Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 103
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚ
وَمَنْ : اور جو۔ جس خَفَّتْ : ہلکی ہوئی مَوَازِيْنُهٗ : اس کے تول (پلہ) فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جن کے بوجھ ہلکے ہوں گے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا، ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے
ومن خفت موازینہ فاولئک الذین خسروا انفسہم فی جہنم خلدون۔ اور جن لوگوں کی میزانیں ہلکی ہوں گی تو وہ ایسے ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی جانوں کو گھاٹے میں رکھا ‘ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ یعنی جن کے اچھے اعمال ہلکے ہوں گے یا اچھے اعمال کا پلڑہ ہلکا ہوگا ایسا کہ ان کی نیکیوں کا کوئی وزن ہی نہ ہوگا ایسے لوگ لامحالہ کافر ہی ہوں گے۔ بزار اور بیہقی نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن آدم کے بیٹے کو لا کر میزان کے دونوں پلڑوں کے درمیان کھڑا کیا جائے گا اور ایک فرشتہ کو میزان پر مقرر کردیا جائے گا اب اگر اس کی میزانیں بھاری نکلیں تو وہ فرشتہ ایسی آواز سے جس کو ساری مخلوق سنے گی کہے گا ‘ فلاں شخص خوش نصیب ہوگیا اس کے بعد کبھی بدنصیب نہ ہوگا اور اگر اس کی میزانیں ہلکی نکلیں تو وہ فرشتہ ایسی آواز سے جس کو ساری مخلوق سنے گی کہے گا فلاں شخص بد نصیب ہوگیا آئندہ اس کے بعد کبھی خوش نصیب نہ ہوگا۔ اس حدیث میں خفت سے مراد ہے بالکل وزن نہ ہونا۔ میں کہتا ہوں شاید گناہگار مؤمنوں کے اعمال دو بار تولے جائیں گے اگر اس کی نیکیوں میں کسی قدر ہلکا پن ہوگا تو اس کو اس وقت تک کے لئے دوزخ میں داخل کردیا جائے گا کہ وہ پاک صاف ہوجائے پھر پاک صاف ہونے کے بعد اس کے اعمال کی پھر تول کی جائے گی اس وقت اس کی میزانیں بھاری نکلیں گی تو فرشتہ ندا دے گا فلاں شخص خوش نصیب ہوگیا اس کے بعد کبھی بد نصیب نہ ہوگا۔ ہم نے سورت القارعہ میں اس مبحث کی کسی قدر تحقیق کردی ہے۔ آیت میں مندرجہ بالا میں صرف کفار مراد ہیں اس کی دلیل اس سے آگے آنے والی آیت ہے فرمایا ہے فَاُولٰءِکَ الَّذِیْنَ ۔۔ کہ یہی وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے خود اپنا نقصان کیا اور نفس کو کامل کرنے کا جو وقت تھا وہ کھو دیا۔
Top