نہ پا کر خود ہی ذلیل ہوں گے۔ یا الیہ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے مطلب یہ کہ جب بتوں کی بےبسی ان پر ظاہر ہوگی تو شاید وہ اللہ کی طرف لوٹ آئیں۔
Top