Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 81
وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا١ؕ وَ كُنَّا بِكُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ
وَلِسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان کے لیے الرِّيْحَ : ہوا عَاصِفَةً : تیز چلنے والی تَجْرِيْ : چلتی بِاَمْرِهٖٓ : اس کے حکم سے اِلَى : طرف الْاَرْضِ : سرزمین الَّتِيْ بٰرَكْنَا : جس کو ہم نے برکت دی ہے فِيْهَا : اس میں وَكُنَّا : اور ہم ہیں بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
اور ہم نے تیز ہوا سلیمان کے تابع (فرمان) کردی تھی جو ان کے حکم سے اس ملک میں چلتی تھی جس میں ہم نے برکت دی تھی (یعنی شام) اور ہم ہر چیز سے خبردار ہیں
ولسلیمن الریح اور ہم نے سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر کردیا۔ سلیمان کا عطف واؤ پر ہے اور الریح کا عطف الجبال پر۔ حرف عاطف ایک ہی ہے۔ کیونکہ دونوں ایک ہی عامل کے مفعول ہیں۔ بعض اہل تحقیق نے بیان کیا ہے کہ پہاڑوں اور پرندوں کا داؤد کے ساتھ تسبیح پڑھنا بامرداؤد نہ تھا (بلکہ براہ راست اللہ کے حکم تسخیری کے ماتحت تھا اس لئے داؤد کے ساتھ لفظ مع (ساتھ) ذکر کیا اور ہوا کی رفتار بامر سلیمان ہوتی تھی۔ اس لئے لسلیمان (سلیمان کے لئے) لام کے ساتھ فرمایا۔ عاصفۃ تیز کہ تھوڑے وقت میں سلیمان کو لشکر سمیت دور لے جاتی تھی۔ اللہ نے فرمایا ہیغُدُوُّہَا شَہْرُّ َو رَوَاحُہَا شَہْرٌ شروع آدھے دن کی رفتار ہوا ایک مہینے کی مسافت کے برابر اور آخری آدھے دن کی رفتار ایک ماہ کی مسافت کے بقدر تھی۔ اتنی تیز رفتار کے باوجود ہوا کی چال نرم تھی جھکڑ نہ تھے خوشگوار تھی (زیر و زبر کرنے والی نہ تھی) بعض لوگوں نے کہا ہوا کی رفتار حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی مرضی کے تابع تھی ‘ کبھی تند ‘ کبھی نرم۔ تجری بامرہ الی الارض التی برکنا فیہا سلیمان کے حکم سے ہوا اس زمین کی طرف چلتی جس میں ہم نے برکت عطا کی ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ الی الارض میں الی بمعنی فی (میں) ہے یعنی ملک شام میں مراد یہ ہے کہ بحکم سلیمان ہوا آپ کو فرودگاہ شام سے اصل وطن کی طرف لے جاتی تھی۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) وطن سے صبح کو چل کر ملک شام میں جا کر فروکش ہوتے تھے اور پچھلے دن میں ہوا کے کندھوں پر سوار ہو کر شام سے اصل وطن کی طرف لوٹ آتے تھے۔ بعض نے کہا الیٰ اس جگہ اپنے اصلی معنی پر ہے۔ وکنا بکل شی علمین۔ اور (ازل میں ہی) ہم ہر چیز سے واقف تھے۔ یعنی ہماری (ازلی) مصلحت کا جو تقاضا ہے اور ہماری حکمت جو چاہتی ہے ہم اسی کے مطابق جو کچھ چاہتے ہیں کرتے ہیں چناچہ ہوا وغیرہ کو سلیمان ( علیہ السلام) کے حکم کا تابع بنا دینے کی غرض یہ تھی کہ سلیمان اپنے رب کے سامنے اور جھک جائیں وہب نے کہا حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی مجلس پر پرندے چھائے ہوئے ہوتے تھے ‘ جن (صف بستہ) کھڑے ہوتے تھے اور اس شان کے ساتھ آپ جلوہ افروز ہوتے۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) بڑے مرد مجاہد تھے۔ دنیا کے جس حصہ میں کسی بادشاہ کے ہونے کی آپ کو اطلاع ملتی آپ فوراً وہاں پہنچ کر اس فرماں روا کو اطاعت پر مجبور کردیتے تھے۔ اہل روایت کا قول ہے کہ آپ جب کسی جہاد کا ارادہ کرتے تو آپ کے لئے پہلے تختے (بصورت تخت) بچھائے جاتے پھر اس پر خیمہ ڈیرہ قائم کیا جاتا پھر آپ اس پر آدمیوں کو جانوروں کو اور جنگی سامان کو چڑھواتے پھر حسب الحکم تند ہوا تختوں کے نیچے آجاتی اور سب کو اوپر اٹھاتی اور اوپر پہنچ کر نرم بن جاتی تھی۔ اتنی نرم رفتار ہوتی کہ کسی کھیتی کی طرف سے گزرتی تو اس کی پتی بھی نہ ہلتی۔ اس کی رفتار سے گردوغبار بالکل نہ اڑتا اور نہ کسی پرندے کو تکلیف ہوتی سبک سیر اتنی کہ ایک ماہ کی مسافت دن کے نصف اوّل میں اور ایک ماہ کی مسافت پچھلے دن میں طے کرلیتی تھی۔ وہب نے یہ بھی بیان کیا کہ دجلہ کے کسی ساحلی مقام پر ایک کتبہ تھا جس پر حضرت سلیمان کے کسی ساتھی نے لکھ دیا تھا۔ معلوم نہیں وہ ساتھی جن تھا یا آدمی۔ ہم یہاں اترے ہم رات کو یہاں نہیں رہے صبح اصطخر سے چلے تھے دوپہر کو یہاں قیلولہ کیا پچھلے دن میں انشاء اللہ یہاں سے چل دیں گے اور رات کو شام میں رہیں گے۔ “ مقاتل نے بیان کیا کہ حضرت سلیمان کے لئے جنات نے سونے اور ریشم کے تاروں سے ایک فرش بنا تھا جس کی لمبائی چوڑائی ایک ایک فرسخ تھی ‘ اس فرش کے وسط میں حضرت کے لئے سنہری ممبر رکھا جاتا تھا جس پر آپ تشریف فرما ہوتے تھے اور ممبر کے اردگرد سونے چاندی کی کرسیاں رکھی جاتی تھیں انبیاء سونے کی کرسیوں پر اور علماء چاندی کی کرسیوں پر فروکش ہوتے تھے اوپر سے پرندے اپنے پر پھیلائے سایہ فگن ہوتے تاکہ دھوپ کسی پر نہ پڑے کرسیوں کے گردا گرد دوسرے آدمی ہوتے اور آدمیوں کے پیچھے جنات ہوا اس فرش کو (اور فرش والوں کو) اوپر اٹھاتی تھی اور صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک ایک ایک ماہ کی مسافت تک لے جاتی تھی۔ سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ حضرت سلیمان کے دربار میں چھ لاکھ کرسیاں رکھی جاتی تھیں اگلی قطاروں میں آدمی اور آدمیوں کے پیچھے جنات بیٹھتے تھے پرندے اوپر سے سایہ کئے ہوتے تھے اور ہوا ان سب کو اٹھاتی تھی۔ حسن کا بیان ہے کہ جب پیغمبر خدا سلیمان کی عصر کی نماز گھوڑوں کے معائنہ کی وجہ سے فوت ہوگئی تو آپ کو لوجہ اللہ غصہ آگیا اور آپ نے سب گھوڑوں کو قتل کرا دیا۔ پھر اللہ نے مقتول گھوڑوں کے عوض دوسرے بہتر گھوڑے عطا فرما دیئے ہوا آپ کے حکم سے آپ کی مرضی کے مطابق تیزی سے آپ کو اٹھا کرلے جاتی تھی صبح کو ایلیا سے چلتے تو قیلولہ (دوپہر کا قیام) اصطخر میں کرتے پھر پچھلے دن میں اصطخر سے چلتے تو شام بابل میں کرتے۔ ابن زید نے بیان کیا تختوں سے بنی ہوئی آپ کی ایک سواری تھی جس کے ایک ہزار پائے تھے ہر پایہ (کھوکھلا تھا جس) کے اندر ہزار خانے تھے آپ کے ساتھ انس و جن سوار ہوتے تھے ہر پایہ کے نیچے (اٹھانے والے) ایک ہزار جنات ہوتے تھے جو اس تخت کو اٹھائے ہوتے تھے ‘ تخت اونچا ہوجاتا تو نرم ہوا آکر اس تخت کو اٹھا لیتی (صبح کو چل کر) آپ دوپہر کو ان لوگوں کے پاس قیام کرتے جو ایک ماہ کی مسافت کی دوری پر ہوتے تھے پھر شام ایسے لوگوں میں کرتے جن کی دوری ایک ماہ کی مسافت کے بقدر ہوتی۔ لوگوں کو پتہ بھی نہ چلتا کہ اچانک آپ لشکر سمیت آ پہنچتے۔ روایت میں آیا ہے کہ ایک بار حضرت سلیمان عراق سے صبح کو چلے مرو میں دوپہر کو پہنچے ‘ وہاں قیام کیا پھر بلخ میں عصر کی نماز پڑھی پھر بلخ سے روانہ ہو کر ترکستان میں داخل ہوگئے پھر ترکستان سے سرزمین چین تک پہنچ گئے ہوا کے کندھوں پر یہ راستہ طے کیا اور پرندے سر پر سایہ فگن رہے۔ آپ صبح کے دن میں ایک ماہ کی مسافت طے کرلیتے تھے اور شام کے دن میں بھی اتنی دور پہنچ جاتے تھے۔ یہاں سے آپ نے مشرق کی طرف رخ کیا یہاں تک کہ قندھار پہنچ گئے پھر قندھار سے مکران اور کرمان پہنچے پھر یہاں سے گزر کر بلاد فارس میں پہنچے اور وہاں چند روز فروکش رہے پھر صبح کو یہاں سے روانہ ہو کر دوپہر کو کسکر پہنچے پھر شام تک ملک شام میں آگئے آپ کی (اصل) قرارگاہ شہر تدمر میں تھی شام سے عراق کی طرف روانہ ہونے سے پہلے آپ نے جنات کو حکم دیا تھا کہ ایک عمارت بنائیں چناچہ جنات نے پتھر کی چٹانوں اور ستونوں اور سفید و زر و مرمر سے ایک عمارت تیار کی تھی۔
Top