Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 66
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ١٘ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَحْيَاكُمْ : زندہ کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يُمِيْتُكُمْ : مارے گا تمہیں ثُمَّ : پھر يُحْيِيْكُمْ : زندہ کرے گا تمہیں اِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ : بڑا ناشکرا
اور وہی تو ہے جس نے تم کو حیات بخشی۔ پھر تم کو مارتا ہے۔ پھر تمہیں زندہ بھی کرے گا۔ اور انسان تو بڑا ناشکر ہے
وہو الذی احیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم اور وہی تو ہے جس نے تم کو زندگی عطا کی پھر تم کو مردہ کر دیتا ہے پھر تم کو زندہ کرے گا۔ یعنی تم پہلے جمادی حالت میں تھے پھر غذا سے اس نے نطفہ بنایا پھر نطفہ کو بستہ کر کے لوتھڑا بنایا پھر بوٹی بنا دی پھر جسم بنا دیا پھر اس میں جان ڈال دی ‘ پھر جب تمہاری مدت حیات پوری ہوجائے گی تو تمہارے بدن سے جان کھینچ لے گا ‘ پھر دوبارہ جسم بنا کر اسی میں جان ڈال دے گا۔ یہ زندگی آخرت میں ملے گی۔ ان الانسان لکفور۔ بیشک انسان (یعنی مشرک) بڑا منکر نعمت ہے اللہ کی نعمتیں سامنے ہیں پھر بھی انکار کرتا ہے ‘ نہ ابتدائی پیدائش کی نعمتوں کا اقرار کرتا ہے نہ مرنے کی نعمت کا حالانکہ یہ موت دوسری مقررہ زندگی سے قریب کردیتی ہے نہ آخرت کی زندگی کی نعمت کا اس کو اعتراف ہے جو مقصود (بقاء دوام) تک پہنچانے والی ہے۔ (خلاصہ یہ کہ موت بھی ایک نعمت ہے اگر موت نہ ہوتی تو دوسری زندگی کے دروازے میں داخلہ کیسے ملتا اور دوسری زندگی نہ ہوتی تو جنت کا داخلہ اور مقام قرب کا حصول کیسے ممکن ہوتا) یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے وجود ‘ وحدانیت ‘ ربوبیت اور کمال قدرت و علم کے دلائل موجود ہیں پھر بھی مشرک انکار کرتا ہے اور اپنے رب کی وحدانیت کو نہیں مانتا۔
Top