Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور ایوب کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے
وایوب اذ نادی ربہ۔۔ اور ایوب کا تذکرہ کیجئے ‘ جب اس نے (مصائب میں) اپنے رب کو پکارا۔ اے رب مجھے دکھ لگ گیا ہے۔ نادی یعنی دعا کی۔ وہب بن منبہ نے بیان کیا حضرت ایوب رومی تھے ‘ آپ کا جدی نسب اس طرح تھا۔ ایوب بن احرص بن رازخ بن روم بن عیص بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام۔ آپ کی والدہ حضرت لوط بن ہاران کی اولاد میں سے تھیں۔ آپ اللہ کے برگزیدہ بندے اور نبی تھے اللہ نے آپ کے لئے دنیا وسیع کردی تھی ‘ سرزمین شام میں ایک گھاٹی جس کے اندر میدانی زمین بھی تھی اور پہاڑی بھی آپ کی ملک تھی اونٹ ‘ گائے ‘ بیل ‘ بھینس ‘ بھیڑ ‘ بکری ‘ گھوڑے ‘ گدھے ہر قسم کے بکثرت جانور آپ کے پاس تھے ‘ پانچ جوڑ بیلوں کے کھیتی کرنے کے لئے بھی آپ کے پاس تھے۔ ہر جوڑ کا خادم ایک غلام تھا اور ہر غلام کے بیوی بچے بھی تھے۔ بیلوں کی ہر جٹ کا (یعنی کھیتی کرنے اور ہل جوتنے وغیرہ کا) سامان اٹھانے کے لئے ایک گدھی تھی اور ہر گدھی کے دو دو تین تین چار چار پانچ پانچ اور اس سے زیادہ بچے تھے اللہ نے آپ کو اہل و عیال لڑکے اور لڑکیاں بھی عطا کی تھیں۔ آپ بڑے نیک پرہیزگار غریبوں پر رحم کرنے والے ‘ مسکینوں کو کھانا کھلانے والے ‘ بیواؤں کی خبرگیری کرنے والے ‘ یتیموں کی سرپرستی کرنے والے اور بڑے مہمان نواز تھے۔ مسافروں کو خرچ دے کر وطن تک پہنچا دیتے تھے ‘ اللہ کی نعمتوں کا شکر اور اللہ کا حق ادا کرتے رہتے تھے اللہ نے شیطان مردود سے آپ کو محفوظ کردیا تھا۔ ابلیس دوسرے مالداروں اور عزت یاب لوگوں کو اللہ کی یاد سے غافل بنا دیتا ہے لیکن آپ اس کی دسترس سے باہر تھے۔ آپ کے پاس تین (خاص) آدمی تھے جو آپ پر ایمان لائے تھے ‘ ایک یمنی تھا جس کا نام الیقن تھا اور دو آپ ہی کی بستی کے رہنے والے تھے ایک کا نام یلد اور دوسرے کا نام صافر تھا ‘ یہ تینوں میانہ عمر کے آدمی تھے۔ اس زمانہ میں ابلیس کی رسائی آسمانوں پر تھی ‘ آسمانوں میں جہاں چاہتا ٹھہر سکتا تھا۔ حضرت عیسیٰ کی بعثت کے بعد چار آسمانوں پر جانے کی اسے ممانعت کردی گئی پھر رسول اللہ ﷺ : کی پیدائش پر باقی آسمانوں سے بھی اس کو روک دیا گیا۔ حضرت ایوب (اللہ کا ذکر اور اس کی حمد کرتے رہتے تھے) ایک بار جب آپ نے اللہ کا ذکر کیا اور حمد کی تو فرشتوں نے اس وقت مل کر آپ کے لئے دعائے رحمت کی ‘ ابلیس نے فرشتوں کی دعا سن پائی۔ سن کر جل گیا اور فوراً آسمان پر چڑھ کر اپنے ٹھکانے پر پہنچا اور اللہ سے التجا کی اور کہا الٰہی میں نے تیرے بندے ایوب کے معاملہ پر غور کیا ‘ میں نے دیکھا کہ تو نے اپنے بندے کو نعمتوں سے نوازا ہے اس لئے اس نے تیرا شکر کیا تو نے اس کو عافیت عطا کی اس نے تیری حمد کی تو نے جو کچھ اس کو مرحمت کیا ہے اگر تو اس سے لے لے اور اس کو مصیبت میں مبتلا کر دے تو یہ مصیبت اس کو عبادت و حمد سے روک دے گی اور وہ تیری طاعت سے نکل جائے گا۔ اللہ نے فرمایا جا میں نے اس کے مال پر تجھے دسترس عطا کردی ‘ دشمن خدا ابلیس یہ اختیار لے کر آسمان سے زمین کی طرف آیا پھر خبیث جنات اور سرکش شیطانوں کو جمع کر کے کہنے لگا مجھے ایوب کے مال پر تسلط عطا کردیا گیا ہے اور یہ ایسی سخت مصیبت ہے جس پر (بڑے بڑے) لوگ صبر نہیں کرسکتے ‘ بتاؤ تمہارے اندر کیا طاقت ہے (تم اپنی اپنی طاقتوں کی تفصیل بتاؤ) ایک خبیث شیطان بولا مجھے ایسی قوت دی گئی ہے کہ اگر میں چاہوں تو آتشیں بگولہ بن جاؤں پھر جس چیز پر گزروں اس کو جلا ڈالوں۔ ابلیس نے کہا اچھا تو جس وقت ایوب کے اونٹ اپنی چراگاہوں میں جمے بیٹھے ہوں تم اونٹوں کی طرف جاؤ (اور سب کو جلا ڈالو) یہ کہتے ہی لوگوں کو پتہ بھی نہ چلا اور ایک دم زمین کے نیچے سے ایک آتشیں بگولہ اٹھا اور جب اونٹوں کے پاس سے گزرا تو ان کو اور چرواہوں کو جلا کر سوختہ کردیا یہاں تک کہ سب اونٹوں کو جلا کر ختم کردیا اس کے بعد ابلیس اونٹوں کے نگراں کی صورت بنا کر ایک اونٹ پر سوار ہو کر حضرت ایوب کے پاس پہنچا آپ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہنے لگا ایوب ایک آگ آئی سب اونٹوں کو ہر طرف سے اس نے گھیرے میں لے لیا سب اونٹ اور ان کے چرواہے سوختہ ہوگئے۔ حضرت ایوب نے فرمایا الحمدللہ جس نے دیئے تھے اسی نے لے لئے میں تو ہمیشہ سے اپنی جان و مال کو فنا ہونے والا سمجھے ہوا ہوں ابلیس بولا آپ کے رب نے ان پر آسمان سے آگ بھیج دی جس سے سب جل گئے لوگ حیرت میں پڑگئے اور ان کو بڑا تعجب ہوا کوئی کہنے لگا ایوب کسی کی پوجا ہی نہیں کرتے تھے محض دھوکہ میں پڑے ہوئے تھے۔ بعض لوگ کہنے لگے ایوب خدا کی عبادت کرتے تھے خدا ہی نے یہ آگ بھیجی تاکہ ایوب کے دشمن خوش ہوں اور دوستوں کو دکھ پہنچے کسی نے کہا اگر ایوب کے معبود میں طاقت ہوتی اور وہ حفاظت کرسکتا تو ضرور اس کی کارسازی کرتا۔ حضرت ایوب نے یہ باتیں سن کر فرمایا الحمدللہ ! اسی نے مجھے دیا تھا اسی نے مجھ سے لے لیا ہر حال میں وہ قابل حمد ہے۔ میں ماں کے پیٹ سے ننگا پیدا ہوا تھا اور ننگا ہی لوٹ کر مٹی میں جاؤں گا اور ننگا ہی اٹھ کر اللہ کے پاس جاؤں گا۔ جب اللہ تجھے کوئی چیز عاریتہ دے دے تو تجھے اترانے کا حق نہیں ہے اور جب اپنی عاریت پر قبضہ کرلے تو تجھے جزع و فزع نہ کرنا چاہئے اس چیز کا اللہ ہی زیادہ مستحق ہے اور وہی تیرا بھی مالک ہے اور اے شخص اگر اللہ کو تیرے اندر کوئی بھلائی معلوم ہوتی تو تو بھی شہید ہوجاتا اور ان روحوں کے ساتھ تیری روح بھی منتقل ہوجاتی ‘ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو تیری طرف سے (شر ہی) معلوم ہوئی۔ اسی لئے (آگ کے اندر سے اور شہیدوں کے گروہ سے) تجھے نکال دیا۔ حضرت کی اس گفتگو سے ابلیس ذلیل و خوار ہو کر اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور ان سے کہا اب تمہارے پاس کون سی طاقت ہے میں تو ایوب کے دل کو زخمی نہیں کرسکا ایک دیو بولا میرے اندر ایسی قوت ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں ایسی چیخ ماروں کہ جو جان دار اس کو سنے اس کی جان نکل جائے ‘ ابلیس نے کہا تم بھیڑ بکریوں اور ان کے چرواہوں کو جا کر ختم کر دو حکم پا کر دیو فوراً چل دیا اور بھیڑ بکریوں کے درمیان پہنچ کر ایک چیخ ماری جس سے تمام بکریاں اور ان کے چرواہے مرگئے اس کے بعد ابلیس چرواہوں کے داروغہ کے بھیس میں حضرت ایوب کے پاس پہنچا آپ اس وقت بھی نماز پڑھ رہے تھے ابلیس نے پہنچ کر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی اور حضرت ایوب نے بھی پہلے کی طرح جواب دیا ابلیس اپنے رفقاء کے پاس واپس چلا گیا اور بولا اب بتاؤ تمہارے پاس کیا طاقت ہے میں تو اب بھی ایوب کے دل کو زخمی نہیں کرسکا ایک خبیث جن کہنے لگا۔ اگر میں چاہوں تو آندھی بن سکتا ہوں جو ہر چیز کو اڑا کرلے جائے گی۔ ابلیس نے کا ہ تو بیلوں اور کھیتوں کے پاس جا خبیث جن چلا گیا اور اچانک ایک طوفانی ہوا چلی اور ہر چیز کو اڑا کرلے گئی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ اس کے بعد ابلیس کھیتی باڑی کے مینجر کی شکل بنا کر حضرت ایوب کے پاس آیا آپ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ابلیس نے وہی پہلے والی بات کی اور آپ نے بھی وہی سابق کا جواب دے دیا اور مصیبت پر صبر کرنے پر اپنے دل کو جما لیا آخر جب آپ کے پاس کسی طرح کا مال نہ رہا اور ابلیس نے آپ کا سارا مال تباہ کردیا تو آسمان پر پھر گیا اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا الٰہی ایوب جانتا ہے کہ جب آل و اولاد سے تو نے اس کو بہرہ اندوز کیا ہے تو مال بھی عنایت کر دے گا اس لئے مطمئن ہے کیا تو مجھے اس کی اولاد پر تسلط عطا فرما دے گا یہ مصیبت ایسی ہے جس پر (بڑے بڑے) آدمیوں کے دل برقرار نہیں رہ سکتے۔ اللہ نے فرمایا (جا) میں نے تجھے ایوب کی اولاد پر دسترس عطا کی دشمن خدا چلا آیا۔ حضرت ایوب کی اولاد ایک قصر کے اندر تھی۔ ابلیس نے اس قصر کے درودیوار کو جھنجھوڑ ڈالا۔ دیواروں کو باہم ٹکرا دیا لکڑیاں اور پتھر اوپر سے پھینکے ‘ یہاں تک کہ جب سب لوگوں کو خوب زخمی کردیا تو محل کو اٹھا کر الٹ دیا ‘ سب لوگ سرنگوں ہو کر گرپڑے اور ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد بچوں کے اتالیق کی شکل بنا کر حضرت ایوب کی خدمت میں پہنچا خود بھی اس وقت زخمی تھا چہرے پر خراشیں تھیں خون بہ رہا تھا جا کر واقعہ کی اطلاع دی اور کہا اگر آپ وہ منظر دیکھ لیتے جب کہ آپ کے بچے سخت اذیتوں میں مبتلا ہوئے تھے خون بہ رہا تھا اور دماغ بھی باہر نکلنے لگے تھے ‘ پیٹ پھٹ گئے تھے انتڑیاں بکھری پڑی تھیں اسی حالت میں قصر الٹ گیا اور سب الٹے ہو کر جاں بحق ہوگئے تو آپ کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ ابلیس برابر اسی طرح کے (دردناک) الفاظ کہتا رہا اور حضرت ایوب سنتے رہے آخر آپ کے دل میں رقت پیدا ہوئی اور رونے لگے اور ایک مٹھی خاک اپنے سر پر ڈالی اور کہا کاش میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا ‘ ابلیس نے اس بات کو غنیمت سمجھا اور ایوب کی بےصبری کو دیکھ کر فوراً آسمان پر چڑھ گیا ادھر حضرت ایوب نے اپنے الفاظ سے رجوع کرلیا اور توبہ و استغفار کی اور آپ کی توبہ و استغفار کو ملائکہ لے کر ابلیس کے پہنچنے سے پہلے ہی جا پہنچے اور بارگاہِ الٰہی میں پیش کردی اللہ تو پہلے ہی بخوبی واقف تھا (ملائکہ کی پیشی بھی حسب الحکم ہوگئی) ابلیس ذلیل ہوگیا اور کہنے لگا۔ الٰہی تو نے ایوب کو تندرستی دی ہے جسمانی اذیت سے محفوظ رکھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کی تندرستی ہے تو اللہ مال و اولاد اور عنایت کر دے گا اس لئے مال و اولاد کی ہلاکت کا اس پر اثر نہیں پڑا تو مجھے اس کے جسم پر تسلط عطا کر دے گا (تو اس کا قدم ڈگمگا جائے گا) اللہ نے فرمایا جا میں نے ایوب کے جسم پر تجھے تسلط عطا کیا لیکن زبان اور دل پر تیرا تسلط نہیں ہے زبان و دل کے علاوہ باقی جسم کو تیرے زیر تسلط کردیا گیا۔ اللہ نے ابلیس کو یہ تسلط صرف اس لئے عطا فرمایا تھا کہ ایوب کے ثواب میں اضافہ ہو صبر کرنے والوں کے لئے مثال ہو۔ ہر دکھ اور مصیبت پر صبر کرنے کی دوسروں کو تلقین ہو اور بامید ثواب ہر اذیت پر ان کو صبر ہو۔ اللہ کا دشمن اجازت پا کر فوراً آیا ‘ ایوب اس وقت سجدے میں تھے سر اٹھانے نہ پائے تھے کہ ابلیس آگیا اور چہرے کی طرف سے آکر ناک کے سوراخ میں ایک پھونک ماری جس سے حضرت ایوب کا جسم آگ کی طرح بھڑکنے لگا اور سر کی چوٹی سے پاؤوں کی نوک تک ایسے دمبل نکل آئے جیسے بکری کی کلیجی اور ان میں کھجلی پیدا ہوگئی حضرت ایوب نے ناخنوں سے اس کو کھجانا شروع کیا یہاں تک کہ سب ناخن گرگئے پھر کھردرے ٹاٹ سے کھجایا ٹاٹ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا پھر نوک دار کھردرے ٹھیکروں اور پتھروں سے کھجایا اور اتنا کھجایا کہ گوشت کٹنے لگا۔ بو دینے لگا ‘ سڑ گیا۔ بستی والوں نے آپ کو بستی سے باہر نکال کر ایک گھوڑے پر جھونپڑی بنا کر اس میں ڈال دیا اور سب نے چھوڑ ڈیا صرف آپ کی بی بی رحمت بنت افراثیم بن یوسف بن یعقوب نے ساتھ دیا بعض نے رحمت کو حضرت یوسف ہی کی صاحبزادی کہا ہے ‘ رحمت آپ کے پاس آتی رہیں اور آپ کی ضروریات فراہم کر کے لاتی رہیں۔ جب حضرت کے تینوں رفقاء الیقن ‘ یلدو اور صافر نے حضرت ایوب کی یہ ابتلائی حالت دیکھی تو وہ بھی کنارہ کش ہوگئے اور شرعی جرم کرنے کی) آپ پر تہمت لگائی مگر آپ کے دین کو نہیں چھوڑا جب مصیبت بڑھ گئی تو ایک روز تینوں حضرات کے پاس آئے اور خوب سخت سست کہا اور کہنے لگے آپ کو اللہ کی طرف سے یہ گناہ کی سزا دی گئی اللہ سے توبہ کیجئے۔ راوی کا بیان ہے ایک نوجوان مؤمن بھی ان تینوں کے ساتھ تھا اس نے کہا اے عمر رسیدہ لوگو ! آپ لوگ اپنی عمروں کی بیشی کی وجہ سے کلام کرنے کے زیادہ مستحق ہو لیکن آپ لوگوں نے جو کچھ کہا خیال کیا اور جو بات کی اس سے زیادہ اچھا کلام بہترین رائے اور مناسب ترین بات بھی پیش کرسکتے تھے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ حضرت ایوب کا تم پر حق ہے ‘ ذمہ داری ہے کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین اور بےعزتی کی وہ کیسی شخصیت ہے جس پر تم نے عیب تھوپے اور نکتہ چینی کی کیا تم نہیں جانتے کہ وہ اللہ کا پیغمبر ہے اس وقت تمام اہل ارض سے برگزیدہ اور اللہ کا منتخب بندہ ہے پھر تم کو یہ بھی نہیں معلوم اور نہ اللہ نے تم کو بتایا ہے کہ جب سے ایوب کو پیغمبری ملی کبھی بھی اللہ نے اس کی کسی حرکت کو ناپسند کیا ہو یا جو عزت اس کو عطا فرمائی ہے اس کا کوئی حصہ چھین لیا ہو نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ اس وقت سے جب سے تم اس کے ساتھ ہوئے ہو کبھی بھی آج تک اس نے اللہ کے سلسلہ میں کوئی ناحق بات کہی ہو۔ جس (دکھ اور تکلیف) کو تم ایوب کے لئے اپنے خیال میں باعث تذلیل و تحقیر سمجھتے ہو (وہ ایسا نہیں ہے) اللہ اپنے پیغمبروں صدیقوں شہیدوں اور نیک لوگوں کو دکھ میں مبتلا کرتا چلا آیا ہے اس کی طرف سے یہ دکھ اور امتحان اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ اس طبقہ سے ناراض ہے نہ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کی نظر میں یہ لوگ ذلیل ہوگئے بلکہ یہ امر تو ان کے لئے مزید عزت افزائی اور فضیلت ہے۔ اور بالفرض اگر ایوب اللہ کے نزدیک اس مرتبہ پر نہیں بھی ہوں تب بھی وہ تمہارے بھائی تو ہیں ‘ تم نے ان کے ساتھ رہ کر ان سے برادری کی ہے (مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کو پیغمبر نہیں مانتے تو دوست ہی سمجھو مدت تک تم ان کے ساتھ رہے ہو) اور کسی دانش مند کے لئے جائز نہیں کہ اپنے دوست سے اس کی مصیبت کے وقت کنارہ کش ہوجائے یا اس کو لعنت و ملامت کرے وہ تو خود غم رسیدہ اور دکھی ہے اس پر نکتہ چینی کرنی اور نکتہ چینی بھی وہ جس کا علم عار دلانے والے کو نہیں کسی طرح درست نہیں۔ مناسب تو یہ ہے کہ اس سے ہمدردی کی جائے اس کے رونے میں شرکت کی جائے اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے اور جو تدبیریں اس کے معاملے کو درست کرنے والی ہیں وہ بتائی جائیں۔ دانش مند اور ہدایت یافتہ وہ شخص نہیں جو ان باتوں سے ناواقف ہو۔ سن رسیدہ بزرگو اللہ کی عظمت و جلال کا مطالعہ اور موت کی یاد تمہاری زبانوں کو کاٹ دیتی ہے اور دلوں کو پارہ پارہ کردیتی ہے کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو بڑے فصیح اللسان ‘ بلیغ البیان دانش مند اور عالم ہیں نہ گونگے ہیں نہ بیان سے عاجز اس کے باوجود اللہ کے خوف نے ان کو خاموش کردیا ہے جب وہ اللہ کی عظمت کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی زبانیں (ماسوا کے تذکرے سے) کٹ جاتی ہیں ‘ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ دل پارہ پارہ ہوجاتے ہیں اور ہوش و حواس پراں ہوجاتے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کی عظمت کو دیکھنے اور جلال الٰہی کا مشاہدہ کرنے کے وقت ہوتا ہے لیکن جب (ان کو ہوش آتا ہے اور) استقامت حال نصیب ہوتی ہے تو اس وقت وہ اپنے پاکیزہ اعمال کے ساتھ اللہ کی طرف دوڑتے ہیں مگر اپنا شمار خطاواروں اور ظالموں کے ساتھ کرتے ہیں وہ خود ابرار اور گناہوں سے پاک ہوتے ہیں لیکن قصورواروں اور گناہگاروں کے ساتھ ہوتے ہیں یہی لوگ بڑے دانش مند اور اصحاب قوت ہیں۔ حضرت ایوب نے اس نوجوان کی یہ تقریر سن کر فرمایا اللہ چھوٹے بڑے کے دل میں اپنی رحمت سے حکمت کی تخم پاشی کرتا ہے پھر دل میں پودا پیدا ہوتا ہے تو زبان پر اللہ اس کو ظاہر فرما دیتا ہے حکمت کا مدار نہ طول عمر اور بڑھاپے پر ہے نہ تجرے کی فراوانی پر اگر اللہ کسی کو بچپن میں ہی باحکمت بنا دیتا ہے تو اس کا مرتبہ دوسرے حکماء کے نزدیک کم نہیں ہوتا اہل حکمت جانتے ہیں کہ نور عزت خداداد ہے اس کے بعد حضرت ایوب نے ساتھیوں کی طرف سے منہ پھیرلیا اور اپنے رب کی طرف رخ کر کے فریاد وزاری میں مشغول ہوئے۔ عرض کیا اے میرے رب تو نے مجھے کس لئے پیدا کیا ‘ کاش تو نے مجھے پیدا نہ کیا ہوتا۔ اے کاش مجھے معلوم ہوجاتا کہ مجھ سے کون سی خطا ہوگئی اور میں نے کون سا ایسا کام کیا جس کی وجہ سے تو نے اپنا مبارک رخ میری طرف سے پھیرلیا ‘ اگر میں نے کوئی گناہ کیا تو مجھے مار ڈالتا اور میرے آباء و اجداد کے ساتھ مجھے ملا دیتا ‘ موت ہی میرے لئے زیادہ مناسب تھی ‘ کیا میں مسافروں کے لئے قیام گاہ اور مسکینوں کے لئے قرارگاہ نہیں بنا ہوا تھا کیا میں یتیموں کا والی اور بیواؤں کا سرپرست نہیں تھا الٰہی میں تیرا بندہ ہوں اگر تو مجھ سے بھلائی کرے گا تو تیرا احسان ہے اور اگر میرے ساتھ برائی کرے گا تو مجھے سزا دینے کا تجھے اختیار ہے تو نے مجھے مصیبتوں کی آماجگاہ اور دکھوں کا نشانہ بنا دیا مجھ پر ایسی مصیبت پڑی ہے کہ اگر تو پہاڑ پر ڈال دیتا تو وہ بھی نہ اٹھا سکتا ‘ پھر میری کمزوری اس کو کیسے برداشت کرسکتی ہے تیرے قطعی حکم نے مجھے ذلیل کردیا اور تیری ہی حکومت نے مجھے بدحال بنا دیا اور میرے جسم کو دبلا کردیا۔ اگر میرا رب اپنی ہیبت کو نکال دے جو میرے دل میں ہے اور میری زبان کو رواں کر دے کہ میں منہ بھر کر بول سکوں پھر یہ مناسب بھی ہو کہ بندہ اپنی طرف سے حجت پیش کرسکے تو امید ہے کہ جو مصیبت مجھ پر ہے اس سے مجھے بچاؤ عطا کر دے گا لیکن وہ تو مجھ سے بہت بالا و اعلیٰ ہے ‘ وہ مجھے دیکھتا ہے میں اسے نہیں دیکھتا وہ میری بات سنتا ہے میں اس کی آواز نہیں سنتا اس کی نظر (عنایت) میری طرف نہیں۔ نہ وہ مجھ پر رحم کرتا ہے نہ مجھ سے قریب ہے نہ مجھے اپنے قریب کرتا ہے کہ میں اپنا عذر پیش کرسکوں اور اپنی براءت کی بات کرسکوں اور اپنا دفاع کرسکوں حضرت ایوب اتنی ہی بات کرنے پائے تھے اور آپ کے ساتھی آپ کے پاس ہی بیٹھے تھے کہ یکدم ایک بادل چھا گیا ساتھیوں نے خیال کیا کہ اس کے اندر کوئی عذاب آیا ‘ لیکن اس کے اندر سے آواز آئی اے ایوب ! اللہ فرماتا ہے میں تیرے قریب ہوں اور ہمیشہ سے تیرے قریب ہی رہا ‘ اٹھ اپنا عذر پیش کر اور اپنی براءت کی بات کر اور اپنی طرف سے دفاع کر اور کمر کس کر اٹھ کھڑا ہو اور اس مقام پر کھڑا ہو جس مقام پر کوئی طاقت ور کھڑا ہو کر دوسرے طاقتور کا دفاع کرتا ہے اگر تجھ سے ہو سکے۔ مجھ سے وہی جھگڑا کرسکتا ہے جو مجھ جیسا ہو اے ایوب تیرے نفس نے تجھے آرزومند بنا دیا ہے کہ تو اپنی قوت سے اپنے مقصد کو پہنچ جائے گا تو کہاں تھا جس روز میں نے زمین کو پیدا کیا اور اس کی بنیاد پر اس کو قائم کیا کیا تو نے میرے ساتھ زمین کے کناروں کو پھیلا رہا تھا کیا تو واقف ہے کہ میں نے کس اندازے سے اس کو بنایا ‘ کس چیز پر اس کے اطراف کو قائم کیا ‘ کیا تیری اطاعت کر کے پانی نے زمین کو اٹھایا ہے کیا تیری حکمت سے زمین پانی کا سرپوش بنی ہوئی ہے تو اس روز کہاں تھا جب میں نے آسمان کو چھت کی شکل میں ہوا میں بلند کیا تھا نہ اوپر سے کوئی رسی ہے کہ آسمان سے بندھا لٹک رہا ہو ‘ نہ نیچے سے ستون اس کو اٹھائے ہوئے ہیں کیا تو اپنی حکمت سے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے کہ آسمان کے نور کو بہا دے یا ستاروں کو چلا دے کیا تیرے حکم سے رات و دن کا ادل بدل ہو رہا ہے۔ جس روز دریاؤں کے فوارے میں نے (زمین سے) نکالے تھے اور سمندروں کو ان کی حدود میں بند کیا تھا تو تو کہاں تھا کیا تیری قوت سے سمندروں کی لہریں ان کی حدود کے اندر روکی گئی ہیں یا مدت حمل ختم ہونے پر رحم کا منہ تو کھولتا ہے جب میں نے پانی کو خاک پر روکا تھا اور اونچے پہاڑ برپا کئے تھے تو کہاں تھا کیا تجھے علم ہے کہ کس چیز پر میں نے پہاڑوں کو برپا کیا ہے یا کس توازن سے ان کو قائم کیا ہے کیا تیرے پاس ایسی کلائیاں ہیں جو ان کا بوجھ اٹھا سکیں۔ کیا تو جانتا ہے کہ جو پانی میں آسمان سے اتارتا ہوں وہ کہاں سے آتا ہے کس چیز سے بادل پیدا ہوتا ہے۔ برف کا خزانہ کہاں ہے اولوں کے پہاڑ کہاں ہیں ‘ دن کے اندر رات کا خزانہ کہاں ہے اور رات میں دن کا خزانہ کہاں رہتا ہے اور ہواؤں کا خزانہ کہاں ہے ‘ درخت کس زبان میں باتیں کرتے ہیں۔ کس نے انسان کے جوف (سینہ یا پیٹ یا سر) میں عقل پیدا کی اور کس نے کانوں اور آنکھوں کے یہ شگاف بنائے ‘ فرشتے کس کے اقتدار کے مطیع ہیں اور کس نے اپنی قہاری طاقت سے سب طاقتوروں کو مغلوب کر رکھا ہے اور کس نے اپنی حکمت سے رزق کی تقسیم کی ہے۔ اللہ نے اسی طرح کے کلام میں اپنی آثار قدرت کا بکثرت اظہار فرمایا۔ ایوب نے عرض کیا ‘ الٰہی جو تفصیل تو نے بیان فرمائی اس کو سمجھنے (اور جواب دینے) سے (میری حالت اور) میرا مرتبہ حقیر ہے میری زبان گنگ ہوگئی میری عقل اور دانش کند ہوگئی اور میری قوت کمزور پڑگئی اے میرے معبود ! میں جانتا ہوں کہ جو کچھ تو نے بیان فرمایا وہ تیرے ہی دست قدرت کی کاریگری اور تیری ہی حکمت کی تدبیر کا نتیجہ ہے بلکہ تیری تدبیر حکمت و صنعت اور قدرت اس سے بھی بڑی ہے کوئی چیز تجھے بےبس نہیں کرسکتی کوئی چیز تجھ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ‘ میرے معبود مجھ پر دکھ ایسے پڑے کہ میں بےقابو ہو کر بول پڑا مصیبت نے ہی میری زبان چلا دی۔ کاش زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتا اور ایسی بات اپنے رب کی شان میں نہ کہتا جو میرے رب کی ناراضگی کا باعث ہوتی کاش اس سے پہلے ہی سخت ترین دکھ سے پیدا ہونے والے غم کی وجہ سے میں مرچکا ہوتا۔ میں نے جو کچھ زبان سے نکالا وہ اس لئے نکالا کہ تو میری معذرت قبول فرما لے اور خاموش رہا تو اس لئے کہ تجھے مجھ پر رحم آجائے۔ میری زبان سے غلطی سے ایک بات نکل گئی دوبارہ ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ میں نے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا ہے اور دانتوں کے نیچے زبان دبالی ہے اور چہرے پر خاک مل لی ہے۔ آج میں تیرے عذاب سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں اور سخت دکھ سے تیرے ہی جوار رحمت کا خواستگار ہوں مجھے اپنی پناہ میں لے لے۔ میں تیری سزا سے محفوظ رہنے کے لئے تجھ سے ہی فریاد کرتا ہوں میری فریاد رسی فرما میں تیری ہی مدد کا طلبگار ہوں ‘ میری مدد کر میں تجھی پر بھروسہ رکھتا ہوں میرا کام پورا فرما دے میں تیرے ہی ذریعہ سے بچاؤ کا خواہاں ہوں مجھے اپنی حفاظت میں لے لے ‘ میں تجھ سے اپنے قصور کی معافی چاہتا ہوں مجھے معاف فرما دے میں آئندہ ہرگز کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جو تیری مرضی کے خلاف ہو۔ اللہ نے ایوب سے فرمایا تیرے بارے میں میرا علم (پہلے ہی) نافذ ہوچکا تھا اور میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے میں نے تیرا قصور معاف کیا تیرے اہل و عیال اور مال کی واپسی کا حکم دے دیا بلکہ جتنا تیرے پاس تھا اتنا ہی مزید تجھے دے دیا تاکہ پیچھے آنے والوں کے لئے قدرت کی نشانی مصیبت زدہ لوگوں کے لئے عبرت اور صبر کرنے والوں کے لئے باعث عزت ہوجائے اپنی ایڑی زمین پر مار (دیکھ) یہ ٹھنڈا پینے کا اور نہانے کا پانی ہے ‘ اس میں تیری شفا ہے۔ اپنے ساتھیوں کی طرف سے قربانی پیش کر اور ان کے لئے دعائے مغفرت کر انہوں نے تیرے متعلق میری نافرمانی کی ہے (یعنی تیرے متعلق برا خیال قائم کیا اور تجھے چھوڑ کر چلے گئے) حسب الحکم ایوب نے زمین پر اپنی ایڑی ماری فوراً ایک چشمہ پھوٹ نکلا ‘ ایوب نے اس میں گھس کر غسل کیا اور فوراً ہی اللہ نے سارے دکھ دور کردیئے آپ چشمہ سے نکل کر آکر بیٹھ گئے اتنے میں سامنے سے آپ کی بی بی آگئی اور ایوب ‘ جہاں پہلے پڑے تھے وہاں آپ کو تلاش کرنے لگی اور جگہ خالی پا کر متحیر دیوانی ہو کر ادھر ادھر ڈھونڈنے لگی آخر ایک آدمی کو بیٹھا دیکھ کر حضرت ایوب سے ہی پوچھنے لگی اللہ کے بندے تم کو اس بیمار کا کچھ پتہ ہے جو یہاں پڑا ہوا تھا ایوب نے جواب دیا جی ہاں (میں اسکو پہچانتا ہوں) نہ پہچاننے کی کوئی وجہ نہیں ‘ یہ کہہ کر آپ مسکرا دیئے اور فرمایا وہ میں ہی تو ہوں ہنسنے سے بی بی نے پہچان لیا اور (دوڑ کر) گلے لگ گئی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں عبداللہ (بن عباس) کی جان ہے بی بی ایوب کے گلے سے اس وقت تک لپٹی رہی کہ سارے مویشی اور اولاد (جو فنا ہوچکی تھی دوبارہ زندہ کو کر) ان کے سامنے سے گزر گئی۔ اس کا تذکرہ آیت ذیل میں ہے۔ وایوب اذ نادی ربہ انی مسنی الضر اور یاد کرو ایوب کا واقعہ جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے یرے رب مجھے دکھ لگ گیا ہے۔ ضُرٌّحالت کا خراب ہونا۔ جسمانی ہو یا مالی یا عزت کی بربادی۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے ضر بالفتح اور ضربالضم مصدر ہے اور ضر بالضم اسم بھی ہے بیضاوی نے لکھا ہے ضَر (بالفتح) کا استعمال ہر دکھ کیلئے عام ہے بدنی ہو یا مالی اور ضر (بالضم) کا استعمال صرف بدنی دکھ کیلئے ہوتا ہے جیسے کوئی بیماری یا بدن کی لاغری کمزوری۔ حضرت ایوب ( علیہ السلام) کتنی مدت دکھ میں مبتلا رہے ‘ کب دعا کی اور کیوں کی ؟ اس سلسلہ میں علماء کے اقوال مختلف ہیں ‘ بغوی نے لکھا ہے کہ زہری نے حضرت انس ؓ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ ایوب اٹھارہ برس دکھ میں مبتلا رہے۔ وہب بن منبہ نے کہا پورے تین سال مبتلا رہے ایک دن بھی زائد نہیں ہوا کعب احبار کے قول میں سات سال کی مدت مذکور ہے۔ بعض اقوال میں آیا ہے کہ مدت مرض سات سال سات ماہ اور سات دن ہوئی۔ حسن بصری نے کہا ایوب سات سال اور چند ماہ بنی اسرائیل کے گھورے پر پڑے رہے آپ کے بدن میں کیڑے رینگتے تھے ‘ سوائے (بی بی) رحمت کے کوئی پاس بھی نہیں جاتا تھا صرف رحمت آپ کے ساتھ جمی رہیں آپ کے لئے کھانا لاتی تھیں اور جب ایوب اللہ کی حمد کرتے تھے تو بی بی بھی حمد میں شریک ہوتی تھیں۔ اس حالت میں بھی ایوب ذکر خدا میں مشغول رہتے تھے ابلیس یہ بات دیکھ کر چیخ پڑا اور اطراف زمین سے اپنے تمام لاؤ لشکر کو بلا کر جمع کر کے کہنے لگا مجھے تو اس بندے نے عاجز کردیا ہے ‘ میں نے نہ اس کا مال چھوڑا نہ اولاد اس حالت میں بھی یہ صبر کرتا رہا بلکہ پہلے سے زیادہ اس نے صبر کا اظہار کیا پھر مجھے اس کے بدن پر بھی اختیار مل گیا تو میں نے اس کے (سارے) بدن کو پھوڑا بنا کر چھوڑ دیا کہ یہ گھورے پر پڑا رہتا ہے اور سوائے اس کی بیوی کے اور کوئی اس کے پاس بھی نہیں پھٹکتا ہے (مگر اس حالت میں بھی اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا) اب میں تم سے فریاد کرتا ہوں تم ہی میری مدد کرو اب میں کیا کروں ابلیس کے ساتھیوں نے کہا وہ تدبیر کیا ہوئی جس کی وجہ سے آپ نے گزشتہ لوگوں کو برباد کر کے چھوڑا ابلیس نے کہا وہ ساری تدبیریں بیکار گئیں مجھے کچھ اور مشورہ دو ساتھیوں نے کہا آدم تک آپ کی رسائی کیسے ہوئی تھی کہ آپ نے اس کو جنت سے نکلوا دیا۔ ابلیس نے کہا میں نے اس کی عورت کا ذریعہ اختیار کیا تھا ‘ ساتھیوں نے کہا تو اب بھی ایوب کے سلسلہ میں اس کی عورت کے ذریعہ سے کچھ تدبیر کیجئے ایوب بیوی کے خلاف نہیں کرسکے گا اور بیوی کے علاوہ کوئی اور اس کے پاس جاتا نہیں ہے۔ ابلیس نے کہا تمہارا مشورہ ٹھیک ہے اس کے بعد ابلیس حضرت ایوب کی بیوی کے پاس پہنچا اور مرد کی شکل میں ان کے سامنے جا کھڑا ہوا اور دریافت کیا اللہ کی بندی تیرا شوہر کہاں ہے بیوی نے کہا وہ یہی تو ہیں جو اپنے پھوڑوں کو کھجا رہے ہیں اور ان کے بدن کے اندر کیڑے رینگ رہے ہیں۔ شیطان نے بی بی کے منہ سے یہ بات سنی تو اس کو امید ہو چلی اس نے خیال کیا کہ شاید یہ الفاظ بےصبری کے ہوں (اور میں اس عورت کو مزید درمند بنا کر بےصبر بنا سکوں) چناچہ اغوا کے طور پر بی بی کو راحتوں کا وہ دور یاد دلایا جس سے وہ گزر چکی تھی مویشیوں کا اور مال کا تذکرہ ایوب کے گزشتہ شباب کا ذکر کیا اور موجودہ دکھ اور تکلیف کا بھی بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ اب یہ دکھ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ حسن کی روایت میں ہے ان تذکروں کو سن کر بی بی چیخ پڑی ‘ اس کی چیخ سن کر ابلیس سمجھ گیا کہ اب اس عورت کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا (اور تدبیر کا کامیاب ہوجانا ممکن ہے) چناچہ اس نے ایک بکری کا بچہ بی بی کو لا کردیا اور کہا ایوب کو چاہئے کہ اس بچے کو (غیر اللہ کے نام پر) ذبح کر دے اس طرح وہ تندرست ہوجائے گا۔ بی بی حضرت ایوب کی طرف لوٹی اور (دور سے ہی) چیختی ہوئی آئی ایوب کب تک آپ کا رب آپ کو دکھ دیتا رہے گا مال کہاں گیا اولاد کہاں گئی۔ دوست کہاں گئے آپ کا خوبصورت رنگ کیا ہوا آپ کا حسین جسم کس طرف چلا گیا۔ بکری کے اس بچہ کو (غیر اللہ کے نام) پر ذبح کر دیجئے یہ دکھ جاتا رہے گا آپ آرام سے ہوجائیں گے ‘ حضرت ایوب نے فرمایا دشمن خدا تیرے پاس جا پہنچا اور تیرے اندر اس نے پھونک مار دی ‘ تیرا برا ہو یہ تو بتا کہ جس مال مویشی اولاد اور صحت پر تو رو رہی ہے وہ دی کس نے تھی ؟ بی بی نے کہا اللہ نے۔ ایوب نے کہا اور کتنے زمانے تک ہم مزے اڑاتے رہے ؟ بی بی نے کہا اسّی برس تک۔ ایوب نے کہا اب کتنے زمانے سے ہم پر یہ مصیبت پڑی ہے بی بی نے کہا سات برس اور چند مہینوں سے ایوب نے کہا تو کیا یہ تیری انصاف کی بات ہوگی اگر تو اسّی برس تک مصیبت نہ جھیلے جس طرح اسّی برس تک ہم راحت سے بہرہ اندوز رہے اگر اللہ نے مجھے شفا دے دی تو خدا کی قسم میں تیرے سو تازیانے ماروں گا تو مجھے مشورہ دے رہی ہے کہ میں اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر ذبح کروں تو جو کھانا پینا لے کر آئی مجھ پر حرام ہے اور آئندہ جو کچھ تو لے کر آئے گی اس کو چکھنا بھی میرے لئے حرام ہے میرے پاس سے تو الگ ہوجا مجھے صورت نہ دکھا غرض ایوب نے بی بی کو نکال دیا اور وہ چلی گئی ‘ اس کے بعد جب ایوب نے دیکھا کہ اب تو میرے پاس نہ کچھ کھانے کو ہے نہ پینے کو نہ میرا کوئی دوست ہے تو سجدہ میں گرپڑے اور دعا کی اے میرے رب مجھے دکھ لگ گیا ہے۔ وانت ارحم الرحمین۔ اور تو سب سے بڑ کر رحم کرنے والا ہے۔ حضرت ایوب نے عرض مدعا نہیں کیا بلکہ پہلے اپنی قابل رحم حالت کا اظہار کیا اور پھر اللہ کے ارحم الراحمین ہونے کا۔
Top