Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 45
فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ فَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ
فَكَاَيِّنْ : تو کتنی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیا انہیں وَهِىَ : اور یہ۔ وہ ظَالِمَةٌ : ظالم فَهِيَ : کہ وہ۔ یہ خَاوِيَةٌ : گری پڑی عَلٰي : پر عُرُوْشِهَا : اپنی چھتیں وَبِئْرٍ : اور کنوئیں مُّعَطَّلَةٍ : بےکار وَّقَصْرٍ : اور بہت محل مَّشِيْدٍ : گچ کاری کے
اور بہت سی بستیاں ہیں کہ ہم نے ان کو تباہ کر ڈالا کہ وہ نافرمان تھیں۔ سو وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں۔ اور (بہت سے) کنوئیں بےکار اور (بہت سے) محل ویران پڑے ہیں
فکاین من قریہ اہلکنہا وہی ظالمۃ فہی خاویۃ علی عروشہا اور بہت بستیوں کو ہم نے تباہ کردیا کیونکہ وہ ظالم تھیں سو اب وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں۔ بستیوں کو تباہ کردیا ‘ یعنی بستیوں والوں کو کیونکہ وہ لوگ ظالم تھے۔ (ظلم کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو بےجگہ رکھنا) انہوں نے بھی مشرکانہ پوجا کو اللہ کی عبادت کے قائم مقام بنا لیا تھا اللہ کا انکار کرتے تھے اور بتوں کو مانتے تھے۔ فہی پس وہ یعنی ان کے مکانوں کی دیواریں چھتوں پر ڈھئی پڑی ہیں یعنی پہلے چھتیں گریں پھر ان کے اوپر سے دیواریں آپڑیں۔ اس مطلب پر عَلٰی عُرُوْشِہَاکا تعلق خاویۃٌسے ہوگا۔ اور خاویۃٌ کا مطلب ڈھنے والی یا گرنے والی یا خاویۃ کا معنی ہے خالی ‘ ویران۔ اس وقت عَلٰی عُرُوْشِہَاکا تعلق قائمۃ یا کائنۃ محذوف سے ہوگا ‘ یعنی وہ بستیاں ویران پڑی ہیں اور اپنی چھتوں سمیت کھڑی ہیں (مکان ویران ہوگئے ان میں رہنے والا کوئی موجود نہیں چھتیں دیواروں پر قائم ہیں) یا یہ مطلب ہے کہ چھتیں گرگئیں اور دیواریں ان پر جھکی ہوئی ہیں ٹیڑھی ہوگئی ہیں۔ وبئر معطلۃ اور بہت سے کنویں (یعنی بہت سے کنوؤں والوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور کنویں) بیکار پڑے رہ گئے (کوئی ان سے پانی کھینچنے والا ہی نہیں رہا) ۔ وقصر مشید۔ اور بہت سے مضبوط محل ہم نے برباد کردیئے۔ یعنی محلوں میں رہنے والوں کو تباہ کردیا۔ قتادہ ‘ ضحاک اور مقاتل نے مشید کا ترجمہ کیا اونچے ‘ بلند۔ شَادَ بِنَاہُ (اس کی عمارت کو اونچا کیا) عربی محاورہ ہے۔ سعید بن جبیر ‘ عطا اور مجاہد نے کہا شید کا معنی ہے چونہ ‘ گچ ‘ مصالحہ اس لئے مشید کا ترجمہ ہوا چونے اور گچ سے چنے ہوئے۔ (مضبوط) ۔ بغوی نے لکھا ہے بِءْرٍ مُّعَطَّلَۃٍاور قَصْرٍ مَّشِیْدٍدونوں یمن میں تھے ‘ قصر پہاڑ کی چوٹی پر تھا اور کنواں دامن گوہ میں ‘ ہر ایک کے مالک کچھ لوگ تھے۔ بڑے عیش و راحت میں غرق لیکن جب انہوں نے کفر کیا تو اللہ نے ان کو تباہ کردیا۔ قصر اور کنواں ویران ہوگیا۔ ابوروق نے ضحاک کے حوالے سے بیان کیا وہ کنواں حضرموت کے ایک شہر میں تھا۔ شہر کا نام حاصورا تھا۔ یہ شہر ان چار ہزار مؤمنوں نے آباد کیا تھا جو حضرت صالح کے ہم رکاب حضرموت میں آگئے تھے اسی حضرموت میں حضرت صالح کی وفات ہوگئی اسی لئے اس بستی کو حضرموت کہنے لگے (یعنی حضرت صالح یہاں آئے اور یہیں مرگئے) آپ کی وفات کے بعد لوگوں نے (ایک حصار فصیل قائم کردی یعنی) حاصورا کی تعمیر کی اور کنویں پر مستقل قیام کرلیا اور اپنے آدمیوں میں سے ایک شخص کو امیر اور حاکم بنا لیا مدت دراز تک رہتے رہے نسلیں بڑھیں اور آبادی وسیع ہوگئی۔ آخر کچھ لوگ بگڑ گئے اور بتوں کی پوجا کرنے لگے۔ اللہ نے ان کی ہدایت کے لئے حنظلہ بن صفوان کو نبی بنا کر بھیجا۔ حضرت حنظلہ قلی تھے لوگوں کا بوجھ اٹھایا کرتے تھے ‘ آپ نے نصیحت کی۔ قوم نے نصیحت نہ مانی ‘ تکذیب کی اور بازار میں آپ کو قتل کردیا ‘ نتیجہ میں اللہ نے ان کو بھی تباہ کردیا ‘ ان کے محل ویران اور کنویں بیکار پڑے رہ گئے۔
Top