Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 95
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
وَحَرٰمٌ : اور حرام عَلٰي قَرْيَةٍ : بستی پر اَهْلَكْنٰهَآ : جسے ہم نے ہلاک کردیا اَنَّهُمْ : کہ وہ لَا يَرْجِعُوْنَ : لوٹ کر نہیں آئیں گے
اور جس بستی (والوں) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ (وہ دنیا کی طرف رجوع کریں) وہ رجوع نہیں کریں گے
و حرام علی قریۃ اھلکنھا انھم لا یرجعون حرام ہے یعنی ناممکن ہے تصور میں بھی نہیں لایا جاسکتا۔ اَہْلَکْنٰہَا یعنی جس کو ہلاک کرنے کا ہم نے حکم دے دیا ‘ جس کو تباہ کردیا ہلاکت سے مراد ہے کفر یعنی جس بستی کو ہم نے کافر پایا اس کی نیکیوں کو اکارت نہ جانا ناممکن ہے ہم اس کے نیک اعمال کو ضرور ضائع کردیں گے یا حرام کا یہ مطلب ہے کہ اس بستی کا توبہ کرنا ناممکن ہے یا دنیا میں دوبارہ زندہ ہونا ناممکن ہے یا سزا کے لئے ان کا قیامت کے دن زندہ کر کے نہ اٹھایا جانا ناممکن ہے۔ اس مطلب پر اَنَّہُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ کلام سابق کی علت ہوگی یعنی یہ غیر ممکن ہونا اس لئے ہے کہ ان کا توبہ کرنا اور ہماری طرف رجوع کرنا اور گزشتہ کفر کی ایمان لا کر تلافی کرنا ہو نہیں سکتا۔ یا حرام خبر مقدم ہے اور اَنَّہُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ مبتدا مؤخر ‘ مطلب یہ ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا اس بستی کا لوٹ کر مقام حساب اور مکان سزا تک نہ پہنچنا ناممکن ہے۔ حضرت ابن عباس نے تشریحی مطلب اس طرح بیان فرمایا کہ جس بستی کو ہم نے تباہ کردیا اس کا دنیا میں واپس لوٹنا ممکن نہیں اس مطلب پر لاَیَرْجِعُوْنَمیں لا زائد ہوگا۔ بہرصورت مطلب کچھ بھی ہو آیت میں کافروں کے لئے وعید عذاب اور اہل ایمان کے لئے وعدۂ ثواب ہے۔
Top