Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 24
وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ١ۖۚ وَ هُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ
وَهُدُوْٓا : اور انہیں ہدایت کی گئی اِلَى : طرف الطَّيِّبِ : پاکیزہ مِنَ : سے۔ کی الْقَوْلِ : بات وَهُدُوْٓا : اور انہیں ہدایت کی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطِ : راہ الْحَمِيْدِ : تعریفوں کا لائق
اور ان کو پاکیزہ کلام کی ہدایت کی گئی اور (خدائے) حمید کی راہ بتائی گئی
وہدوا الی الطیب من القول وہدوا الی صراط الحمید۔ اور (جنت میں یہ نعمتیں اس لئے ملیں گی کہ دنیا میں) ان کو کلمۂ طیب (پر ایمان کی) ہدایت ہوگئی تھی اور اس (خدا) کے راستہ پر چلنے کی توفیق مل گئی تھی جو مستحق حمد ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا طیب قول سے مراد ہے لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِکی شہادت۔ جس کی ہدایت ان کو دنیا میں مل گئی تھی۔ سدی نے کہا پاکیزہ قول سے مراد ہے قرآن مجید۔ بعض علماء کا قول ہے کہ آیت میں ماضی بمعنی مستقبل ہے یعنی جنت کے اندر ان کو پاکیزہ کلام کی ہدایت ملے گی مطلب یہ کہ وہ جنت میں پہنچ کر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ ۔۔ پڑھیں گے۔ صِرَاطِ الْحَمِیْدِسے مراد ہے اللہ کا راستہ یعنی اسلام اور حمید سے مراد اللہ کی ذات ہے جو فی نفسہ مستحق ستائش ہے یا صراط الحمید سے راہ جنت مراد ہے یعنی آخرت میں ان کو جنت کے راستہ پر چلنے کی توفیق دی جائے گی۔
Top