Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 79
فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا١٘ وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَ١ؕ وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
فَفَهَّمْنٰهَا : پس ہم نے اس کو فہم دی سُلَيْمٰنَ : سلیمان وَكُلًّا : اور ہر ایک اٰتَيْنَا : ہم نے دیا حُكْمًا : حکم وَّعِلْمًا : اور علم وَّسَخَّرْنَا : اور ہم نے مسخر کردیا مَعَ : ساتھ۔ کا دَاوٗدَ : داود الْجِبَالَ : پہار (جمع) يُسَبِّحْنَ : وہ تسبیح کرتے تھے وَالطَّيْرَ : اور پرندے وَكُنَّا : اور ہم تھے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
تو ہم نے فیصلہ (کرنے کا طریق) سلیمان کو سمجھا دیا۔ اور ہم نے دونوں کو حکم (یعنی حکمت ونبوت) اور علم بخشا تھا۔ اور ہم نے پہاڑوں کو داؤد کا مسخر کردیا تھا کہ ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور جانوروں کو بھی (مسخر کردیا تھا اور ہم ہی ایسا) کرنے والے تھے
ففہمنہا سلیمن پس ہم نے (صحیح) فیصلہ یا فتویٰ سلیمان ( علیہ السلام) کو سمجھا دیا (ان کی سمجھ میں ڈال دیا) اس جگہ کچھ کلام محذوف ہے ‘ پورا کلام اس طرح تھا۔ ہمارے سمجھانے کے مطابق سلیمان ( علیہ السلام) نے فیصلہ کردیا اور داؤد نے اپنا فیصلہ منسوخ کر کے سلیمان کا فیصلہ جاری کردیا۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ اللہ نے داؤد کے لئے کتاب اللہ کی تلاوت بہت آسان کردی تھی۔ گھوڑوں پر زینیں کسنے کا حکم دے کر وہ قرآن پڑھنا شروع کرتے تھے اور زینیں کسنے نہ پاتی تھیں کہ وہ پڑھ لیتے تھے اور داؤد صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ میں کہتا ہوں اس حدیث میں قرآن سے مراد زبور ہے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ کا یہی قول بتایا ہے۔ مسئلہ اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ فیصلہ کرنے کے بعد اگر حاکم کی رائے بدل جائے تو حکم جاری کرنے سے پہلے وہ سابق فیصلہ کو منسوخ کرسکتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ قتادہ اور زہری نے بیان کیا کہ دو آدمی حضرت داؤد ( علیہ السلام) کے پاس آئے ‘ ایک کھیت کا مالک تھا اور دوسرا بکریوں کا۔ کھیت والے نے کہا اس کی بکریاں رات کو چھوٹ کر میرے کھیت میں پڑگئیں اور (سارا کھیت چر گئیں) کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ حضرت داؤد ( علیہ السلام) نے فیصلہ کیا کہ کھیت کے عوض وہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں۔ حضرت داؤد ( علیہ السلام) کے پاس سے دونوں حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس آئے۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے پوچھا تم دونوں کے مقدمہ کا کیا فیصلہ ہوا جو فیصلہ حضرت داؤد ( علیہ السلام) نے کیا تھا دونوں نے بیان کردیا ‘ حضرت سلیمان نے فرمایا اگر تمہارا مقدمہ میرے سپرد کردیا جاتا تو میرا فیصلہ کچھ اور ہی ہوتا ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے یہ بھی کہا تھا کہ میرا فیصلہ دونوں کے لئے فائدہ بخش ہوتا۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے اس قول کی اطلاع حضرت داؤد کو بھی ہوگئی۔ آپ نے سلیمان ( علیہ السلام) کو بلوا کر فرمایا تم فیصلہ کرو۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت داؤد ( علیہ السلام) نے اپنی نبوت اور حق پدری کا واسطہ دے کر فرمایا مجھے بتاؤ وہ کیا فیصلہ ہے جو فریقین کے لئے سودمند ہے۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے کہا بکریاں کھیت والے کو دے دیجئے اور کھیت بکریوں کے مالک کے سپرد کر دیجئے۔ کھیت والا بکریوں کے دودھ اون اور نسل سے اتنی مدت تک فائدہ اندوز ہوتا رہے جتنی مدت تک کھیت بکریوں والے کی سپردگی میں رہے۔ بکریوں کا مالک کھیت کو درست کر کے اس میں بھیج بکھیر دے اور جب کھیتی تیار ہو کر اصلی حالت پر آجائے تو تیار کھیت کھیت والے کو دے دے اور اپنی بکریاں واپس لے لے۔ حضرت داؤد ( علیہ السلام) نے فرمایا صحیح فیصلہ یہی ہے جو تم نے کیا پھر آپ نے یہ فیصلہ جاری کردیا۔ روایت میں آیا ہے کہ فیصلہ کرنے کے وقت حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی عمر گیارہ سال کی تھی۔ ابن ابی شیبہ نے المصنف میں اور ابن المنذر وابن مردویہ نے بھی حضرت ابن عباس ؓ : کی روایت سے بغوی کے اس بیان کی طرح قصہ نقل کیا ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے حضرت داؤد ( علیہ السلام) کا فتویٰ امام ابوحنیفہ (رح) کے فتوے کی طرح ہے جو مجرم غلام کے سلسلہ میں آپ نے دیا ہے اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا فیصلہ امام شافعی (رح) کے فتوے کی طرح ہے کہ مغصوب غلام اگر بھاگ جائے اور کوئی جنایت کرلے تو تاوان میں غلام سے کمائی کرائی جائے اور کمائی سے جب اصل حق ادا ہوجائے تو پھر غلام اصل مالک کو واپس کیا جائے۔ میں کہتا ہوں (امام ابوحنیفہ (رح) فقط اسی کے قائل نہیں کہ غلام کے آقا پر تاوان جنایت عائد کیا جائے گا اور عبد کو جنایت کے عوض میں صاحب حق کو دے دیا جائے گا بلکہ ان کے نزدیک تو غلام کا مالک اختیار رکھتا ہے خواہ جنایت عبد کا تاوان اپنے پاس سے ادا کرے یا غلام ہی کی ملکیت منتقل کر دے اور غلام کو ہی صاحب حق کی ملکیت میں دے دے۔ (مطلب یہ کہ امام ابوحنیفہ (رح) : کا فتویٰ حضرت داؤد ( علیہ السلام) کے فیصلے کی طرح نہیں ہے جس میں بکریوں کی ملکیت سے محروم کردیا گیا تھا ‘ بلکہ امام کا فیصلہ اپنے اندر دونوں رخ رکھتا ہے ‘ غلام کو ہی تاوان میں دے دیا جائے ‘ یا غلام کا مالک اپنے پاس سے تاوان ادا کرے اور غلام کو اپنی ملکیت میں باقی رکھے۔ ) حصاص نے کہا تاوان ادا کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ انہوں نے بکریوں کو باندھ کر نہیں رکھا تھا۔ بعض اقوال میں آیا ہے کہ اسلام میں یہ حکم منسوخ ہے۔ بلکہ امام شافعی (رح) امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) : کا قول یہ ہے کہ اگر مویشی چھوٹ جائیں اور رات کو کسی کا نقصان کردیں تو بقدر نقصان جانوروں کے مالک پر تاوان عائد ہوگا اور اگر چھوٹے ہوئے دن میں کسی (کے کھیت وغیرہ) کا نقصان کردیں تو کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا۔ میں کہتا ہوں شاید حضرت داؤد ( علیہ السلام) کے زمانے میں تلف شدہ کھیتی کی قیمت چرنے والی بکریوں کے برابر ہوگی اسی لئے تو آپ نے کھیت والے کے حق میں ساری بکریوں کی ڈگری دے دی۔ عام طور پر رواج ہے کہ کھیت والا دن میں کھیتی کی رکھوالی کرتا ہے اور جانور بھی دن ہی میں چرتے ہیں اور شام کو گھر واپس آجاتے ہیں اس لئے دن میں کھیتی تلف ہوجانے کی ذمہ داری کھیتی کی حفاظت نہ کرنے والے پر ہے ‘ اور رات میں کھیتی تلف کرنے کی ذمہ داری جانوروں کے مالک پر ہے کہ اس نے رات کو جانوروں کو باندھ کر نہیں رکھا۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک چھوٹے ہوئے جانوروں نے کسی کی کھیتی کو دن میں نقصان پہنچایا ہو یا رات میں مالک مویشی پر کوئی تاوان نہیں پڑے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد گرامی ہے الجعماء جرحہا جباررواہ الشیخان فی الصحیحین واحمد واصحاب السنن من حدیث ابی ہریرہ ؓ ۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے امام محمد نے فرمایا عجماء سے مراد ہیں چھوٹے ہوئے جانور (یعنی اگر چھوٹے ہوئے جانور کسی کو زخمی کردیں تو اس کا کچھ معاوضہ نہیں) جمہور نے حرام بن سعد بن محیصہ کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حضرت براء ؓ بن عازب کی اونٹنی نے کسی کے باغ (یا کھیت) میں داخل ہو کر کچھ نقصان کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے مقدمہ آیا تو آپ نے فیصلہ کیا دن میں کھیتوں کی حفاظت ان کے مالکوں کے ذمہ ہے اور رات کو جانوروں نے کچھ نقصان کیا ہے تو جانوروں کے مالک پر اس کا تاوان پڑے گا۔ رواہ مالک فی الموطاء والشافعی واصحاب السنن الاربعۃ والدارقطنی وابن حبان والحاکم والبیہقی۔ امام شافعی نے فرمایا اسی حدیث سے ہم نے اپنے قول پر استدلال کیا ہے۔ یہ حدیث متصل ہے اور اس کے راوی معروف ہیں۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے اس حدیث کی روایت کا مدار زہری پر ہے اور زہری کے الفاظ میں دوسری سند کے لحاظ سے اختلاف ہے موطاء کی روایت تو وہی ہے جو ذکر کردی گئی اور لیث از زہری کی روایت میں عن ابی محیصہ کا نام نہیں ہے اور معن بن عیسیٰ کی جو روایت عن مالک ہے اس میں عن جدہ محیصۃ آیا ہے اور معمر عن الزہری کی روایت عن حرام عن ابیہ آیا ہے اور اس کا متابع کوئی نہیں۔ اخرجہ ابو داؤد و ابن حبان۔ لیکن اوزاعی اور اسماعیل بن امیہ اور عبداللہ بن عیسیٰ نے جو زہری کی حدیث نقل کی ہے اس میں عن حرام عن البراء آیا ہے۔ میں کہتا ہوں ابن جوزی کی تحقیق التعلیق میں از طریق احمد اسی طرح بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا حرام نے براء سے سماعت نہیں کی عبدالحق نے ابن حزم کے اتباع میں ایسا ہی کہا ہے۔ نسائی نے من طریق محمد بن ابی حفصہ عن الزہری اسی طرح بیان کیا زہری نے کہا مجھے ابو اسامہ بن سہل نے خبر دی کہ براء کی اونٹنی۔ ابن ذئب کی روایت میں ہے کہ زہری نے کہا مجھے یہ بات پہنچی کی براء کی اونٹنی پس تینوں اماموں نے العجماء جرجہا جبار (کے عموم) کا ناقۃ البراء والی حدیث کو مخصص قرار دیا اور کہا العجماء جبار کا حکم بھی دن کے ساتھ مخصوص ہے۔ ہم کہتے ہیں عام بھی خاص کی طرح قطعی ہوتا ہے جب تک دونوں کا ایک وقت میں ہونا ظاہر نہ ہوجائے اس وقت تک عام کو مخصوص البعض نہیں قرار دیا جاسکتا اور اگر تاخر زمانی ثابت ہوجائے تو اس کو منسوخ قرار دیا جائے گا اور اگر اقتران زمانی یا تاخرزمانی کچھ بھی ثابت نہ ہو تو تعارض قائم رہے گا (اور چونکہ حدیث العجماء جبار اور حدیث ناقۃ البراء کا نہ ایک زمانہ میں ہونا ظاہر ہوا کہ عام کو خاص پر محمول کرسکیں ‘ نہ تاخر و تقدم ثابت ہے کہ سابق کو منسوخ سمجھا جائے اس لئے دونوں میں تعارض باقی ہے) پس شک کی حالت میں تاوان عائد ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ (قاعدہ ہے کہ) دو حدیثوں کا تعارض اگر دور نہ ہو سکے تو قیاس کی طرف رجوع کرنا لازم ہے اور قیاس چاہتا ہے کہ ضمان (تاوان) عائد نہ کیا جائے (کیونکہ مویشیوں کے مالک کا کوئی قصور نہیں وہ موجود ہی نہ تھا مویشی آزاد تھے) نہ اس نے جانوروں کو چھوڑ دیا تھا نہ ہنکایا تھا نہ کھینچ کر لایا تھا کسی موجب ضمان فعل کی اس کی طرف نسبت ہی کی جاسکتی اسی بناء پر ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کوئی جانور مسلمانوں کے راستہ میں چھوڑ دیا اور جانور نے کسی کو دکھ پہنچا دیا تو تاوان چھوڑنے والے پر عائد ہوگا ‘ کیونکہ جب تک وہ جانور اس راستہ پر چلتا) رہے گا اس کی رفتار کی نسبت چھوڑنے والے کی طرف رہے گی ‘ ہاں اگر جانور کسی طرف کو مڑ گیا دائیں بائیں ہوگیا یا ٹھہر گیا اور اس کے بعد کسی کو دکھ پہنچا تو مالک کی طرف یہ فعل منسوب نہ ہوگا۔ راہ پر چھوڑنے کا حکم منقطع ہوگیا۔ مسئلہ اگر گھوڑے والا گھوڑے پر سوار ہو یا لگام پکڑے لئے جا رہا ہو یا پیچھے سے ہنکا رہا ہو اور گھوڑا کسی کو لات مار دے یا روند ڈالے یا سر مار ڈالے کاٹ لے یا اندھا دھند چل پڑے یا کسی سے ٹکرا جائے یا کھڑا کھڑا کسی کو ٹکر مار دے اور وہ جگہ گھوڑے والے کی ملک ہو یا ٹھیکے وغیرہ کے ذریعہ سے اس کے قبضہ میں ہو تو سوائے اوّل الذکر صورت کے باقی کسی صورت میں گھوڑے والے پر تاوان عائد نہ ہوگا صرف پہلی صورت میں ضمان دینا پڑے گا کیونکہ سوار ہونے کی حالت میں اس کا بوجھ گھوڑے کی پشت پر پڑے گا ایسی حالت میں اگر گھوڑا کسی کو روند ڈالے گا تو گویا سوار بھی گھوڑے کے ساتھ روندنے میں شریک سمجھا جائے گا۔ پس اس حالت میں اس سوار کو مرتکب اتلاف قرار دیا جائے گا۔ باقی صورتوں میں ہم نقصان رسانی اور ایذا دہی کا سبب آخریں کہہ سکتے ہیں اور مسبب پر تاوان اس وقت عائد ہوگا جب اس کی طرف سے بالارادہ اس فعل کا ظہور ہو (اور وہ خود چاہتا ہو کہ گھوڑے سے کسی کو ضرر پہنچے) اور مذکورۂ بالا صورتوں میں بالارادہ ایذا رسانی کا سبب پیدا کرنا ثابت نہیں۔ لیکن اگر وہ جگہ گھوڑے کے مالک کی نہ مملوک ہو نہ مقبوض بلکہ اس کو وہاں چلنے کی اجازت ہو کھڑا رہنے کی اجازت نہ ہو جیسے عام شاہراہ یا چلنے اور ٹھہرنے دونوں کی اجازت ہو جیسے کوئی جنگل یا مویشیوں کا نخاسہ جہاں سے گزرنے اور ٹھہرنے دونوں کی اجازت ہوتی ہے اس حالت میں مذکورۂ بالا تمام صورتوں میں تاوان عائد ہوگا خواہ سوار ہو یا لگام پکڑے جا رہا ہو یا پیچھے سے ہنکا رہا ہو لیکن ان حالات میں بھی اگر گھوڑا کسی کو لات مار دے یا دم مار کر کچھ ضرر پہنچا دے تو گھوڑے والے پر کوئی تاوان نہ ہوگا کیونکہ عام راستہ میں سلامتی کے ساتھ دوسرے کو ضرر پہنچائے بغیر گزرنا ہر مسلمان کا حق ہے راستہ سب کا مشترکہ ہے راستہ سے فائدہ اٹھانا بھی ہر ایک کا حق ہے لیکن یہ اباحت اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ دوسرے کو ضرر نہ پہنچے مگر اسی حد تک سلامتی ضروری ہے جس حد تک گزرنے والے کے حدود و اختیار میں ہو سوار کے لئے یہ تو ممکن ہے کہ کسی کو گھوڑے کے قدموں سے نہ روند ڈالے کسی کو روندنا حق سیر کا تقاضا نہیں۔ ہاں چلنے میں دم اور لات سے لوگوں کو محفوظ رکھنا سوار کے اختیار سے باہر ہے پس اگر چلتے چلتے گھوڑا سرراہ کسی کے لات مار دے یا دم سے کچھ ضرر پہنچا دے تو سوار کو شریک جرم نہیں قرار دیا جاسکتا صرف اس وقت سوار پر تاوان عائد ہوگا۔ جب وہ مسلمانوں کے راستے میں گھوڑے کو کھڑا کر دے اور اس حالت میں گھوڑا کسی کے لات یا دم مار دے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا اگر گھوڑے کے سوار یا لگام پکڑ کر چلانے والے یا ہنکانے والے کی طرف سے گھوڑے کو کچھ ترغیب نہ ہو یا گھوڑے کو وہ مارے نہیں تو مذکورۂ بالا صورتوں میں سے کسی صورت میں گھوڑے والے پر کوئی تاوان نہیں ہوگا اگر گھوڑے کو بھڑکی دیں یا ماریں اور کسی کو گھوڑے سے کچھ ضرر پہنچ جائے تو گھوڑے پر تاوان عائد ہوگا۔ العجماء جبارحدیث مبارک ہے جس میں عجماء کی ضرب کو بلامعاوضہ قرار دیا ہے۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا جانور اپنے منہ یا ٹانگ یا دم سے اگر کسی کو کچھ دکھ پہنچا دے تو گھوڑے والے پر تاوان عائد ہوگا خواہ اس کی طرف سے کوئی سبب ضرر پیدا ہوا یا نہ پیدا ہوا ہو اور خواہ گھوڑے پر اس وقت سوار ہو یا ہنکا کرلے جا رہا ہو یا کچھ بھی نہ کرے (صرف ساتھ ہو) امام احمد نے فرمایا اگر گھوڑے کا مالک گھوڑے پر سوار ہو اور گھوڑا اپنے منہ یا اگلی ٹانگوں سے کسی کو ضرر پہنچا دے تو مالک پر ضمان عائد ہوگا اور اگر لات مارنے سے کسی کو نقصان پہنچ جائے تو مالک پر کوئی تاوان نہ ہوگا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا الرِجُلُ جُبَارٌلات کا کوئی معاوضہ نہیں۔ رواہ الدارقطنی عن سعید بن المسیب مرسلاً ۔ واللہ اعلم۔ فائدہ مجاہد نے کہا حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا فیصلہ صلح کے طور پر تھا اور حضرت داؤد کا فیصلہ حکم تھا اور صلح (حکم سے) بہتر ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت داؤد ( علیہ السلام) اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) دونوں کا فیصلہ وحی پر مبنی تھا لیکن حضرت سلیمان کا فیصلہ ناسخ تھا (جس سے حضرت داؤد کا فیصلہ منسوخ ہوگیا) یہ قول ان لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ انبیاء کے لئے اپنے اجتہاد سے کوئی حکم دینا جائز نہیں۔ کیونکہ ان کے پاس وحی آتی ہے۔ ان کو اجتہاد کی ضرورت نہیں۔ اجتہاد میں تو غلطی ممکن ہے اور انبیاء سے غلطی کا صدور ممکن نہیں۔ ظاہر یہ ہے کہ دونوں بزرگوں کا فیصلہ اجتہادی تھا۔ حضرت داؤد کا اجتہاد غلط تھا اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا صحیح۔ اللہ تعالیٰ نے سلیمان ( علیہ السلام) کے فیصلے کی تعریف فرمائی۔ انبیاء کے اجتہاد میں غلطی ہوسکتی ہے۔ مگر انبیاء اس پر قائم نہیں رہتے (جب حق واضح ہوجاتا ہے تو وہ اپنے فیصلے سے رجوع کرلیتے ہیں) ۔ وکلا اتینا حکما وعلما اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا فرمایا تھا۔ حسن نے کہا اگر آیت (وَکُلّا اٰتَیْنَا حکُمًا وَِّ عْلَمًا) نہ ہوتی تو حکام تباہ ہوجاتے لیکن اللہ نے (اس آیت میں) ہر اجتہادی فیصلہ کی تعریف فرمائی ہے۔ آیت (وَکُلاَّ اٰتَیْنَا حُکْمًا وَّ عِلْمًا) سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر مجتہد کا اجتہاد مبنی برصواب ہوتا ہے (کسی کو مخطی نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ اللہ نے اس آیت میں حضرت داؤد ( علیہ السلام) اور حضرت سلیمان دونوں کی تعریف فرمائی ہے) ۔ لیکن ظاہریہ کا یہ استدلال غلط ہے (آیت سے تو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بزرگوں کو اللہ نے قوت فیصلۂ وعلم عطا کی تھی دونوں فیصلوں کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ) آیت (فَفَہَمْنَا ہَا سُلَیْمَان) َکے الفاظ بتا رہیں کہ حضرت سلیمان کا فیصلہ صحیح تھا اور حضرت داؤد کا فیصلہ اس کے خلاف تھا (یعنی غلط) حضرت عمرو بن عاص کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ : کو فرماتے سنا فرما رہے تھے جب حاکم اجتہاد کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرے اور فیصلہ میں حق پر پہنچ جائے تو اس کے لئے دوہرا اجر ہوگا اور اگر اجتہادی فیصلہ میں اس سے غلطی ہوجائے تب اس کے لئے اکھیرا اجر ہے۔ رواہ الشیخان فی الصحیحین واحمد واصحاب السنن الاربعۃ والترمذی عن ابی ہریرۃ ؓ ۔ یہ حدیث صراحۃً بتارہی ہے کہ مجتہد سے فیصلہ میں غلطی بھی ہوجاتی ہے اور کبھی اس کا فیصلہ حق بھی ہوتا ہے صواب و خطا یکجا جمع نہیں ہوسکتے یا فیصلہ صحیح ہوگا یا غلط لیکن فیصلہ میں غلطی ہوجائے تب بھی اس کو ایک اجر ضرور ملے گا ‘ غلطی ہوجانے کی بنا پر نہیں بلکہ فکری کوشش اور اجتہاد پر اس کو اکھیرا اجر ملے گا۔ اجتہاد بجائے خود عبادت ہے طلب حق کی کوشش موجب اجر ہے اجتہاد کے بعد غلطی قابل تسامح ہے اور صحت نتیجہ کی صورت میں دو اجر ہوں گے ایک طلب حق کی کوشش کا اور دوسرا حق پر پہنچ جانے کا۔ واللہ اعلم۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا میں نے سنا رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے دو عورتیں تھیں ہر ایک کا ایک ایک بچہ اس کے ساتھ تھا بھیڑیا آیا ایک بچہ کو لے گیا ایک عورت نے دوسری سے کہا بھیڑیا تیرے بچہ کو لے گیا میرا بچہ محفوظ ہے دوسری نے اس کی تردید کی اور کہا تیرے بچہ کو لے گیا میرا بچہ یہ ہے جو موجود ہے دونوں جھگڑا لے کر حضرت داؤد کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ نے بڑی کو ڈگری دے دی اور (چھوٹی ہار گئی) اس کے بعد دونوں کا گزر حضرت سلیمان کی طرف سے ہوا اور آپ سے تفصیل بیان کی۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا میرے پاس چھری لے آؤ میں بچہ کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو بانٹ دوں گا یہ سنتے ہی چھوٹی بولی آپ پر اللہ کی رحمت ہو یہ بچہ بڑی کا ہی ہے اسی کو دے دیجئے۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے بچہ چھوٹی کو دلوا دیا۔ وسخرنا مع داود الجبال یسبحن والطیر اور ہم نے داؤد کے ساتھ تابع کردیا تھا پہاڑوں کو جو داؤد کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے اور پرندوں کو بھی۔ کہا گیا ہے کہ داؤد جب ذکر کرتے کرتے سست پڑجاتے تھے اور بدن میں کچھ کسل آجاتا تھا تو آپ کے ساتھ پہاڑ تسبیح پڑھنے لگتے تھے تاکہ پہاڑوں کی تسبیح سن کر داؤد میں ذکر الٰہی کرنے کی تازہ چستی پیدا ہوجائے اور پرندے بھی آپ کے ساتھ تسبیح میں مشغول رہتے تھے۔ الطیر کا عطف الجبال پر ہے پرندوں کی تو پھر بھی ظاہری زبان ہوتی ہے وہ کچھ نہ کچھ بولتے ہی ہیں لیکن پہاڑوں کی کوئی زبان بظاہر نہیں ہوتی پہاڑوں کا تسبیح خداوندی میں مشغول ہونا بہت ہی تعجب آفریں ہے اسی لئے الجبال کا ذکر الطیر سے پہلے کیا۔ وہب نے کہا حضرت داؤد کی تسبیح کے جواب میں پہاڑ اللہ کی پاکی بیان کرتے تھے اور پرندوں کا بھی یہی حال تھا۔ قتادہ نے کہا یعنی جب داؤد نماز پڑھتے تھے تو پہاڑ بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا حضرت داؤد درختوں اور پتھروں کی تسبیح کو سمجھتے تھے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ یسبحن سباحت سے ماخوذ ہے اور (سباحت کا معنی ہے تیرنا ‘ چلنا) حضرت داؤد چلتے تھے تو پہاڑ بھی آپ کے ساتھ چلتے تھے۔ وکنا فعلین۔ اور (ایسا) کرنے والے ہم ہی تھے۔ یعنی داؤد کو علم و حکمت کی فہمائش اور پہاڑوں اور پرندوں کی تسخیر ہمارا فعل تھا۔
Top