Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 84
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَاج : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَكَشَفْنَا : پس ہم نے کھول دی مَا : جو بِهٖ : اس کو مِنْ ضُرٍّ : تکلیف وَّاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے اسے اَهْلَهٗ : اس کے گھر والے وَمِثْلَهُمْ : اور ان جیسے مَّعَهُمْ : ان کے ساتھ رَحْمَةً : رحمت (فرما کر) مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَذِكْرٰي : اور نصیحت لِلْعٰبِدِيْنَ : عبادت کرنے والوں کے لیے
تو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور جو ان کو تکلیف تھی وہ دور کردی اور ان کو بال بچے بھی عطا فرمائے اور اپنی مہربانی کے ساتھ اتنے ہی اور (بخشے) اور عبادت کرنے والوں کے لئے (یہ) نصیحت ہے
فاستجبنا لہ پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور فرمایا تیری دعا قبول کرلی گئی اب سجدہ سے سر اٹھا۔ فکشفنا ما بہ من ضر واتینہ اھلہ و مثلھم ومعھم اور جو کچھ اس کو دکھ تھا ہم نے دور کردیا۔ حضرت ایوب کو حکم دیا گیا زمین پر ایڑی مارو۔ ایوب نے حکم کی تعمیل کی فوراً پانی کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔ حسب الحکم آپ نے اس میں غسل کیا غسل کرتے ہی ہر ظاہری بیماری جاتی رہی اور حسن و شباب لوٹ آیا اور چالیس قدم چلے پھر دوبارہ ایڑی مارنے کا حکم ہوا آپ نے حکم کی تعمیل کی تو ایک اور چشمہ پھوٹ نکلا جس کا پانی ٹھنڈا تھا ‘ حکم ہوا اس میں سے پانی لے کر پیو ‘ جونہی آپ نے وہ پانی پیا تمام اندرونی بیماریاں بھی دفع ہوگئیں اور مکمل ترین تندرست ‘ حسین ‘ جوان مردوں کی طرح ہوگئے اس کے بعد آپ نے لباس پہنا اور دائیں بائیں گردن موڑ کر دیکھا تو وہ تمام مال و اولاد جو پہلے ان کے پاس تھی سب موجود پائی بلکہ اللہ نے اس کو دو گنا کردیا۔ دولت کی کثرت اتنی ہوگئی کہ جس پانی سے آپ غسل کر رہے تھے اس کی چھینٹیں جب سینہ پر پڑیں تو وہ سونے کی ٹڈیاں بن گئیں اور حضرت ایوب ان کو پکڑنے کے لئے ہاتھ مارنے لگے ‘ اللہ نے وحی بھیجی ایوب کیا میں نے تجھے غنی نہیں بنا دیا ہے ‘ آپ نے عرض کیا بیشک تو نے مجھے غنی بنا دیا ‘ لیکن یہ تو تیری مزید عنایت ہے اور مزید رحمت سے کون سیر ہوسکتا ہے۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایوب برہنہ غسل کر رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں آپ کے اوپر گرنے لگیں آپ ان کو کپڑے میں بھرنے لگے ندا آئی ایوب کیا میں نے تجھ کو اس سے بےنیاز نہیں کردیا ہے (تیرے پاس تو بہت مال ہے تجھے سونے کی ٹڈیاں پکڑنے کی کیا ضرورت ہے) ایوب نے کہا تیری عظمت کی قسم تو نے مجھے غنی ضرور بنا دیا ہے لیکن تیری طرف سے نازل ہونے والی برکت سے تو میں بےنیاز نہیں ہوں۔ حسن کا بیان ہے (تندرست ہونے کے بعد) حضرت ایوب ( علیہ السلام) ایک اونچی جگہ پر جا بیٹھے ادھر بیوی نے اپنے دل میں کہا اگر ایوب نے مجھے نکال بھی دیا ہے پھر بھی میں کس کے بھروسہ پر اس کو چھوڑ سکتی ہوں یوں وہ بھوکا مرجائے گا اور اس کو درندے کھا جائیں گے ‘ یہ سوچ کر بیوی لوٹ آئی تو وہاں نہ وہ گھوڑا ملا نہ گزشتہ حالت کا نشان۔ سب چیزیں بدل گئی تھیں جہاں پہلے گھوڑا تھا بیچاری چکر کاٹنے اور رونے لگی۔ یہ سب واقعہ ایوب کی نظر کے سامنے ہو رہا تھا اور چونکہ آپ (ایک اچھا) لباس پہنے تھے اس لئے وہ بی بی آپ کے پاس آکر پوچھنے سے ڈر رہی تھی حضرت ایوب نے خود ہی اس کو بلایا اور دریافت کیا اللہ کی بندی تیرا کیا مقصد ہے بی بی رونے لگی اور کہاں یہاں گھوڑے پر ایک بیمار پڑا تھا مجھے اس کی تلاش ہے معلوم نہیں وہ مرگیا یا کیا واقعہ اس کو پیش آیا حضرت نے پوچھا وہ تیرا کون تھا بی بی نے رو کر کہا وہ میرا شوہر تھا حضرت نے کہا اگر تو اس کو دیکھ لے تو پہچان لے گی ‘ بیوی نے کہا کوئی بھی ایسا نہیں جس نے اس کو دیکھا ہو اور پہچان نہ سکے پھر ڈرتے ڈرتے وہ آپ کو تکنے لگی اور کہا جب وہ تندرست تھا تو نقشہ میں آپ کے ساتھ بہت مشابہ تھا ‘ حضرت نے فرمایا میں ہی ایوب ( علیہ السلام) ہوں جس کو تو نے ابلیس کے نام پر قربانی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن میں نے اللہ کا حکم مانا اور شیطان کا کہا نہ مانا۔ میں نے اللہ سے دعا کی اس نے مجھے وہ سب چیزیں لوٹا کر دے دیں جو تیری نظر کے سامنے ہیں۔ وہب کا بیان ہے ایوب برسوں دکھ میں رہے اور ابلیس پر غالب آئے اور شیطان ان پر بالکل قابو نہ پاسکا تو ایک گھوڑے پر سوار ہو کر حضرت ایوب کی بیوی کے راستہ میں آکھڑا ہوا ظاہری شکل آدمی کی بنائی تھی لیکن عجیب ہیبت تھی دوسرے آدمیوں سے جسم ‘ قد اور حسن کے لحاظ سے بالکل ممتاز تھا اور گھوڑے کی جسامت نظر فریبی اور اعضاء کی مکمل ساخت بھی دوسرے گھوڑوں سے اعلیٰ تھی۔ جب حضرت ایوب کی بیوی ادھر سے گزری تو شیطان نے اس سے کہا کیا تم اس دکھی ایوب کی بیوی ہو۔ بیوی نے کہاں ہاں شیطان نے کہا کیا تم مجھے پہچانتی ہو بیوی نے کہا نہیں ‘ شیطان نے کہا میں زمین کا دیوتا ہوں میں نے ہی ایوب کا یہ حال کر رکھا ہے کیونکہ اس نے مجھے چھوڑ کر آسمان کے خدا کی پوجا کی تھی اور مجھے ناراض کردیا تھا اب بھی اگر وہ مجھے ایک سجدہ بھی کرلے تو میں نے ایوب کا جو مال و اولاد لے لی ہے وہ تم دونوں کو لوٹا دوں گا وہ سب چیزیں میرے پاس موجود ہیں یہ کہہ کر شیطان نے وادی کے اندر عورت کو تمام وہ جانور دکھا دیئے جو مرچکے تھے وہب کا بیان ہے میں نے یہ بھی سنا ہے کہ ابلیس نے زوجۂ ایوب سے یہ بھی کہا کہ اگر تیرا آدمی بغیر بسم اللہ کئے کھانا کھالے گا تو اس کو تندرست کردیا جائے گا اور جس مرض میں وہ مبتلا ہے وہ دکھ دور کردیا جائے گا۔ بعض کتابوں میں آیا ہے کہ ابلیس نے عورت سے کہا تھا تو مجھے ایک سجدہ کرلے میں تیرا مال و اولاد واپس کر دوں گا اور تیرے شوہر کو بھلا چنگا بنا دوں گا عورت نے واپس آکر حضرت ایوب کو اس بات کی اطلاع دی حضرت ایوب نے فرمایا وہ دشمن خدا تیرے پاس دین سے بہکانے کے لئے آپہنچا پھر آپ نے قسم کھائی کہ اگر اللہ مجھے تندرست کر دے گا تو میں سو تازیانے تیرے ماروں گا۔ جب آپ نے دیکھا کہ ابلیس کو اب یہ خیال ہوچکا ہے کہ آپ کی بیوی اس کو سجدہ کرلے گی اور اس نے بیوی کو اور مجھ کو کفر کی دعوت دینے کی جرأت کی ہے اس وقت آپ نے دعا کی رَبِّ اِنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرَّچونکہ آپ کی بی بی رحمت نے مصیبت میں آپ کا ساتھ دیا اور صبر کیا اس لئے اللہ نے اس پر رحمت فرمائی اور اس کے لئے حکم میں تخفیف کردی اور حضرت ایوب کو قسم پوری کرنے کی یہ تدبیر بتادی کہ (سو شاخوں کا) ایک گٹھا لے کر ایکدم رحمت کے مار دو اس طرح تمہاری قسم پوری ہوجائے گی حضرت ایوب نے حکم کی تعمیل کی چھوٹی چھوٹی سو شاخوں کا ایک گٹھا بنا کر بیوی کے ایک مرتبہ مار دیا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ابلیس ایک صندوقچہ میں دوائیں بھر کر (طبیب کی ہیئت بنا کر) حضرت ایوب کی بیوی کے راستہ میں آکھڑا ہوا۔ بی بی ادھر سے گزری اور طبیب کو دیکھا تو اس سے کہا میرا ایک بیمار ہے کیا تم اس کا علاج کر دو گے۔ ابلیس نے کہا ہاں علاج کر دوں گا اور اس کے سوا اور کسی معاوضہ کا طلبگار بھی نہیں ہوگا کہ جب میں اس کو تندرست کر دوں تو اتنا کہہ دے کہ تم نے مجھے صحت مند کردیا۔ بیوی نے جا کر حضرت ایوب ( علیہ السلام) سے اس بات کا تذکرہ کیا ‘ آپ نے فرمایا وہ ابلیس ہے جس نے تجھے فریب دیا ہے ‘ میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر اللہ نے مجھے شفا عطا فرما دی تو میں تیرے سو قچمیاں ماروں گا۔ وہب وغیرہ کا بیان ہے کہ ایوب کی بیوی کچھ محنت مزدوری کر کے ایوب کے لئے کھانا لے آتی تھی جب ایوب کا دکھ اور بڑھ گیا تو لوگوں نے آپ کی بیوی کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور ایک روز تو یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ کسی نے اس کو کام پر لگایا ہی نہیں دن بھر اس نے کام کی تلاش کی مگر کوئی کام نہیں ملا مجبوراً اس نے اپنے سر کے بالوں کی ایک لٹ کاٹ کر ایک روٹی کے عوض اس کو بیچ ڈالا۔ روٹی لے کر ایوب کے پاس آئی تو آپ نے پوچھا سر کی لٹ کیا ہوئی ؟ بی بی نے واقعہ بیان کردیا اس وقت آپ نے کہا مَسَّنِیَ الضُّرُّ ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے یہ الفاظ اس وقت کہے تھے جب زخموں کے کیڑے آپ کے دل اور زبان کی طرف جانے لگے تھے ‘ آپ کو اندیشہ ہوا کہ اگر ایسا ہوگیا تو میں اللہ کے ذکر و فکر سے بھی جاؤں گا۔ حبیب بن ثابت نے کہا جب تین باتیں حضرت ایوب کے سامنے آگئیں اس وقت مجبوراً آپ نے مَسَّنِیَ الضُّرُّکہا۔ (1) حضرت ایوب کی بیماری کی اطلاع پا کر آپ کے دو دوست آئے اور دیکھا کہ آپ کی آنکھیں جاتی رہی ہیں اور عام حال بھی برا ہے ‘ کہنے لگے اگر اللہ کے ہاں تمہارا کچھ بھی مرتبہ ہوتا تو یہ دکھ تم کو نہ پہنچتا۔ (2) بیوی نے آپ کے لئے کھانا تلاش کیا لیکن قیمت موجود نہ ہونے کی وجہ سے میسر نہ آیا مجبوراً اپنا ایک گیسو کاٹ کر (فروخت کر کے اس کی قیمت سے) کھانا لے کر آئی اور آپ کو کھلایا۔ (3) ابلیس نے کہا تھا کہ میں ایوب کا علاج کروں گا شرط یہ ہے کہ شفاء پانے کے بعد وہ یہ اقرار کرلے کہ تو نے مجھے تندرست کردیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابلیس نے حضرت ایوب کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ (شاید) بیوی نے حرام زنا کیا اور گیسو کاٹ دیا اور اس وسوسہ کے پیدا ہونے پر آپ کے لئے صبر کرنا مشکل ہوگیا اور بیوی کو بلا کر بقسم کہا کہ میں تیرے سو تازیانے ماروں گا اور پھر دعا کی۔ مَسَّنِیَ الضُّرُّکا مطلب بعض علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ دشمنوں کی شماتت کا مجھے دکھ لگ گیا ہے بعض روایات میں آیا ہے کہ تندرست ہوجانے کے بعد جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ مصیبت کے زمانے میں سب سے بڑھ کر تکلیف دہ چیز آپ کے لئے کیا تھی۔ فرمایا میرے دکھ پر دشمنوں کا خوش ہونا۔ بعض اقوال میں آیا ہے کہ ایک کیڑا ران سے نیچے گرگیا آپ نے اس کو اٹھا کر پھر اس کی جگہ (ران میں) رکھ دیا اور فرمایا کیا مجھے اللہ نے تیری غذا بنایا ہے اس وقت کیڑے نے ایسا کاٹا کہ جتنے کیڑوں نے اس سے پہلے کاٹا تھا سب کی تکلیف سے اس کیڑے کے کاٹنے کی تکلیف بڑھ گئی اور آپ نے (بےساختہ) مَسَّنِیَ الضُّرُّکہا۔ ایک شبہ اللہ نے تو ایوب کو صابر کے خطاب سے سرفراز فرمایا ‘ حالانکہ اپنے دکھ کا شکوہ کیا اور بےصبری کا مظاہرہ کیا اِنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّبھی کہا اور مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنَصْبِ وَّعَذَابٍبھی فرمایا۔ ازالہ یہ شکایت نہ تھی دعا تھی کیونکہ اللہ نے اس دعا کے سلسلہ میں فرمایا فاسْتَجَبْنَا لَۂہم نے اس کی دعا قبول کی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ جزع اور بےصبری تو مخلوق سے بیماری کی شکایت کرنے کی صورت میں ہوسکتی ہے۔ اللہ سے بیماری کے اظہار کا نام جزع اور بےصبری نہیں۔ حضرت یعقوب نے فرمایا تھا اِنَّمَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِمیں اللہ سے اپنے اندرونی اندوہ وغم کا شکوہ کرتا ہوں۔ سفیان بن عیینہ کا قول ہے جو شخص فیصلۂ خداوندی پر راضی ہو اور لوگوں سے اپنے دکھ کا اظہار کرے تو یہ بےصبری اور جزع نہیں ہے (بلکہ اپنی حالت کا اظہار ہے) جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کی بیماری کے زمانہ میں جبرئیل ( علیہ السلام) آئے اور پوچھا آپ اپنے کو کیسا پاتے ہیں (یعنی آپ ﷺ : کو اپنی حالت کیسی محسوس ہوتی ہے مزاج کیسا ہے) حضور ﷺ نے فرمایا میں اپنے کو مغموم اور بےچین پاتا ہوں۔ میں کہتا ہوں ابن جوزی نے بھی حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جبرئیل ( علیہ السلام) نے آکر کہا اللہ آپ کو سلام فرماتا ہے اور دریافت فرماتا ہے آپ کا کیا حال ہے۔ الحدیث۔ جب حضرت عائشہ ؓ نے ( رسول اللہ ﷺ : کی طرف سے مزاج پرسی کے جواب میں) کہا ہائے میرا سر تو حضور ﷺ نے بھی (اپنے درد سر کی شکایت کی اور) فرمایا (تم کو ہی درد سر کی شکایت نہیں) میں بھی کہتا ہوں ہائے میرا سر ( یعنی میرے سر میں بھی درد ہے) ابن اسحاق اور امام احمد نے (حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے) بیان کیا کہ بقیع سے واپس آکر رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اس وقت آپ کے سر میں درد ہو رہا تھا اور مجھے بھی سر کا دکھ تھا (یعنی درد سر تھا) میں نے کہا ہائے سر۔ فرمایا (تم ہی نہیں) میں بھی کہتا ہوں آہ میرا سر۔ الحدیث) واتینہ اہلہ ومثلہم معہم اور ہم نے اس کو عطا کئے اس کے بیوی بچے اور اتنے ہی اور بھی۔ کیا مرے ہوئے بچے زندہ کردیئے گئے یا دوسری اولاد عطا کی گئی یہ مسئلہ اختلافی ہے حضرت ابن عباس ‘ حضرت ابن مسعود ‘ قتادہ ‘ حسن اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ اللہ نے بعینہٖ وہی (مرے ہوئے) اہل و عیال زندہ کردیئے تھے اور اتنے ہی اور بھی عطا فرما دیئے تھے۔ ظاہر آیت اسی تفسیر پر دلالت کر رہی ہے ‘ حسن کا قول ہے کہ اتنے ہی مویشی اور اولاد اسی مویشی اور اولاد کی نسل سے پیدا کردیئے (جن کو مرنے کے بعد اللہ نے زندہ کیا تھا) اس مطلب کی تائید حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول سے ہوتی ہے جو بروایت ضحاک آیا ہے کہ اللہ نے اس بیوی کو دوبارہ جوان کردیا اور اس کے بطن سے اس کے بعد چھبیس لڑکے پیدا ہوئے۔ وہب نے کہا سات لڑکیاں اور تین لڑکے پیدا ہوئے ابن یسار نے کہا حضرت ایوب کے سات لڑکے اور سات لڑکیاں ہوئیں۔ حضرت انس ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ حضرت ایوب کے دو خرمن تھے ایک گیہوں کا دوسرا جو کا۔ اللہ نے دو بدلیاں بھیجیں ایک بدلی نے ایک خرمن پر سونے کی بارش کی اور دوسری بدلی نے دوسرے خرمن پر چاندی بہا دی۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ حضرت ایوب کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا اللہ نے آپ کو آپ کے صبر کی وجہ سے سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ اپنے خرمن کو باہر نکل کر دیکھو حسب الحکم آپ باہر نکلے اللہ نے آپ کے خرمن پر سونے کی ٹڈیاں بھیج دیں ‘ ایک ٹڈی جو اڑی تو ایوب نے اس کا پیچھا کیا اور پکڑ کر واپس لے آئے ‘ فرشتے نے کہا جو کچھ (ٹڈیاں) خرمن کے اندر ہیں کیا وہ آپ کے لئے کافی نہیں تھیں ‘ حضرت ایوب نے کہا یہ تو میرے رب کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے اور میں اپنے رب کی نوازشوں سے سیر نہیں ہوسکتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو مویشی اور اہل و عیال مرچکے تھے اللہ نے ان کو دوبارہ زندہ نہیں کیا بلکہ ان جیسے دوسرے عطا فرما دیئے۔ عکرمہ کا قول ہے کہ حضرت ایوب سے کہا گیا کہ تیری اولاد آخرت میں تجھے ملے گی اب اگر تو چاہتا ہے تو ہم اس دنیا میں تیرے پاس بھیج دیں اور اگر تیری خواہش ہو تو وہ اولاد آخرت میں تیرے لئے رکھ دیں اور ان کی مثل ویسی ہی اولاد تجھے دنیا میں دے دیں۔ حضرت ایوب نے آخری شق کو پسند کیا کہ مرنے والی اولاد تو آخرت میں عطا کردی جائے اور ان کی مثل دوسری اولاد دنیا میں مل جائے۔ اس روایت کے بموجب آیت کا مطلب اس طرح ہوگا۔ ہم نے ایوب کوا سکی (مر جانے والی) اولاد تو آخرت میں عطا کرنے کے لئے رکھ لی اور انہی کی طرح دوسری اولاد دنیا میں مرحمت فرما دی۔ آیت میں اہل سے مراد ہے اولاد۔ رحمۃ من عندنا وذکری للعبدین۔ (ہم نے ایوب کو اس کی اولاد عطا کی) اپنی رحمت کی وجہ سے اور (دوسرے) عبادت گزاروں کو نصیحت کرنے کے لئے۔
Top