Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 97
وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِیَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ یٰوَیْلَنَا قَدْ كُنَّا فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
وَاقْتَرَبَ : اور قریب آجائے گا الْوَعْدُ : وعدہ الْحَقُّ : سچا فَاِذَا : تو اچانک هِىَ : وہ شَاخِصَةٌ : اوپر لگی (پھٹی) رہ جائیں گی اَبْصَارُ : آنکھیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) يٰوَيْلَنَا : ہائے ہماری شامت قَدْ كُنَّا : تحقیق ہم تھے فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مِّنْ ھٰذَا : اس سے بَلْ كُنَّا : بلکہ ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور (قیامت کا) سچا وعدہ قریب آجائے تو ناگاہ کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں (اور کہنے لگیں کہ) ہائے شامت ہم اس (حال) سے غفلت میں رہے بلکہ (اپنے حق میں) ظالم تھے
واقترب الوعد الحق اور سچا وعدہ قریب ہوجائے گا۔ یعنی روز قیامت واو عاطفہ ہے اور اس کا عطف فتحت پر ہے۔ لیکن فراء اور علماء کی ایک جماعت ہے واو کو زائد کہا ہے اور اِقْتَرَبَکو شرط کی جزا قرار دیا ہے۔ یعنی جب یاجوج وماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے نکل پڑیں گے اور پھیل جائیں گے تو اس وقت قیامت قریب آجائے گی ایک اور آیت میں واؤ زائد آیا ہے اور مابعد واؤ جزاء شرط ہے فرمایا ہے فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیِنَْ وَنَادَیْنَاہُپھر جب دونوں نے مان لیا اور ابراہیم ( علیہ السلام) نے اسماعیل کو پیشانی کے بل الٹا دیا تو ہم نے اس کو پکارا۔ اس مطلب کے ثبوت کے لئے حضرت حذیفہ کی حدیث کو پیش کیا ہے کہ حضور نے فرمایا اگر کسی آدمی نے بچھیرا پالا ہوگا۔ خروج یاجوج وماجوج کے بعد تو بچھیرا سواری کے قابل نہ ہوگا کہ قیامت بپا ہوجائے گی۔ علاء نے اس قول کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ واؤ زائد ہو اور مابعد واؤ جزا ہو ایسا نہیں ہوتا۔ فاذا ہی شاخصۃ ابصار الذین کفروا تو اس وقت اچانک کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ شخص بصرہ اس کی آنکھ کھل گئی یا اس نے اپنی آنکھ کھول دی۔ ابصار سے مراد ہیں پپوٹے پلکیں اور اذا مفاجاتیہ (بمعنی اچانک ‘ ناگہاں ‘ یکدم) ہے یعنی ہولناکی کی وجہ سے کافر نظر گھما نہ سکیں گے۔ حیران ہو کر رہ جائیں گے۔ یویلنا قد کنا فی غفلۃ من ہذا بل کنا ظلمین۔ (کہیں گے) ہائے ہماری تباہی ہم اس (دن کی طرف) سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے بلکہ ہم (خود ہی) اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ یعنی اس دن کو حق نہیں جانتے تھے۔ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَیعنی ہم اپنے نفسوں پر خود ظلم کرنے والے تھے ہم نے خود اپنے غور و فکر کو بگاڑ رکھا تھا یا ناقابل معبودیت کو معبود بنا رکھا تھا (ظلم کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو بےمحل رکھنا اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنا عبادت کا بےمحل استعمال ہے اسی لئے اس کو ظلم قرار دیا۔ مترجم) ۔
Top