Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 19
هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ١٘ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ١ؕ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ
ھٰذٰنِ : یہ دو خَصْمٰنِ : دو فریق اخْتَصَمُوْا : وہ جھگرے فِيْ رَبِّهِمْ : اپنے رب (کے بارے) میں فَالَّذِيْنَ : پس وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا قُطِّعَتْ : قطع کیے گئے لَهُمْ : ان کے لیے ثِيَابٌ : کپڑے مِّنْ نَّارٍ : آگ کے يُصَبُّ : ڈالا جائے گا مِنْ فَوْقِ : اوپر رُءُوْسِهِمُ : ان کے سر (جمع) الْحَمِيْمُ : کھولتا ہوا پانی
یہ دو (فریق) ایک دوسرے کے دشمن اپنے پروردگار (کے بارے) میں جھگڑتے ہیں۔ تو کافر ہیں ان کے لئے آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے (اور) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی ڈالا جائے گا
ہذن خصمن اختمصوا فی ربہم یہ دونوں (مذکورۂ بالا) دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب کے (دین کے) بارے میں اختلاف کیا۔ ہٰذٰنِیعنی یہ دو فریق ہیں ایک فریق مؤمنوں کا دوسرا فریق مذکورۂ بالا پانچوں اقسام کے غیر مسلموں کا ان کا باہم جھگڑا ہے اس بات میں کہ اللہ کا دین کونسا ہے یا اللہ کی ذات وصفات اور احکام کے سلسلہ میں ان کا اختلاف ہے شیخین نے صحیحین میں حضرت ابوذر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ آیت ہٰذٰنِ خَصْمٰنِٰ اخْتَصَمُوْا فِی رَبِّہِمْکا نزول حضرت حمزہ ‘ حضرت عبیدہ ‘ حضرت علی ؓ اور شبیہ اور ولید بن عتبہ کے متعلق ہوا اوّل تینوں حضرات مؤمن تھے اور مؤخر الذکر تینوں اشخاص کافر۔ اس شان نزول کی بنا پر فریق عام مؤمنوں کا نہ ہوگا اور نہ فریق دوئم اقسام مندرجہ آیت کافروں کا۔ بلکہ شان نزول خاص ہے۔ مترجم) بخاری اور حاکم نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا یہ آیت ہمارے متعلق اور بدر کے دن کافروں سے ہمارے مقابلے کے سلسلہ میں نازل ہوئی۔ حاکم نے دوسری سند سے حضرت علی ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جو جنگ بدر کے دن باہم مقابل تھے (ایک طرف علی ؓ ‘ حمزہ ؓ ‘ عبیدہ ؓ تھے (دوسری طرف) شیبہ بن ربیعہ ‘ عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ تھے۔ بغوی نے قیس بن عباد کی وساطت سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا قیامت کے دن (کافروں سے) جھگڑا کرنے کے لئے سب سے پہلے میں ہی رحمت (الٰہی) کے سامنے دو زانو بیٹھوں گا۔ قیس نے کہا انہی لوگوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی جن لوگوں نے بدر کے دن باہم مقابلہ کیا تھا۔ علی حمزہ ‘ عبیدہ ‘ شیبہ بن ربیعہ ‘ عتبہ بن ربیعہ ‘ ولید بن عتبہ انہی کے سلسلہ میں اس آیت کا نزول ہوا۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے بدر کے دن (میدان میں) عتبہ بن ربیعہ ‘ شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ نکل کر آئے اور صف تک پہنچ کر انہوں نے اپنے حریفوں کو میدان میں نکل کر آنے کی دعوت دی ان کے مقابلہ میں عبداللہ بن رواحہ اور تین انصاری جوان عوف ‘ معاذ اور معوذ نکل کر سامنے آئے موخر الذکر تینوں جوان حارث کے بیٹے تھے اور ان کی ماں کا نام عفراء تھا۔ فریق اوّل نے پوچھا تم کون لوگ ہو فریق دویم نے کہا ہم انصاری ہیں اور نسب میں تمہارے ہمسر اور شرفاء ہیں ‘ فریق اوّل کے منادی نے پکارا محمد ﷺ ہمارے مقابلے کے لئے ہمارے ہمسروں کو بھیجو جو ہماری قوم میں سے ہوں (یعنی قریشی ہوں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عبیدہ بن حارث اٹھو حمزہ بن عبدالمطلب اٹھو ‘ علی بن ابی طالب اٹھو (یعنی تم تینوں میدان میں جاؤ) حسب الحکم تینوں حضرات نکل کر میدان میں پہنچے۔ فریق اوّل نے پوچھا تم کون لوگ ہو ‘ فریق دوئم نے اپنے نام بتائے۔ فریق اوّل نے کہا ہاں تم ہمسر اور شرفاء ہو۔ عبیدہ سب سے زیادہ عمر رسیدہ تھے انہوں نے عتبہ کو للکارا اور حمزہ شیبہ کے مقابلہ پر نکلے اور علی ولید بن عتبہ کے مقابلہ میں پہنچے ‘ حمزہ نے تو دم ہی نہیں لینے دیا۔ فوراً ہی شیبہ کو قتل کردیا اور علی نے ولید کا کام تمام کردیا۔ البتہ عبیدہ اور عتبہ کے درمیان چوٹیں رہیں دونوں جمے رہے یہ دیکھ کر حمزہ اور علی اپنی تلواریں لے کر عتبہ پر ٹوٹ پڑے اور قتل کردیا اور عبیدہ کو اٹھا کر اپنے ساتھیوں کے پاس لے آئے ‘ حضرت عبیدہ کی ٹانگ کٹ گئی تھی اور ٹانگ کی مینگ بہ رہی تھی۔ جب یہ حضرات حضرت عبیدہ کو لے کر خدمت گرامی میں پہنچے تو عبیدہ نے کہا کیا میں شہید نہیں ہوں گا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں۔ عبیدہ نے کہا اگر ابو طالب زندہ ہوتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ ان کے ان شعروں کا میں ہی زیادہ مستحق ہوں۔ ابو طالب نے کہا تھا ؂ کَذَبتم وبیت اللّٰہ یُبْزٰی محمّدٌ وَلَمَّا لظاعن دونْہٗ ونُناصِل وَنَسْلِمُہ حَتّٰی نُصرّع حَولہٗ وَنذہل عَنْ ابناء نا والحلاءِلٰ کعبہ کی قسم تم جھوٹے ہو کہ محمد کی طرف سے جب تک ہم پورے طور پر نیزہ بازی اور تیز اندازی نہ کرلیں گے محمد کو تم مغلوب نہ کرسکو گے ہم اس وقت تک ان کو (تمہارے) سپرد نہیں کرسکتے جب تک اپنے اہل و عیال کی طرف سے بےپرواہ ہو کر ان کے گرد ہماری لاشیں نہ پڑی ہوں۔ ابن جریر نے بروایت عوفی حضرت ابن عباس ؓ : کا قول اور ابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کے اور اہل کتاب کے متعلق نازل ہوئی اہل کتاب نے کہا تھا ہم تمہارے مقابلے میں اللہ سے زیادہ قرب رکھتے ہیں ہماری کتاب تمہاری کتاب سے اور ہمارا نبی تمہارے نبی سے مقدم ہے مسلمانوں نے کہا ہم قرب الٰہی کے زیادہ مستحق ہیں نبی محمد ﷺ پر اور تمہارے نبی پر اور اللہ کی نازل کی ہوئی ہر کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور تم ہمارے نبی کو بھی پہچانتے ہو اور ہماری کتاب کو بھی اور محض حسد کی وجہ سے انکار کرتے ہو۔ فریقین کا اللہ کے معاملہ میں یہی جھگڑا تھا۔ مجاہد اور عطا بن رباح نے کہا ہٰذٰان خصمن سے تمام مسلمان مراد ہیں (یہ دو فریق ہیں) ۔ بعض علماء نے کہا آیت اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا۔۔ میں چھ مذاہب کا تذکرہ کیا گیا ہے ایک مذہب والوں کو جنتی اور پانچ مذاہب والوں کو دوزخی قرار دیا گیا ہے یہی دو فریق ہیں ایک مؤمنوں کا اور دوسرا باقی پانچ مذاہب والوں کا (ایمان و اسلام ایک دین ہے اور) کفر (کسی قسم کا ہو) ایک ملت ہے۔ مؤخر الذکر دونوں تفسیری قولوں میں عموم الفاظ کا لحاظ کیا گیا ہے ‘ شان نزول کی خصوصیت کا اعتبار نہیں کیا گیا اور (تفسیری لحاظ سے) یہ بات ہے بھی صحیح۔ عموم الفاظ کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ خصوصیت قصہ کے اندر حکم کو محصور نہیں کیا جاتا۔ عکرمہ نے کہا باہم جھگڑا کرنے والی دو چیزیں جنت اور دوزخ ہیں شیخین نے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت اور دوزخ کا باہم جھگڑا ہوا دوزخ نے کہا (میں اعلیٰ ہوں) مجھے تکبر کرنے والوں اور مغروروں کے لئے پسند کیا گیا ہے ‘ جنت نے کہا میری کیا حالت ہے میرے اندر تو سوائے کمزوروں ‘ گرے پڑے لوگوں اور مسکینوں کے اور کوئی بھی داخل نہیں ہوگا۔ اللہ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے میں اپنے جس بندے پر چاہوں گا تیرے ذریعہ سے رحم کروں گا (یعنی میرے رحم کی مجسم شکل تو ہے میں جس پر رحم کرنا چاہوں گا اس کو اپنی رحمت یعنی جنت عطا کردوں گا) اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے تیرے ذریعہ سے میں جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا تم دونوں میں سے ہر ایک کو ضرور بھرا جائے گا دوزخ تو اس وقت تک نہ بھرے گی جب اللہ اس میں اپنا قدم نہ رکھ دے گا۔ جب اللہ اس کے اندر اپنا قدم رکھ دے گا تو دوزخ بھر جائے گی اور کہے گی بس بس اور (اس کے اجزاء) باہم سمٹ جائیں گے۔ اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا (کہ دوزخ کو بھرنے کے لئے بےقصور لوگوں کو بھی اس میں ڈال دے) اور جنت (کو بھرنے) کے لئے اللہ دوسری مخلوق پیدا کر دے گا۔ فالذین کفروا قطعت لہم ثیاب من نار سو جو لوگ کافر تھے ان (کے پہننے) کے لئے (قیامت کے دن) آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے۔ یعنی کافروں کے جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے آگ کے کپڑے باندازۂ جثہ و درجہ دیئے جائیں گے اللہ نے فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ جس فیصلہ کا اس آیت میں اظہار کیا گیا ہے وہ یہی فیصلہ ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا پگھلائے ہوئے تانبے کے کپڑے ہوں گے کوئی دھات بھی ایسی نہیں کہ تپانے کے بعد اس لباس سے زیادہ گرم ہو چونکہ لباس کی طرح پگھلا ہوا تانبا کافروں کے جسم کو محیط ہوگا اس لئے اس کو لباس قرار دیا۔ بعض علماء نے کہا دوزخیوں کو آتش پارے (بطور لباس) پہنائے جائیں گے امام احمد نے عمدہ سند کے ساتھ حضرت جویریہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے دنیا میں ریشم پہنا قیامت کے دن اللہ اس کو آگ کا لباس پہنائے گا۔ بزار ‘ ابن ابی حاتم اور بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت انس ؓ : کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے آگ کا جوڑا (پورا لباس) ابلیس کو پہنایا جائے گا وہ اس کو اپنی دونوں بھوؤں پر رکھے گا پھر اس کو گھسیٹتا جائے گا اور ابلیس کے پیچھے اس کی ذریات آگ کا لباس کھینچتی چلے گی ابلیس بھی ہلاکت کو پکارے گا اور اس کی ذریات بھی آخر دوزخ پر جا کر یہ سب کھڑے ہوں گے اس وقت ان سے کہا جائے گا ایک ہلاکت کو نہ پکارو بلکہ کثیر ہلاکتوں کو پکارو۔ ابونعیم نے وہب بن منبہ کا قول نقل کیا ہے کہ دوزخیوں کو لباس پہنایا جائے گا (لیکن اس لباس سے تو) ان کا ننگا رہنا اچھا ہوگا اور ان کو زندگی دی جائے گی (لیکن اس زندگی سے تو) موت ان کے لئے بہتر ہوگی۔ حضرت ابومالک اشعری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نوحہ کرنے والی نے اگر اپنے مرنے سے پہلے توبہ نہ کرلی ہوگی تو قیامت کے دن اس کا حشر اس حالت میں ہوگا کہ قطران (صنوبر وغیرہ کا روغنی سیال) کا کرتہ اور جرب (تلوار کا زنگ) کی قمیص اس کے بدن پر ہوگی۔ ابن ماجہ کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے۔ نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کرے گی تو (قیامت کے دن) اس کے کپڑے قطران کے ہوں گے اور کرتہ آگ کے شعلوں کا تراشا (یعنی بدن کے مطابق بنایا) جائے گا۔ یصب من فوق روسہم الحمیم۔ ان کے سروں کے اوپر انتہائی گرم پانی ڈالاجائے گا۔ حمیم انتہائی گرم پانی۔
Top