Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 16
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو نازل کیا اٰيٰتٍ : آیتیں بَيِّنٰتٍ : روشن وَّ : اور اَنَّ : یہ کہ اللّٰهَ : اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يُّرِيْدُ : وہ چاہتا ہے
اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو اُتارا ہے (جس کی تمام) باتیں کھلی ہوئی (ہیں) اور یہ (یاد رکھو) کہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایات دیتا ہے
وکذلک انزلنہ ایت بینت و ان اللہ یہدی من یرید۔ اور ہم نے اس (قرآن) کو اسی طرح اتارا ہے جس میں کھلی کھلی دلیلیں (حق کی) ہیں اور یہ بات بھی ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے ‘ حق کی ہدایت کرتا ہے۔ کَذٰلِکَیعنی جس طرح ہم نے وہ آیات نازل کیں جن سے امکان حشر توحید صداقت رسول اور نصرت رسول کے وعدے کی سچائی ثابت ہو رہی ہے اسی طرح ہم نے ایسی آیات نازل کی ہیں جن کے اندر رسول اللہ ﷺ : کی نبوت اور قرآن کی صداقت کا واضح بیان ہے۔ لفظ آیات بینات سے ایک شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ قرآن کی کچھ آیات محکمات ہیں جن کی مراد کھلی ہوئی ہے اور کچھ متشابہات ہیں جن کی مراد واضح نہیں اور اس جگہ تمام آیات کو بینات (واضحات) کہا گیا یہ بیان کا تضاد ہے لیکن بینات کی جو تفسیر ہم نے کی ہے اس سے یہ شبہ زائل ہوجاتا ہے کیونکہ متشابہات کی مراد گرچہ مخفی ہوتی ہے مگر ان کا معجزہ ہونا اور صداقت رسول پر دلالت کرنا تو واضح ہوتا ہے۔ وَاَنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْاس جملہ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو بصورت آیات بینات نازل کیا اور یہ بھی نازل کیا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت یاب کرتا ہے۔ (اس صورت میں اَنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ کا اَنْزَلْنٰہُپر عطف ہوگا اور مفعول ہونے کی وجہ سے جملہ محل نصب میں ہوگا) دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے یہ قرآن مصالح عباد کے لئے نازل کیا اور اس لئے نازل کیا کہ اس کے ذریعہ سے اللہ جس کو چاہے ہدایت کر دے یا ہدایت پر قائم رکھے (اس صورت میں اس جملہ کا عطف محذوف لفظ پر ہوگا اور حرف جر محذوف ہوگا اور جملہ محل جر میں ہوگا) ۔
Top