Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ
وَاَذِّنْ : اور اعلان کردو فِي النَّاسِ : لوگوں میں بِالْحَجِّ : حج کا يَاْتُوْكَ : وہ تیرے پاس آئیں رِجَالًا : پیدل وَّعَلٰي : اور پر كُلِّ ضَامِرٍ : ہر دبلی اونٹنی يَّاْتِيْنَ : وہ آتی ہیں مِنْ : سے كُلِّ فَجٍّ : ہر راستہ عَمِيْقٍ : دور دراز
اور لوگوں میں حج کے لئے ندا کر دو کہ تمہاری پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور دراز رستوں سے چلے آتے ہو (سوار ہو کر) چلے آئیں
واذن فی الناس بالحج اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو ۔ بغوی نے لکھا ہے ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو جب اعلانِ حج کا حکم دیا گیا تو آپ نے عرض کیا میری آواز کیسے پہنچے گی ‘ اللہ نے فرمایا تمہارا کام اعلان کرنا اور پکارنا ہے اور پہنچانا میرا ذمہ ہے۔ حضرت ابراہیم مقام ابراہیم پر کھڑے ہوئے فوراً وہ مقام اٹھ کر بلند ترین پہاڑ کے برابر ہوگیا ‘ حضرت ابراہیم نے اپنی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں رکھ کر چہرے کو دائیں بائیں اور مشرق کی طرف گھماتے ہوئے کہا لوگو ! تمہارے رب نے ایک مکان بنایا ہے اور تم پر اس کا حج کرنا فرض کردیا ہے ‘ اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو (قیامت تک جو حج کرنے والے ہیں) سب نے باپوں کی پشت اور ماؤں کے پیٹوں کے اندر سے لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَکہا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا سب سے پہلے لبیک کہنے والے اہل یمن تھے ‘ اسی لئے یمنی لوگ سب سے زیادہ حج کرتے ہیں۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے کوہ بوقبس پر چڑھ کر ندا دی تھی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اس آیت میں الناس سے مراد اہل قبلہ ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے حسن کا خیال ہے کہ اَذِّنْ فِی النَّاس بالْحَجِّ علیحدہ کلام ہے (حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اس میں مخاطب نہیں ہیں بلکہ) اس میں رسول اللہ ﷺ : کو خطاب کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ حجۃ الوداع میں لوگوں کو حج کے لئے بلائیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ : کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خطبہ دیا اور فرمایا ‘ لوگو تم پر حج فرض کردیا گیا ہے حج کرو۔ رواہ مسلم۔ احمد اور نسائی اور دارمی نے یہ حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کی ہے۔ یاتوک رجالا (ندا کرو گے تو) لوگ پیدل چل کر حج کو آئیں گے۔ یہ آئندہ واقعہ کا بیان ہے اس سے ان لوگوں پر حج کی فرضیت ثابت نہیں ہوتی جن کو سواری میسر نہیں ہے۔ داؤد ظاہری وغیرہ اپنے قول پر اس سے استدلال نہیں کرسکتے۔ داؤد ظاہری اور مالکیوں کے نزدیک اس شخص پر بھی حج فرض ہے جس کو سواری نہ مل سکے۔ سورة آل عمران کی آیت وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً کی تفسیر کے ذیل میں سواری اور زاد راہ کی تفصیل ہم نے کردی ہے۔ مسئلہ جو شخص پیدل چل سکتا ہو اس کیلئے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزیک پیدل چل کر حج کرنا افضل ہے کیونکہ پیدل چل کر آنے کا ذکر سوار ہو کر آنے سے پہلے کیا پھر پیدل چل کر آنے میں جسمانی دکھ بھی زیادہ اٹھانا پڑتا ہے اور خضوع و عجز کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی نے پیدل چل کر حج کرنے کی منت مانی ہو تو رسول اللہ ﷺ نے پیدل حج کرنا اس پر واجب قرار دیا ہے اور اگر پیدل حج نہ کرسکے تو قربانی کو واجب قرار دیا ہے ‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیدل حج (اصل) طاعت ہے اور وہ طاعت کا ادنیٰ درجہ استحباب اور افضلیت ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ حج کے لئے سوار ہو کر آنا افضل ہے کیونکہ پیدل آنے میں بہت سی عبادتوں میں خلل پیداہو جائے گا اور اسلام میں رہبانیت کا جواز نہیں۔ وعلی کل ضامر اور ہر مشاق سفر اونٹنی پر سوار ہو کر۔ ضامر دبلا ‘ لاغر جو کثرت سفر کی وجہ سے دبلا ہوگیا ہو مراد مشاق سفر۔ ابن جریر نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ حاجی سوار نہیں ہوتے تھے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور زاد راہ ساتھ لینے کا حکم دے دیا اور سوار ہو کر آنے اور سفر حج میں تجارت کرنے کی اجازت دے دی۔ یاتین من کل فج عمیق جو دور دراز راستوں سے پہنچیں گی۔ ضامر کا لفظ اگرچہ مذکر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے مؤنث ہے لفظ کل کی اس کی طرف اضافت کی گئی ہے اس لئے یاتینبصیغۂ مؤنث ذکر کیا۔
Top