Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 192
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ
: پھر
لْيَقْضُوْا
: چاہیے کہ دور کریں
تَفَثَهُمْ
: اپنا میل کچیل
وَلْيُوْفُوْا
: اور پوری کریں
نُذُوْرَهُمْ
: اپنی نذریں
وَلْيَطَّوَّفُوْا
: اور طواف کریں
بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ
: قدیم گھر
پھر چاہیئے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہٴ قدیم (یعنی بیت الله) کا طواف کریں
ثم لیقضوا تفثہم پھر وہ اپنے میل کچیل کو دور کریں یعنی سر منڈوائیں۔ لبیں کتریں ‘ ناخن کاٹیں ‘ زیر ناف اور بغلوں کی صفائی کریں مطلب یہ کہ طواف زیارت سے پہلے احرام کھول کر یہ سب کام کرسکتے ہیں اور سر منڈوانے کے بعد سوائے عورتوں کی قربت کے مذکورۂ بالا ممنوعات حلال ہوجاتے ہیں ‘ عورت سے قربت کی حلت طواف کے بعد ہوتی ہے کذا قال المفسرون۔ قضاء کا لغوی معنی ہے ادا کرنا اور کوئی کام کردینا قَضٰی دَیَّنَہٗاس سے اپنا قرض چکا دیا۔ وَاِذَا قَضَیْتُمْ مَنَاسِکَکُمْاور جب تم اپنے مناسک ادا کر چکو۔ قَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍکر دیا ان کو سات آسمان۔ کسی کام کو کر چکنے کے بعد اس سے فراغت ہوجاتی ہے اس لئے قضاء کے بعد فارغ ہوجانا لازم ہے۔ اللہ نے فرمایا ایما الاجلین قضیتدونوں مدتوں میں جو مدت پوری کر چکوں میل کچیل دور کرنے کا بعد بھی فراغت ہوجاتی ہے اس لئے لْیَقْضُوْا فرمایا قضا تفث تمام مناسک حج (کی ادائیگی) ہے۔ مجاہد نے کہا تفث سے مراد ہیں مناسکِ حج۔ لبیں کترنا۔ زیر ناف اور بغلوں کو صاف کرنا ‘ ناخن تراشنا ‘ بعض اہل علم نے کہا تفث رمی جمار (کنکریاں مارنا) ہے ان اقوال پر مطلب یہ ہوگا کہ جب تم یہ افعال کر چکو۔ زجاج نے کہا تفث کا لفظ ہم کو قرآن سے ہی معلوم ہوا ‘ یعنی یہ لفظ کلام عرب میں زیادہ مستعمل نہیں ہے۔ قرآن کی اس آیت سے پہلے ہم کو معلوم نہ تھا۔ لفظ ثم سے معلوم ہوتا ہے کہ حلق اور طواف قربانی کے بعد کیا جائے۔ یہ دلیل ہے امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کے صحیح ہونے کی کہ رمی جمار اور صاحب قرآن کی قربانی اور حلق راس میں ترتیب واجب ہے سعید بن جبیر قتادہ ‘ حسن اور نخعی کا بھی یہی قول ہے ‘ اس لئے اگر کوئی شخص ترتیب کو قصداً چھوڑ دے یا غلطی سے۔ بہرحال اس پر (اس جرم کے عوض) قربانی واجب ہوجائے گی۔ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ہے کہ مناسک کی ترتیب میں جو شخص تقدیم و تاخیر کرے اس کو قربانی کرنی چاہئے۔ یہ روایت ابن ابی شیبہ نے موقوفاً بیان کی ہے اور ایسے موقع پر حدیث موقوف بھی مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے کیونکہ کسی جرم کا کفارہ ایسے طور پر ادا کرنا جو از روئے عقل جرم سے مشابہت نہ رکھتا ہو (یعنی قضاء بمثل غیر معقول) رائے سے معلوم نہیں ہوتا۔ (یقیناً حضرت ابن عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایسا سنا ہوگا) ۔ ایک شبہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن مہاجر ہے جس کو ابو حاتم نے منکر الحدیث کہا ہے اور ابن المدینی و نسائی کے نزدیک یہ شخص قوی نہیں ہے ابن عدی کا قول ہے کہ اس شخص کی حدیث کو ضعفاء میں شمار کیا جائے۔ شبہ کا ازالہ ابراہیم بن مہاجر جلیل القدر تابعی تھا ‘ مسلم نے اس کا متابع ذکر کیا ہے سفیان (بن عیینہ) احمد اور ترمذی نے اس کو لاباس بہ (اس میں کوئی خرابی نہیں) کے زمرہ میں شامل کیا ہے پھر یہ حدیث صرف اسی راوی کی روایت پر منحصر نہیں ہے طحاوی نے دوسری سند سے بھی جس میں ابراہیم شامل نہیں ہے۔ یہ حدیث نقل کی ہے۔ طحاوی نے لکھا ہے حدثنا وہب عن ایوب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس۔ اس کے بعد حدیث مذکور نقل کی ہے۔ امام احمد کے نزدیک صرف قصداً ترتیب کو ترک کرنے سے قربانی واجب ہے بھول کر ناواقفیت کی وجہ سے ترتیب کے خلاف ہوگیا تو قربانی واجب نہیں۔ امام احمد کا یہ قول اثرم نے بھی نقل کیا ہے بخاری کے کلام سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بھی فتویٰ کے لئے یہی قول پسندیدہ ہے۔ امام شافعی (رح) اور بہت سے علماء سلف کے نزدیک ترتیب سنت ہے واجب نہیں ہے۔ امام مالک (رح) کے نزدیک قربانی اور رمی جمار سے حلق الراس کو مقدم کرنا جائز ہی نہیں ہے امام شافعی (رح) : کا بھی ایک قول اسی طرح کا ایک روایت میں آیا ہے۔ امام شافعی (رح) نے اپنے مسلک کے ثبوت میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت پیش کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے قربانی اور رمی جمار اور حلق راس کی تقدیم و تاخیر کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضور ﷺ نے (سب کے جواب میں) فرمایا کوئی ہرج نہیں ہے۔ متفق علیہ۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ منیٰ میں قربانی کے دن حضور ﷺ سے سوال کئے جا رہے تھے (جن کے جواب میں) حضور ﷺ : فرما رہے تھے کوئی ہرج نہیں۔ ایک شخص نے سوال کیا میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوایا۔ فرمایا (اب) قربانی کرلے کوئی ہرج نہیں۔ بخاری کی ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص خدمت گرامی میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے رمی سے پہلے زیارت کرلی (یعنی طواف زیارت کرلیا) فرمایا کوئی ہرج نہیں۔ اس نے عرض کیا میں نے رمی سے پہلے قربانی کرلی فرمایا کوئی ہرج نہیں۔ طبرانی کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں نے رمی سے پہلے کعبہ کا طواف کرلیا فرمایا (اب) رمی کرلے کوئی ہرج نہیں۔ حضرت علی ؓ کی حدیث میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ قربانی سے پہلے طواف کرلینے کا مسئلہ اس نے دریافت کیا تھا۔ رواہ احمد۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر ترتیب واجب ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اس کو ترتیب کے ساتھ دوبارہ مناسک ادا کرنے کا حکم دیتے ‘ کیونکہ قربانی کا دن تھا ‘ اداء مناسک کا وقت موجود تھا یا (ترک واجب کے کفارہ میں) قربانی کا حکم دے دیتے۔ لیکن ایسا کوئی حکم دینا کسی روایت میں نہیں آیا۔ مسلمانوں کا عظیم اجتماع تھا اور ہر شخص مناسک حج سے واقف ہونے کا آرزومند اور حریص بھی تھا ‘ پس جب کسی روایت میں اعادۂ مناسک یا جدید قربانی کا حکم منقول نہیں اور کسی نے اس کا تذکرہ ہی نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہی نہ تھا اور ترتیب واجب ہی نہیں تھی واجب ہوتی تو برمحل واجب حکم کی تعلیم ضروری تھی اور جب ترتیب واجب نہ قرار پائی تو اگر کسی نے اس کو قصداً ترک کردیا تو اس پر قربانی کا وجوب بھی نہیں ہوسکتا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا مذکورہ بالا قصہ کے ایک راوی حضرت ابن عباس ؓ ہیں اور (اس روایت کے خلاف) حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول بھی مروی ہے کہ جس نے مناسک میں کچھ تقدیم و تاخیر کی اس کو (بطور کفارہ) قربانی کرنا چاہئے اور اگر راوی کا اپنا قول اس کی روایت کے خلاف ہو تو وہ روایت مجروح ہوجاتی ہے کیونکہ روایت کے خلاف اس کا قول بتاتا ہے کہ روایتی حدیث کے خلاف اس راوی کو کوئی دوسری حدیث ملی ہے جو اوّل حدیث کو منسوخ کرنے والی ہے (اسی بناء پر تو اوّل حدیث کے خلاف راوی کا قول پیدا ہوا) ۔ لیکن یہ دلیل امام شافعی (رح) کے مسلک کو غلط ثابت نہیں کرتی کیونکہ امام شافعی (رح) کے نزدیک اگر کسی راوی کا قول اس کی روایت کے خلاف ہو تو روایت مجروح نہیں ہوتی بلکہ امام صاحب کے اصول پر بھی یہ دلیل منطبق نہیں ہوتی کیونکہ راوی کا قول اگر اس کی روایت کے خلاف ہو تو اس وقت روایت کو مجروح کرتا ہے جب اس قول کو مرفوع حدیث کے حکم میں قرار دے دیا گیا ہو۔ موقوف کو اگر مرفوع کا حکم دے دیا جائے تو گویا وہ قول اوّل حدیث کا ناسخ ہوجائے گا اور یہاں ایسا نہیں ہے ‘ قول ابن عباس راویت ابن عباس کا ناسخ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں جہاں تک ممکن ہو احادیث کا تعارض دور کرنا ضروری ہے۔ ایک پر عمل کرنا اور دوسری کو بالکل ترک کردینا مناسب نہیں اس لئے میرے نزدیک حضرت ابن عباس ؓ کے قول کو جو حدیث مرفوع کے حکم میں ہے اور حدیث حسن کے درجہ تک پہنچ چکا ہے ارادی ترک ترتیب پر محمول کیا جائے یعنی ابن عباس ؓ کے قول کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ جس نے قصداً مناسک کی ترتیب توڑی اور تقدیم و تاخیر کردی تو اس پر قربانی واجب ہے اور امام شافعی (رح) نے جو حدیث نقل کی ہے اس کو نسیان یا ناواقفیت پر محمول کیا جائے یعنی اس حدیث سے یہ سمجھا جائے کہ بھول کر یا ناواقفیت کی وجہ سے کسی نے مناسک میں تقدیم و تاخیر کرلی ہو تو کوئی ہرج نہیں ‘ اس پر قربانی واجب نہیں۔ جیسے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک فوت شدہ نمازوں کو ترتیب وار ادا کرنا واجب ہے لیکن اگر بھول گیا تو ترتیب فوائت کا وجود ساقط ہوجاتا ہے یا جس طرح روزے میں کھانا پینا ترک کرنا ضروری ہے لیکن بھول کر کھالیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا یا جیسے تکبیرات تشریق واجب ہیں لیکن نسیان کی صورت میں ساقط ہوجاتی ہیں۔ مسئلہ سر منڈوانا احرام کے واجبات میں سے ہے۔ حج کا رکن نہیں ہے۔ امام ابو یوسف (رح) امام احمد (رح) اور بعض مالکیہ کے نزدیک واجب نہیں ہے ایک امر مباح ہے۔ ایک کمزور روایت میں امام شافعی (رح) کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے ‘ ہماری دلیل یہی آیت ہے۔ اس میں تفث دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور تفث سے مراد سر منڈوانا ہے اور امر (حقیقتاً ) وجوب کے لئے ہوتا ہے ‘ لہٰذا سر منڈوانا واجب ہوگیا یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جب حلق راس کا رکن حج ہونا امر وجوبی قطعی سے ثابت ہے تو پھر حلق فرض کیا جائے ‘ واجب کیوں قرار دیا گیا (واجب کا ثبوت تو دلیل ظنی سے ہوتا ہے) یہ شبہ غلط ہے کیونکہ آیت اگرچہ قطعی ہے ناقابل شک لیکن تفسیری مطلب قطعی نہیں ہے ظنی ہے۔ موجب یقین نہیں ہے اس لئے حلق راس کا رکن حج ہونا وجوب کی حدود سے آگے نہیں بڑھتا۔ شافعی (رح) نے حلق راس کو رکن حج اس وجہ سے بھی قرار دیا ہے کہ حلق راس سے احرام کا حکم ختم ہوجاتا ہے اور احرام رکن حج ہے پس جس چیز سے احرام ختم ہوگیا اس کا بھی رکن حج ہونا ضروری ہے۔ جیسے لفظ سلام شافعی (رح) کے نزدیک رکن صلوٰۃ ہے کیونکہ نماز کا رکن لفظ سلام کی وجہ سے جاتا رہتا ہے نماز ختم ہوجاتی ہے اس لئے لفظ سلام بھی رکن صلوٰۃ قرار پایا۔ ہمارے نزدیک احرام حج کی شرط (خارجی) ہو یا رکن (داخلی) کسی صورت میں بھی اس عمل کا جس سے احرام جاتا رہتا ہے۔ نہ رکن ہونا ضروری ہے نہ شرط ہونا اور ہمارے نزدیک لفظ سلام بھی نماز کا رکن نہیں ہے اس کے علاوہ احرام کو سلام پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سلام کو تحریمۂ صلوٰۃ کی انتہا قرار دیا ہے ‘ فرمایا ہے (تحریم صلوٰۃ تکبیر ہے اور) تحلیل صلوٰۃ سلام ہے (یعنی تکبیر سے نماز شروع ہوجاتی ہے نماز میں داخلہ ہوجاتا ہے اور لفظ سلام سے نماز کھل جاتی ہے ‘ بندش صلوٰۃ ختم ہوجاتی ہے) پس اگر لفظ سلام کے بغیر کوئی ایسا فعل (یا قول) کیا جو نماز کے خلاف ہے تو اس سے نماز کا تحریمہ ختم ہوجائے گا۔ خواہ تحریمہ کو نماز کا رکن کہا جائے یا شرط۔ بہرحال تحریمہ جاتا رہے گا۔ لیکن احرام حج کی یہ حالت نہیں ہے۔ امور ممنوعہ کرنے سے احرام حج باطل نہیں ہوجاتا ‘ دیکھو عرفات میں قیام سے پہلے اگر کسی نے جماع کرلیا تو حج جاتا رہے گا۔ آئندہ حج کی قضا واجب ہوگی ایسا نہیں کہ احرام باطل ہوجائے اور حج قائم رہے اور آخر تک حج کو پورا کرنا لازم ہو۔ مسئلہ حلق راس کا ابتدائی وقت کون سا ہے اور انتہائی کون سا۔ قربانی کے دن فجر صادق سے اکثر علماء کے نزدیک اور آدھی رات کے بعد سے بعض علماء کے نزدیک حلق راس کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضرت عروہ بن مفرس کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ہمارے ساتھ یہ نماز یعنی فجر کی نماز مزدلفہ میں پڑھی اور اس سے پہلے رات کو یا دن کو عرفات میں بھی وہ قیام کرچکا۔ اس کا حج پورا ہوگیا اور اس نے اپنا تفث دور کردیا (یعنی سر منڈوا دیا) رواہ اصحاب السنن ‘ الاربعۃ۔ حاکم نے کہا یہ روایت تمام اہل حدیث کی شرائط کے مطابق ہے۔ لیکن بخاری و مسلم نے اس کو نہیں بیان کیا۔ یہ روایت اصول شیخین کے خلاف ہے۔ عروہ بن مفرس سے صرف شعبی نے روایت کی ہے ہم نے ابن مفرس کے بجائے عروہ بن زبیر کو پایا ہے اور عروہ بن زبیر سے حدیث مروی ہے۔ امام شافعی : (رح) ‘ امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) بلکہ اکثر علماء کے نزدیک سر منڈوانے کے وقت کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔ ہاں اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ حلق کے لئے کیا داخل حرم ہونا شرط ہے یعنی سر منڈانے کا مقام حرم ہی ہے۔ امام ابو یوسف (رح) اور امام زفر (رح) : کو حلق کا مقام ضروری نہیں قرار دیتے۔ کوئی شرط نہیں کہ حرم کے اندر ہی سر منڈایا جائے امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا سر منڈانے کے دو پہلو ہیں ایک رخ تو یہ ہے کہ حلق راس احرام کھول دینے کا ذریعہ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ مناسک حج میں داخل ہے حج کے ارکان واجبہ میں سے ایک رکن ہے اوّل لحاظ سے تو اس کی خصوصیت کسی مقام اور جگہ سے نہیں ہے اور دوسرے اعتبار سے اس کے لئے دن بھی مقرر ہے ‘ یعنی قربانی کا دن اور مقام کی بھی تعیین ہے یعنی حرم یہ ایک عبادت ہے جس کے اندر قیاس کو دخل نہیں ‘ اس لئے اس کی عبادتی خصوصیات وہی ہوں گی جو شارع کی طرف سے مقرر کردی گئی ہیں یعنی زمان (یوم النحر) اور مکان (حرم) اوّل لحاظ سے اس میں رائے اور قیاس کو دخل ہے کیونکہ محلل (احرام کھولنے کا ذریعہ) وہی ہوگا جو مقررہ وقت و مقام کے علاوہ اگر کیا جائے تو جنایت اور جرم قرار پائے (جس کی تلافی کفارہ سے کی جانی چاہئے) اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اگر وقت مقررہ کے بعد حلق کیا یا حرم سے باہر کیا تو احرام سے بیشک آزاد ہوجائے گا۔ مگر غیر شرعی طریقے سے کرنے کی وجہ سے اس کی عبادتی حیثیت فوت ہوجائے گی اور (بطور کفارہ) قربانی کرنی ہوگی۔ امام ابو یوسف (رح) نے حدیث کے اس فقرہ سے استدلال کیا ہے کہ جب ایک شخص نے قربانی سے پہلے سر منڈا دیا (اب) قربانی کرلے کوئی ہرج نہیں۔ ہم کہتے ہیں قربانی کا دن تو موجود ہی تھا حلق راس کا وقت باقی تھا۔ ظہر کے بعد کا وقت تھا۔ ناواقفیت یا نسیان کی وجہ سے ترتیب قائم نہیں رہی تھی اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا کوئی ہرج نہیں (اب) ذبح کرلے۔ اب رہی یہ بات کہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ نے حلق کرا دیا تھا اس کے متعلق امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس کی حیثیت عبادتی نہیں تھی بلکہ قطعی واپسی کی ایک نشانی تھی (کہ اب واپس جانا ہی ہے) اسی لئے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس شخص پر حلق واجب نہیں جس کو راستے میں کسی مجبوری کی وجہ سے رک جانا پڑا ہو اور حج کرنا ممکن نہ ہوا ہو۔ میرے نزدیک اس کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ جو شخص جبر جابر کی وجہ سے راستہ میں ہی روک دیا گیا ہو وہ معذور ہے دوسرے کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا دیکھو باجماع علماء ایسے ممنوع الحج شخص کیلئے تو وقت سے پہلے سر منڈوا دینا جائز ہے دوسرے کیلئے تو اس کا جواز نہیں ہے۔ یہی صورت غیر مقام کی بھی ممنوع الحج معذور سے جہاں پائے حلق کرا دے دوسروں کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے جو حلق کے لئے حرم کی شرط لگائی ہے اس کا ثبوت آیت ثُمَّ مَحِلُّہَا اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقسے ملتا ہے اس کی تفسیر عنقریب آئے گی ‘ دوسری آیت ہے لَتَدْخُلنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآء اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ محلّقِیْنَ رُؤُسَکُمْ وَمقصِرِیْنَ ۔ اس آیت میں سر منڈوانے اور بال کتروانے کو دخول مسجد کے خواص میں سے قرار دیا ہے۔ سلف کا ہمیشہ سے طریقہ بھی یہی رہا ہے کہ حرم کے اندر حلق کراتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے بھی ایسا ہی کیا اور حضور کے بعد سب صحابہ اور تابعین وغیرہم کا یہی طریقہ رہا کہ حج کی صورت میں منیٰ اور عمرہ کی صورت میں مروہ کے قریب حلق کراتے رہے اور منا ومروہ دونوں حرم کے اندر ہیں۔ مسئلہ حلق یا قصر کی واجب مقدار کتنی ہے یہ مسئلہ ائمہ کے اندر مختلف فیہا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) : ایک چوتھائی سر کا منڈوانا یا بال کتروانا کافی سمجھتے ہیں۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک ایک بال یا تین بالوں کا منڈوانا یا کتروانا کافی ہے۔ امام مالک (رح) اور امام احمد پورا سر منڈوانا پورے سر کے بال کتروانا ضروری قرار دیتے ہیں۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا قضاء تفث (یعنی حلق وغیرہ) از روئے آیت واجب ہے اور باتفاق علماء کامل طور پر قضاء تفث ضروری نہیں کیونکہ قصر کی اجازت ہے اور قصر سے مکمل طور پر میل کچیل (تفث) کا ازالہ نہیں ہوتا ‘ کسی قدر ہوجاتا ہے اور کسی قدر ازالۂ تفث (کی کوئی حد نہیں یہ) ایک یا تین بالوں کے منڈوانے یا کتروانے سے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ امام ابو حنفیہ (رح) فرماتے ہیں ایک یا تین بالوں کے منڈوانے یا کٹوانے کو کوئی عرب سر منڈوانایا کتروانا نہیں کہتا نہ اس کو قضاء تفث کہتے ہیں شرعاً کم سے کم اس کی کوئی حد مقرر ہونی چاہئے اور چوتھائی سر کو کل سر کا قائم مقام وضو کے اندر مانا گیا ہے چوتھائی سر کا مسح کل سر کے مسح کی جگہ کافی قرار دیا گیا ہے اور باقی اعضاء کو کامل طور پر دھونا ضروری قرار دیا ہے ‘ سورة مائدہ کے اندر آیت وضوء کی تفسیر کے ذیل میں اس کی تحقیق کردی گئی ہے اس لئے یہاں بھی ایک چوتھائی سر منڈوانا یا کتروانا کافی ہے۔ امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) نے وضو کے اندر چوتھائی سر کے مسح کو کافی نہیں قرار دیا اس لئے یہاں بھی ان کے نزدیک پورا سر منڈوانا یا کتروانا واجب ہے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے بعد تمام صحابہ کا یہی عمل رہا کہ پورا سر منڈواتے تھے یا سب بال کترواتے تھے۔ مسئلہ باتفاق علماء حلق قصر سے افضل ہے حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ‘ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اور بال کتروانے والوں پر (بھی) حضور ﷺ نے پھر فرمایا اے اللہ سر منڈانے والوں پر رحم فرما ‘ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اور کتروانے والوں پر (بھی) حضور ﷺ نے تیسری بار دعا کی اے اللہ سر منڈانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اور کتروانے والوں پر (بھی اس وقت) حضور ﷺ نے فرمایا اور کتروانے والوں پر (بھی) ۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے چوتھی مرتبہ میں فرمایا تھا اور کتروانے والوں پر بھی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی یہ حدیث آئی ہے ‘ صحیحین میں دونوں حدیثیں مذکور ہیں۔ ولیفوا نذورہم اور ان کو چاہئے کہ اپنی مانی ہوئی نذریں پوری کریں۔ بعض اہل تفسیر نے کہا کہ نذر پوری کرنے سے مراد ہے تمام واجبات کو ادا کرنا خواہ نذر مانی ہو یا نہ مانی ہو (یعنی اللہ کی طرف سے کوئی بات واجب ہو یا بندہ نے خود اپنے اوپر واجب کرلی ہو کہ میں یہ کام ضرور کروں گا۔ ) جمہور کے نزدیک ایفاء نذر سے ان امور کی ادائیگی مراد ہے جو اللہ کی طرف سے واجب نہیں ہوئی ہو بندہ نے خود اپنے ذمہ واجب کرلی ہو۔ نذر دو طرح کی ہوتی ہے (1) منجز (غیر مشروط) مثلاً کوئی یہ عہد باندھ لے کہ میں اللہ کے لئے دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ (2) مشروط یا معلق۔ مثلاً اگر میرا یہ کام ہوجائے گا تو میں ایک روزہ رکھوں گا۔ شرط دو طرح کی ہوتی ہے (1) پسندیدہ (2) ناپسندیدہ۔ اگر اللہ نے میرے بیمار کو شفا دے دی تو میں چار روزے رکھوں گا۔ یہ پسندیدہ شرط ہے۔ اس کو نذر نزدر کہتے ہیں۔ اگر میں نے زید سے بات کی تو ایک ماہ کے روزے رکھنا مجھ پر لازم ہیں۔ یہ ناپسندیدہ شرط ہے ‘ ایسی نذر کو نذر لجاج کہتے ہیں۔ نذر نام ہے ایسی بات کو اپنے اوپر واجب کرلینے کا جو اللہ کی طرف سے واجب نہ کی گئی ہو (یعنی ایجاب مالم یجب شرعاً ) تو اگر کسی نے ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرلیا جو پہلے سے شرعاً واجب ہے تو یہ نذر نہ ہوگی بلکہ محض خبری جملہ ہوگا جیسے اگر کسی نے کہا اگر اللہ میرے بیمار کو شفا دے دے گا تو رمضان بھر روزے رکھوں گا یا ظہر کی نماز پڑھوں گا۔ ظاہر ہے کہ رمضان اور ظہر کی نماز پہلے ہی اللہ کی طرف سے لازم ہے ایسے کلام کو نذر نہیں کہیں گے اور نہ نذر کا حکم اس پر مرتب ہوگا اور اس صورت میں اگر کسی نے واجب شرعی کے اوصاف یا مقدار میں کچھ تغیر کیا ہوگا تو وہ تغیر وصفی یا تبدیل مقداری ناقابل اعتبار ہوگی۔ مثلاً اگر کسی نے کہا میرے بیمار کو اللہ شفا عطا فرما دے گا تو میں اپنے مال کی زکوٰۃ پانچ فی صد کے حساب سے دوں گا یا فرض ظہر کی چھ رکعت پڑھوں گا یا ہر نماز کو تازہ وضو سے پڑھا کروں گا یا ہر نماز جماعت سے پڑھا کروں گا۔ ان تمام صورتوں میں فرائض شرعیہ اصلی شرعی صورت و مقدار کے ساتھ قائم رہیں گے الفاظ نذر کا اعتبار نہ ہوگا نہ وصف بدلے گا نہ مقدار میں بیشی ہوگی زکوٰۃ کی فرضیت ڈھائی فیصد ہی رہے گی اور ظہر کے فرض چار ہی رہیں گے اور نماز بغیر تازہ وضو کے جائز ہوگی اور جماعت کا جو درجہ پہلے تھا وہی الفاظ نذر کے بعد بھی رہے گا کیونکہ اللہ نے ظہر کی نماز کے چار فرض مقرر کئے ہیں اور ہر نماز باوضو ہو (خواہ تازہ وضو نہ ہو) اور بغیر جماعت کے منفرد کی نماز کو کافی قرار دیا ہے اب اگر بغیر قیود کے ان احکام کی شرعی ادائیگی کو کافی نہ مانا جائے گا تو اللہ کے حکم کو منسوخ کردینا لازم آئے گا اور اصلی شرعی صورت میں کافی سمجھا جائے گا تو اس تبدیل و تغییر کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایسی نذر مشروط کے بعد اگر نذر کی وفا نہ کی گئی ہو کسی اور طرح سے اس کی ادائیگی ہونی چاہئے یعنی کفارہ ادا کرنا چاہئے مشروط کے بعد اگر نذر کی وفا نہ کی گئی ہو کسی اور طرح سے اس کی ادائیگی ہونی چاہئے یعنی کفارہ ادا کرنا چاہئے اور چونکہ یہ چیزیں مستقل نہیں ہیں اس لئے ان کا کفارہ بادائے مثل معقول ہو نہیں سکتا اور بادائے مثل غیر معقول (مثلاً قربانی کرنا) ہو تو مثل غیر معقول کی تعیین شریعت کی طرف سے ہونی چاہئے اور شرعاً ایسی صورت میں مثل غیر معقول کی کوئی تعیین نہیں ہے۔ یہی معنی ہیں علماء کے اس قول کے کہ وجوب ایفاء نذر کی شرط یہ ہے کہ وہ طاعت مقصودہ ہو اور بجائے خود اس کی حیثیت مستقل ہو۔ اگر کسی نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی اور سوار ہو کر گیا تو (بطور کفارہ) قربانی کرنا مشروع ہے شریعت میں بطور کفارہ قربانی کرنا متعارف ہے۔ بیان مذکورہ بالا پر ایک اشکال بہرحال قائم رہتا ہے جو لاینحل ہے کہ پانچ فی صد زکوٰۃ ادا کرنے کی نذر ماننے کی صورت میں ڈھائی فی صد ادا کرنے سے نذر باقی نہیں رہتی جب کہ اللہ کی واجب کردہ زکوٰۃ کا نسخ پانچ فیصد ادا کرنے سے لازم نہیں آتا بلکہ قدر زائد کا الگ وجوب ہوجاتا ہے ڈھائی فیصد حسب قانون شرع اور ڈھائی فیصد بطور ایفاء نذر۔ واللہ اعلم۔ جو امر شرعاً اللہ کی طرف سے واجب نہیں ہے (اور نذر کی وجہ سے اپنے اوپر واجب کیا گیا ہے) اس کی تین قسمیں ہیں (1) وہ امر طاعت ہو (2) وہ امر گناہ ہو۔ (3) وہ امر مباح ہو۔ نہ اس میں اطاعت کا معنی ہو نہ معصیت کا۔ اوّل الذکر کا ایفاء باتفاق علماء واجب ہے اور اسی آیت کو دلیل میں پیش کیا گیا ہے۔ آیت سے ایفاء نذر کا جو حکم مستفاد ہو رہا ہے وہ فرض قطعی ہے یا واجب ظنی۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک مسلمہ ضابطہ ہے کہ عام مخصوص البعض ظنی ہوتا ہے (یعنی مفید ظن ہوتا ہے فرض نہیں ہوتا اور) یہ آیت عام ہے ہر طرح کی نذر کے ایفاء کا حکم دیا گیا ہے لیکن نذر معصیت کا ایفاء باتفاق علماء جائز نہیں (معلوم ہوا کہ یہ آیت مخصوص البعض ہے۔ ) اور آیت مخصوص البعض ظنی ہوجاتی ہے (لہٰذا ایفاء نذر از روئے آیت واجب ہے فرض نہیں ہے) بعض علماء نے کہا کہ امام ابوحنیفہ کے مسلمہ کی بنا پر بھی ایفاء نذر کا مفہوم قطعی ہے کیونکہ آیت اگرچہ مخصوص البعض ہے جو مفید وجوب ہے لیکن اس مخصوص البعض حکم کے فرض ہونے پر اجماع منعقد ہوچکا ہے۔ انعقاد اجماع کی وجہ سے جو حکم ایفاء نذر (از روئے آیت واجب) تھا قطعی اور فرض ہوگیا۔ نذر طاعت اگر منجز ہو اور اس کو پورا کرنا استطاعت میں ہو تو اس کو پورا کرنا فرض ہے۔ ایفاء نذر کو ترک کر کے کفارہ کو ادا کرنا بالاتفاق ناجائز ہے۔ بعض کے نزدیک ترک ایفاء کی صورت میں کفارۂ قسم ادا کیا جاسکتا ہے اور اگر نذر مشروط ہو اور شرط موجود ہوجائے تو امام مالک (رح) ‘ امام ابوحنیفہ (رح) اور اکثر علماء کے نزدیک اس کا حکم بھی نذر منجز کی طرح ہے گویا نذر مشروط کا معنی یہ ہوجائے گا کہ وجود شرط کے وقت میں اللہ کے لئے ایسا کام کرنے کا ذمہ لیتا ہوں۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ اپنی وفات سے سات روز پہلے امام ابوحنیفہ (رح) نے اس قول سے رجوع کرلیا تھا اور فرمایا تھا نذر مشروط کی صورت میں صاحب نذر کو اختیار ہے ایفاء نذر کرے یا کفارۂ قسم کے برابر کفارہ ادا کرے۔ امام محمد کا بھی یہی مسلک ہے۔ اگر کسی نے نذر مانی کہ میرے بھائی کو اللہ شفا دے دے گا تو شکرانے میں ایک حج کروں گا۔ یا ایک سال کے روزے رکھوں گا تو اس کو اختیار ہے حج کرے یا کفارہ ادا کرے اور روزوں کی نذر کی صورت میں اگر نادار ہے (کفارۂ مالی ادا نہیں کرسکتا) تو وہ سال بھر کے روزے رکھے یا صرف تین روزے رکھ لے (کیونکہ نادار کے لئے قسم کا کفارہ تین روزے ہیں) ۔ اوّل قول امام ابوحنیفہ (رح) : کا ظاہر مذہب ہے (جو امام محمد کی چھ کتابوں میں سے کسی کتاب میں منقول ہے اور دوسرا قول جس میں کفارۂ قسم کے برابر کفارہ ادا کرنے کا اختیار گیا ہے نوادر میں آیا ہے (امام محمد کی چھ کتابوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں منقول ہے) اوّل قول کی وجہ تو یہی آیت ہے اور اس کی تائید مختلف احادیث سے بھی ہوتی ہے اور نوادر والے قول کا اثبات مسلم کی حدیث سے ہوتا ہے جس کے راوی حضرت عقبہ بن عامر ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ کفارہ ادا کرنے سے نذر ساقط ہوجاتی ہے اس حدیث کا دوسری احادیث سے تعارض ہو رہا ہے۔ دونوں میں توافق پیدا کرنے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ بعینہٖ نذرکو پورا کرنا (اور کفارہ نہ ہونا) نذر منجز کے لئے لازم ہے اور کفارہ کا تعلق نذر معلق (مشروط) سے ہے۔ دونوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ نذر مشوط فی الحل تو نذر ہوتی نہیں جب تک شرط کا تحقق نہ ہو نذر معدوم رہے گی۔ قسم کی بھی یہی صورت ہوتی ہے جب تک قسم نہ توڑے کفارہ واجب نہیں ہوتا قسم توڑنے کے بغیر قسم کے کفارہ کا حکم معدوم ہوتا ہے اور نذر منجز کا وجود فی الحال ہوتا ہے اس لئے اس کو پورا کرنا (اور کفارہ سے اس کا ساقط نہ ہونا) تو لازم ہی ہوجاتا ہے۔ صاحب ہدایہ اور دوسرے اکابر حنفیہ کے نزدیک (وفا نذر اور کفارہ کا) اختیار نذر لجاج میں ہوگا کیونکہ نذر لجاج کرنے والا حقیقت میں وجود شرط کا خواستگار ہی نہیں ہوتا ‘ اس لئے وجوب نذر کا اس کا ارادہ ہی نہیں ہوتا ‘ انسان نہیں چاہتا کہ ہمیشہ اس پر عبادتیں واجب رہیں اگرچہ وہ عبادتیں موجب ثواب ہی ہوں اس کو ڈر رہتا ہے کہ کہیں ترک عبادت کسی وقت ہوجائے جو اس کو مستحق عذاب بنا دے اسی وجہ سے صحیح روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نذر ماننے سے منع فرمایا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ نذر بھلائی (کامیابی ‘ شفاء ‘ واپسی مسافر وغیرہ) کی موجب نہیں ہوتی۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ کسی دشوار عبادت کی نذر مانی ہو جیسے حج یا سال بھر کے روزے۔ رہا نذر تردد کا حکم تو اس کا حکم نذر منجز کی طرح ہے جس بات کی نذر مانی ہے اسی کو کرنا ہوگا (کفارہ ادا کرنے سے یہ نذر پوری نہیں ہوتی) کیونکہ جب وجود شرط کا ارادہ کرلیا تو لامحالہ وجود نذر کا خواستگار ہوگیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ نذر منجز اور نذر تردد کو بعینہٖ پورا کرنا ضروری ہے اور نذر لجاج میں اصل نذر کو پورا کرے یا کفارہ ادا کرے دونوں کا اختیار ہے۔ امام احمد کا بھی یہی مسلک ہے۔ صاحب ہدایہ نے یہ ساری تفصیل بیان کی ہے امام شافعی (رح) : کا بھی ظاہر ترین قول یہی ہے ‘ لیکن شافعی کے دو قول اور بھی بعض روایات میں آئے ہیں ‘ ایک یہ کہ نذر لجاج میں کفارہ ہی دینا لازم ہے دوسری روایت یہ کہ بعینہٖ ایفاء نذر لازم ہے (کفارہ سے نذر نہیں ساقط ہوگی) ۔ مسئلہ : امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نذر سے کسی منذور بات کا وجوب اس وقت ہوگا جب منذور اس جنس کی چیز ہو جو اللہ نے واجب کی ہے (مثلاً حج کی نذر نماز پڑھنے کی نذر راہ خدا میں مال خرچ کرنے کی نذر کی ‘ بعینہٖ یا بکفارہ ادائیگی واجب ہوگی کیونکہ اللہ نے حج نماز اور صدقات کو واجب کیا ہے لیکن مریض کی عیادت جنازہ کے ساتھ چلنا اور اسی طرح کی دوسری باتیں ایسی ہیں جن کی ہم جنس کوئی چیز اللہ نے واجب نہیں کی لہٰذا نذر سے ان باتوں کا وجوب نہیں ہوتا۔ ) منہاج میں امام شافعی (رح) کا مسلک اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی طاعت کا نذر سے وجوب ہوجاتا ہے خواہ وہ طاعت ان طاعتوں کی ہم جنس نہ ہو جو اللہ نے واجب کی ہیں جیسے مریض کی عیادت ‘ تشیع جنازہ اور سلام (ابتدائی) ۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ نذر اعتکاف کی صورت میں باتفاق علماء اعتکاف کرنا واجب ہوجاتا ہے حالانکہ واجبات الٰہیہ ہیں ان میں سے کسی کا اعتکاف نہیں ہے اگر کہا جائے کہ روزہ اعتکاف کی ضروری شرط ہے (اور روزۂ رمضان اللہ کی طرف سے واجب کردیا گیا ہے اور رمضان کا روزہ اعتکاف کے روزے کا ہم جنس ہے۔ ) اس کا جواب یہ ہے کہ اعتکاف کرنے کے لئے روزہ کی شرط ناقابل تسلیم ہے (روزہ کے بغیر اعتکاف ہوسکتا ہے اور اگر اعتکاف کے لئے روزے کی شرط مان بھی لی جائے تب بھی اتنا لازم آئے گا کہ اعتکاف کی شرط کا ہم جنس فرائضِ الٰہیہ میں موجود ہے اعتکاف کا ہم جنس تو موجود نہیں ہے اس پر بھی اگر ایفاء نذر کو واجب قرار دیا جائے گا تو پھر عبادت مقصود ہو یا نہ ہو بہرحال نذر کی وجہ سے اس کا واجب ہونا ضروری ہوجائے گا کیونکہ ہر قربت (عبادت) اسلام و اخلاص کے ساتھ مشروط ہے (کوئی عبادت بغیر اسلام کے نہیں ہوتی۔ خواہ مقصودہ ہو۔ جیسے اسلام یا غیر مقصودہ جیسے نماز کے لئے وضو) اور اسلام و اخلاص اللہ کی طرف سے واجب کردہ فرائض ہیں اور اگر اعتکاف بالنذر کے وجوب کو صوم بالنذر کے وجوب کے تابع قرار دیا جائے گا (اور یوں کہا جائے گا کہ نذر سے اعتکاف کا وجوب اس وقت ہوگا جب اسکے ساتھ نفلی روزہ بھی ہو) تو رمضان میں اعتکاف کرنے کی نذر کا ایفاء واجب ہی نہ ہوگا (کیونکہ رمضان میں روزے رکھنے کی اگر نذر مانی تو صوم نذر کا وجوب نہیں ہوتا۔ رمضان کے روزے تو اللہ کی طرف سے واجب کردہ ہی ہیں واجب خداوندی پر واجب بالنذر وارد نہیں ہوتا) ۔ مسئلہ : اگر نذر طاعت کو پورا نہ کرسکا ہو (مثلاً کسی مریض کے تندرست ہوجانے پر 13‘ 14‘ 15 تاریخ کے روزے رکھنے کی نذر مانی ہو اور روزے نہ رکھ سکا ہو) تو باتفاق جمہور قضاء نذر واجب ہے (دوسرے ایام میں روزے رکھ لے) لیکن اسی کے ساتھ کیا قسم کا کفارہ بھی واجب ہے یا نہیں۔ یہ مسئلہ اختلافی ہے سفیان ثوری وجوب کفارہ اور قضاء نذر دونوں کے قائل ہیں امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ‘ اگر قسم کی نیت نہ کی اور نذر کا صیغہ زبان سے ادا کیا خواہ نذر کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ بہرحال قضا نذر واجب ہے کفارۂ قسم واجب نہیں ہے اور اگر صرف قسم کی نیت کی اور نذر کی نفی کی تو کفارہ واجب ہے ‘ قضاء نذر واجب نہیں اور اگر قسم کی نیت کی اور نذر کی نہ نیت نہ کی نہ نفی نذر کی۔ نذر کے متعلق کوئی خیال ہی دل میں نہیں آیا یا نذر کی بھی نیت کی تو قضاء نذر اور کفارۂ قسم دونوں واجب ہیں۔ امام ابو یوسف (رح) نے فرمایا اگر قسم کی نیت کی اور نذر کی نیت نہیں کی تو اس صورت میں صرف کفارۂ قسم واجب ہے قضاء واجب نہیں کیونکہ صیغۂ نذر کا مجازی معنیٰ اس نے مراد لیا ہے اور قسم کی نیت کی ہے اور اگر نذر کی نیت کی قسم کی ‘ نیت نہیں کی تو قضاء واجب ہے کفارہ واجب نہیں حقیقی معنیٰ متعین ہے اور اگر دونوں کی نیت کی تب بھی قضاء ہی لازم ہوگی کفارہ نہ ہوگا کیونکہ حقیقت کو مجاز پر ترجیح ہے اور حقیقت و مجاز دونوں کا بیک وقت اجتماع ہو نہیں سکتا۔ سفیان ثوری نے اپنے قول کے ثبوت کے لئے فرمایا کہ نذر کا صیغہ محتاج نیت نہیں اگر نذر کے صیغہ کو بول کر نذر کی نیت نہ بھی کی ہو تب بھی نذر کی نفی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ نذر انشاء ہے اور انشاء کا صیغہ استعمال کرنے کے بعد حقیقی معنی کی نفی نہیں ہوسکتی ‘ نذر کی حالت ایسی ہی ہے جیسے نکاح طلاق رجعت اور غلام کی آزادی۔ رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد ہے تین چیزیں جن کی سنجیدگی بھی واقعیت ہے اور مزاحیہ کہہ دینا بھی واقعیت (پر محمول کیا جاتا) ہے نکاح طلاق ‘ رجعت۔ (مزاحیہ ایجاب و قبول ‘ مزاحیہ طلاق اور مزاحیہ رجعت واقع ہوجاتی ہے اس میں مزاح کا عذر قابل قبول نہیں) اخرجہ احمد و ابو داؤد والترمذی وابن ماجۃ من حدیث ابی ہریرۃ۔ مصنف میں ‘ عبدالرزاق نے حضرت ابو ذر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے مذاق میں طلاق دی اس کی طلاق نافذ ہے اور جس نے مذاق میں باندی غلام کو آزاد کردیا اس کی آزادی نافذ ہے۔ ابن عدی نے الکامل میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین چیزیں ہیں جن کا کھیل نہیں ہے (یعنی بطور دل لگی بھی ایسا کیا جائے تو حقیقت کا وقوع ہوجاتا ہے) جس نے کھیل کے طور پر اگر ان میں سے کوئی بات کہہ دی تو پڑجائے گی۔ طلاق ‘ غلام کی آزادی اور نکاح۔ عبدالرزاق نے موقوفاً حضرت عمر ؓ و حضرت علی ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ تین چیزیں ہیں جن میں کوئی کھیل نہیں۔ نکاح اور طلاق اور باندی غلام کی آزادی۔ ایک روایت میں چارچیزوں کا لفظ آیا ہے اور چوتھا لفظ نذر کا ہے۔ اور نذر کا مقتضیٰ قسم ہے (یعنی نذر اپنی معنویت کے لحاظ سے قسم ہی ہے) کیونکہ جو چیز (شرعاً ) واجب نہیں اس کو اپنے اوپر واجب بنا لینے کا معنی ہی یہ ہے کہ جو چیز (شرعاً ) حرام نہ تھی اس کو اپنے اوپرحرام کرلیا اور غیر حرام کو حرام بنا لینا قسم ہے اللہ نے فرمایا ہے : یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۔۔ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ نَحِلَّۃَ اَیمَانَکُمْ ۔ اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ نذر کا قسم ہونا بھی نیت کا : محتاج نہیں ہے (خود نذر کے اندر قسم کا معنی موجود ہے) اور نیت نہ ہو تب بھی قسم کی نفی نہیں ہوتی اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اپنے والدین یا اولاد کو خرید لیا پس خریدتے ہی وہ آزاد ہوجائیں گے۔ خواہ آزاد کرنے کی نیت نہ کی ہو یا آزاد نہ کرنے کی نیت کی ہو (دونوں صورتوں میں کچھ فرق نہیں پڑتا) ۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ غیر حرام کو حرام بنا لینا ہر جگہ قسم نہیں ہے دیکھو طلاق کے بعد بیوی ‘ آزاد کرنے کے بعد باندی اور فروخت کردینے کے بعد فروخت کردہ چیز حرام ہوجاتی ہے (جو پہلے حرام نہ تھی ان افعال سے اس کو حرام بنا لیا جاتا ہے) حالانکہ یہ تحریم قسم نہیں ہے ہاں اگر تحریم میں قصداً قسم کی نیت کی ہو تو غیر حرام کو حرام بنانا قسم ہوجاتا ہے جیسے ماریہ اور شہد کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے لئے حرام بنا لیا تھا اور اس سے قسم کی نیت کی تھی۔ (جس کا ذکر قرآن کی مذکورہ آیت میں ہے) اس آیت میں تحریم ارادی ہے ‘ تحریم التزامی نہیں۔ پس جب تک قسم کی نیت نہ ہوگی نذر ہوگی۔ نذر کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو کیونکہ یہی حقیقی معنیٰ ہے (اور حقیقی معنیٰ پر دلالت نیت کی محتاج نہیں ہوتی) اور جب قسم کی نیت کی ہو تو یہ قسم ہوگی (نذر کا مجازی معنی قسم ہے اور مجازی معنیٰ نیت کا محتاج ہے) اور جب نذر کی نفی نہ ہو خواہ اس کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو اور قسم کی نیت کی ہو تو لفظ کے لحاظ سے یہ نذر ہوگی اور مقتضیٰ (مفہوم التزامی) کے اعتبار سے قسم ہوگی۔ واللہ اعلم۔ فصل نذر معصیت دو طرح کی ہوتی ہے (1) ایسی نذر جس کا کوئی فرد معصیت سے خالی نہیں ہوسکتا جیسے شراب پینے اور زنا کرنے کی نذر۔ امام ابوحنیفہ نے ایسی نذر کے متعلق فرمایا اگر اس نذر سے قسم کی نیت ہو تو نذر منعقد ہوجائے گی اور قسم توڑ کر کفارہ ادا کرنا ہوگا ‘ اگر قسم کی نیت نہ ہوگی تو نذر منعقد نہ ہوگی لغوکلام قرار دیا جائے گا اور آیت مذکورہ میں یہ مراد بھی نہیں ہے اور باتفاق علماء اس کو پورا کرنے کا حکم بھی اس آیت میں نہیں دیا گیا ہے۔ اللہ فحشاء اور کھلے گناہ کا حکم نہیں دیتا ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) : بھی اسی کے قائل ہیں۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top