Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 3
اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً١٘ وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ١ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيْ : بدکار مرد لَا يَنْكِحُ : نکاح نہیں کرتا اِلَّا : سوا زَانِيَةً : بدکار عورت اَوْ مُشْرِكَةً : یا مشرکہ وَّالزَّانِيَةُ : اور بدکار عورت لَا يَنْكِحُهَآ : نکاح نہیں کرتی اِلَّا زَانٍ : سوا بدکار مرد اَوْ مُشْرِكٌ : یا شرک کرنیوالا مرد وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (یعنی بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے
(بقیہ حاشیہ آیت نمبر 2) مسئلہ جس عورت سے نکاح حرام ہے اور کسی نے اس سے نکاح کرلیا اور صحبت کرلی تو امام ابوحنیفہ (رح) امام زفر (رح) اور سفیان ثوری کے نزدیک زنا کی حد اس پر جاری نہ ہوگی لیکن اس جرم کی سزا اس کو بہت ہی شدید دی جائے گی (جو حد زنا سے بھی زیادہ سخت ہوگی) ۔ میں کہتا ہوں اس کو قتل کردینے کا فیصلہ زیادہ مناسب ہے تاکہ حدیث کا اتباع ہوجائے۔ امام شافعی (رح) ‘ امام ابو یوسف ‘ امام محمد ‘ امام احمد اور امام مالک کا قول ہے کہ اگر حرمت نکاح کا علم رکھتے ہوئے نکاح کیا ہو تو حد زنا جاری کی جائے گی کیونکہ اس نے ایسی عورت سے صحبت کی جس کی حرمت اجماعی ہے کسی کو اس کی حرمت میں اختلاف نہیں نہ ملک ہے نہ ملک کا شبہ۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہر عورت محل نکاح ہے اس نے عورت سے ہی نکاح کیا ہے ہاں بعض عورتیں نکاح مخصوص کا محل نہیں ہیں اسی لئے ان سے نکاح باطل ہے اس لئے شبہ پیدا ہوگیا ‘ شبہ اسی کو کہتے ہیں جو حقیقت سے مشابہت رکھتا ہو لیکن جو حقیقت کی مشابہت رکھتا ہو وہ حقیقت تو نہیں بن جاتا پس شبہ نہیں چاہتا کہ کسی طور پر اس کی حلت ہوسکتی ہو (قطعاً حرام ہونے کی صورت میں بھی حلت کا شبہ ہوسکتا ہے) اور جب شبہ ملک پیدا ہوگیا تو یہ فعل زنا نہیں ہوا ‘ اس لئے حد زنا اس پر جاری نہ ہوگی۔ رہی یہ بات کہ یہ عمل زنا سے زیادہ سخت ہے تو اس عمل کی شدت اس بات کا تقاضا نہیں کرتی کہ اس کو زنا کی سزا دی جائے۔ حدود تو اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں۔ دیکھو تہمت زنا لگانے کی سزا شرعاً اسّی کوڑے مقرر ہے اور تہمت کفر تہمت زنا سے زیادہ سخت ہے مگر اس کی کوئی سزا شرعاً مقرر نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے غیبت کو زنا سے زیادہ سخت قرار دیا ہے اور فرمایا ہے غیبت زنا سے زیادہ سخت ہے۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان ‘ عن ابی سعید و جابر (اس کے باوجود غیبت کی کوئی شرعی سزا مقرر نہیں) ۔ جن عورتوں سے نکاح حلال نہیں ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے نکاح کی حرمت دوامی ہو کبھی ان سے نکاح حلال نہ ہو خواہ نسبی قرابت دار ہوں یا رضاعی یا سسرالی رشتہ دار ہوں (مثلاً ماں ‘ دادی ‘ نانی ‘ تمام اصول اور بیٹی پوتی نواسی تمام فروع اسی طرح تمام رضاعی محرمات یعنی رضاعی ماں کے تمام اصول و فروع وغیرہ اور منکوحہ موطوءہ بیوی کے تمام اصول و فروع وغیرہ) لیکن اگر صحت نکاح اختلافی ہو۔ جیسے بلا گواہوں کے نکاح تو ان سے نکاح حد زنا کو ساقط کردیتا ہے کیونکہ تمام علماء کے نزدیک اس میں (ملکیت کا) شبہ ہے اگر نکاح کی حرمت تو متفق علیہ ہو لیکن یہ حرمت دوامی نہ ہو ‘ جیسے آزاد عورت پر باندی سے نکاح یا مجوسی عورت سے نکاح یا کسی باندی سے اس کے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح یا غلام کا اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح یا دوسرے کی منکوحہ سے نکاح یا اس عورت سے نکاح جو کسی کی مطلقہ ہو اور عدت میں ہو یا اس کا شوہر مرگیا ہو اور وہ عدت میں ہو یا بی بی کو تین طلاقیں دینے کے بعد (بغیر حلالہ کئے) اس سے نکاح یا بی بی سے نکاح ہوتے ہوئے سالی سے نکاح یا بی بی کو طلاق دینے کے بعد اس کی عدت کے زمانہ میں سالی سے نکاح یا چار بیبیوں کے باوجود پانچویں سے نکاح یہ سب نکاح حرام ہیں مگر حرمت دوامی نہیں ہے ‘ اس لئے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ان محرمات سے نکاح (اور نکاح کے بعد صحبت) حد زنا کا موجب نہیں ‘ صاحبین کے دو قول مروی ہیں ایک روایت میں ان سے نکاح کو موجب حد کہا گیا ہے اور دوسری روایت میں صاحبین کا قول امام صاحب کے قول کے موافق کہا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو طحاوی نے بیان کی ہے کہ ایک شخص نے کسی عورت سے اس کی عدت کے زمانے میں نکاح کرلیا ‘ یہ معاملہ حضرت عمر ؓ تک پہنچا ‘ آپ نے اس کو پٹوایا مگر حد زنا سے کم اور عورت کو مہر دلوایا اور دونوں میں تفریق کرا دی اور فرمایا آئندہ یہ دونوں کبھی جمع نہیں ہوں گے۔ محارم سے نکاح کرنے کے مسئلہ میں حضرت جابر ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ ایسے شخص کی گردن مار دی جائے امام احمد اور اسحاق اور اہل ظاہر کا بھی یہی قول ہے۔ لیکن ابن حزم نے قتل کی سزا صرف اس شخص کے لئے تجویز کی ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے (باپ کے مرنے کے بعد) نکاح کیا ہو کیونکہ حدیث میں قتل کی سزا کا حکم اسی شخص کے متعلق ہوا تھا جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کرلیا تھا دوسری روایت میں امام احمد کا قول آیا ہے کہ ایسے آدمی کی گردن مار دی جائے اور مال ضبط کرلیا جائے۔ کیونکہ حضرت براء بن عازب کا بیان ہے کہ میں اپنے ماموں سے ملا اس وقت وہ ایک جھنڈا لئے کہیں جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا آپ کہاں جانے کا ارادہ کر رہے ہیں ‘ انہوں نے جواب دیا مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔ حضور ﷺ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس کی گردن مار دوں اور اس کا مال لے لوں۔ رواہ ابو داؤد والترمذی۔ ترمذی نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ طحاوی نے بعض طریقوں سے اس کو بیان کیا ہے لیکن ان میں مال پر قبضہ کرلینے کا ذکر نہیں ہے۔ بعض طریقوں میں مال پر قبضہ کرلینے کا ذکر ہے۔ ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی محرم عورت پر پڑجائے اس کو قتل کر دو ۔ معاویہ بن قرہ نے اپنے باپ کی روایت سے بیان کیا کہ (قرہ کے باپ یعنی) میرے دادا معاویہ ؓ : کو حضور ﷺ نے ایک ایسے شخص کی گردن مار دینے اور اس کے مال پر قبضہ کرلینے کے لئے بھیجا جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کرلیا تھا۔ حنفیہ ان تمام احادیث کے جواب میں کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی حدیث میں زنا کی مقرر حد جاری کرنے کا حکم نہیں ہے نہ کوڑے مارنے کا نہ سنگسار کرنے کا نہ کسی محرم عورت سے صحبت کرنے کا ذکر ہے۔ صرف محرم عورت سے نکاح کرلینے کا بیان ہے اور محرم سے صرف نکاح کرلینا باجماع علماء سزا زنا کا موجب نہیں اس لئے کہنا پڑے گا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو قتل کرنے اور اس کا مال چھین لینے کا حکم محض سیاست کے طور پر دیا تھا یا یوں کہا جائے کہ جس شخص نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تھا اس نے اس نکاح کو حلال سمجھ کیا تھا ‘ جاہلیت کے دور میں لوگ ایسا ہی سمجھتے تھے۔ پس حرام قطعی کو حلال سمجھنے والا مرتد ہوگیا اور ممکن ہے وہ محارب (اسلام کے خلاف جنگ کرنے والا) بھی ہوگیا ہو اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اس کو قتل کرنے اور اس کے مال پر قبضہ کر کے بیت المال میں داخل کرنے کا اور پانچواں حصہ نکالنے کا حکم دیا۔ مسئلہ اگر اجرت ٹھہرا کر کسی عورت سے زنا کیا تو حد جاری نہ ہوگی یہ شبۂ عقد کی صورت ہے البتہ تعزیر (سیاسی سزا) دی جائے گی ‘ امام ابوحنیفہ (رح) : کا یہی قول ہے جمہور کے نزدیک حد زنا جاری کی جائے گی۔ عقد اجارہ سے حلت زنا نہیں ہوسکتی اجرت زنا مقرر کر کے زنا کرنا ایسا ہی ہے جیسے کھانا پکانے کے لئے اجرت پر کسی عورت کو مقرر کرنا اور پھر اس سے زنا کرنا (اجرت بجائے خود اجرت ہے اور زنا بہرحال زنا) ۔ امام صاحب نے فرمایا اجرت زنا مقرر کرنے میں بیشک نفع اندوزی معقود علیہ ہوتی ہے لیکن محل اجرت مقرر ہے جو عقد اجارہ کا محل ہوتا ہے تو گویا یہ اجارہ منافع اجارۂ عین کی طرح ہے (جیسے کوئی گھوڑا یا مکان استعمال کے لئے کرایہ پر لیا محل اجارہ مقرر ہے نفع اندوزی عقد اجارہ کا نتیجہ ہے لیکن محل اجارہ معین ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ منافع اجارۂ عین کی طرح ہے) اس لئے شبہِ (ملکیت) پیدا ہوگیا۔ کھانا پکانے کی اجرت کی یہ حالت نہیں ہوتی اس میں تو اجارہ کی نسبت استیفاء جماع کی طرف نہیں ہوتی اس لئے یہاں شبہ عقد (نکاح) نہیں ہوسکتا جب اجارہ کی نسبت دوسرے محل (کھانا پکانے) کی طرف کی تو شبہ عقد کیسے ہوسکتا ہے۔ مسئلہ علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ زنا کے ثبوت کے لئے چار مردوں کی شہادت ضروری ہے عورتوں کی شہادت سے ثبوت زنا نہیں ہوتا اور چار مردوں سے کم کی شہادت بھی کافی نہیں ہے اللہ نے فرمایا ہے (فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ ) عورتوں کے زنا پر اپنے میں سے (یعنی مسلمانوں میں سے) چار مردوں کی شہادت لو۔ دوسری آیت میں ہے (لَوْ لاَ جَاؤْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُہَدآءَ ) انہوں نے اس بات پر چار مرد گواہ کیوں پیش نہیں کئے۔ مسئلہ اگر چار مردوں نے الگ الگ (متفرق اوقات یا متعدد مجالس میں) شہادت دی تو امام شافعی (رح) کے نزدیک ثبوت زنا ہوجائے گا اور حد زنا جاری کردی جائے گی۔ دوسرے تینوں اماموں کے نزدیک زنا کا ثبوت نہ ہوگا اور شاہدوں کو تہمت زنا لگانے والا قرار دیا جائے گا کیونکہ ابتداء میں ایک گواہ یا دو گواہ یا تین گواہ پیش ہوئے تھے اس وقت نصاب شہادت پورا نہ تھا اور شہادت واجب الرد ہوگئی اور جب قلت تعداد کی وجہ سے ان کی شہادت رد کردی گئی تو دوبارہ صرف اس وجہ سے کہ چوتھا شاہد بھی آگیا اور اس نے شہادت دے دی رد شدہ شہادتوں کو قبول نہیں کیا جاسکتا پہلی شہادتوں کا اعتبار تو ختم ہوگیا اگر گواہ آئے تو الگ الگ پھر شہادت دینے کے وقت سب جمع ہوگئے اور سب نے ساتھ شہادت دی تو امام احمد کے نزدیک ایسی شہادت قبول کرلی جائے گی لیکن امام مالک اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک چاروں گواہوں کا ساتھ آنا اور ساتھ ساتھ شہادت دینا ضروری ہے اس لئے الگ الگ آنے والے لوگوں کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی گو شہادت کے وقت سب کا اجتماع ہوجائے۔ مسئلہ کیا اقرار کی صورت میں متعدد بار اقرار ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ امام احمد اور اکثر علماء کے نزدیک اقرار کا تعدد لازم ہے۔ عاقل بالغ شخص (ثبوت شہادت نہ ہونے کی صورت میں) اگر خود چار مرتبہ اقرار کرے گا تو ثبوت زنا ہوجائے گا اس تعداد سے کم اقرار کافی نہیں ہے۔ پھر امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ایک ہی مجلس میں چار بار اقرار کرنا بھی کافی نہیں ہے ہر اقرار کی مجلس بھی الگ ہونی چاہئے ثبوت زنا میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ امام احمد اور ابو لیلی (رح) کے نزدیک چار مرتبہ اقرار خواہ ایک ہی مجلس میں ہو ثبوت زنا کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ صحیحین میں بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ : مسجد میں تشریف فرما تھے ‘ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے پکار کر کہا یا رسول اللہ ﷺ میں نے زنا کیا ہے حضور ﷺ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا ‘ وہ شخص گھوم کر پھر حضور ﷺ کے سامنے آگیا اور کہا میں نے زنا کیا ہے۔ آپ نے پھر منہ پھیرلیا۔ جب اس نے چار مرتبہ زنا کا اقرار کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کیا تجھے جنون ہے اس نے جواب دیا نہیں۔ فرمایا کیا تیری شادی ہوگئی ہے ‘ اس نے عرض کیا جی ہاں ‘ اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا اس کو لے جاؤ اور سنگسار کر دو ۔ الحدیث۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اپنے استدلال میں وہ حدیث پیش کی جو حضرت بریدہ ؓ کی روایت سے مسلم نے بیان کی ہے کہ حضرت ماعز ؓ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے (اور مرتکب زنا ہونے کا اقرار کیا) حضور ﷺ نے ان (کے اقرار) کو رد کردیا ‘ دوسرے روز وہ پھر حاضر ہوئے ‘ آپ نے پھر بھی (ان کے اقرار کو) رد کردیا۔ پھر ان کے قبیلے کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کرایا کہ کیا ماعز کی عقل میں کچھ خرابی ہے۔ قبیلہ والوں نے کہا ہم تو ان کو کامل العقل اور نیک جانتے ہیں تیسری مرتبہ پھر ماعز۔ خدمت گرامی میں حاضر ہوئے (اور پہلے کی طرح اقرار زنا کیا) آپ نے پھر ان کے قبیلہ والوں سے دریافت کرایا (کیا ماعز کی عقل میں کچھ فتور ہے) قبیلہ والوں نے کہا نہ اس میں کوئی خرابی ہے نہ اس کی عقل میں۔ جب چوتھی مرتبہ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا (کہ ماعز نے حاضر ہو کر اپنے زانی ہونے کا اقرار کیا) تو آپ ﷺ نے ایک گڑھا کھدوا کر (ماعز کو اس میں کھڑا کر کے) سنگسار کرا دیا۔ امام احمد ‘ اسحاق بن راہویہ اور مصنف میں ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوبکر ؓ کی روایت سے بیان کیا میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا کہ ماعز نے حاضر ہو کر ایک بار (زنا کا) اقرار کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو رد کردیا ‘ ماعز پھر آئے اور آکر دوبارہ اقرار کیا آپ نے پھر بھی لوٹا دیا پھر آئے اور تیسری بار اقرار کیا۔ میں نے ماعز سے کہا اب اگر چوتھی بار تم نے اقرار کیا تو حضور ﷺ تم کو سنگسار کردیں گے مگر ماعز نے چوتھی بار بھی اقرار کیا اس وقت حضور ﷺ نے اس کو قید کردیا اور اس کے متعلق (قبیلہ والوں سے) دریافت کیا (کہ یہ کیسا آدمی ہے اس کو جنون تو نہیں ہے) سب نے کہا ہم کو تو (اس کے اندر) بھلائی ہی معلوم ہے آخر حضور ﷺ نے اس کو سنگسار کرا دیا۔ اس حدیث سے بھی صراحتاً معلوم ہو رہا ہے کہ ماعز متعدد مرتبہ آئے اور تعدد آمد بغیر غائب ہوئے ممکن نہیں اسی لئے حنفیہ قائل ہیں کہ اگر غائب ہو کر پھر لوٹ آئے تو یہ دوسری مجلس مانی جائے گی۔ ابن حبان نے صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ماعز بن مالک رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں بدکار مرتکب زنا ہوگیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تیرا برا ہو تو نہیں جانتا کہ زنا کیا ہوتا ہے پھر حسب الحکم ماعز کو دھتکار کے (مجلس سے) باہر کردیا گیا لیکن اس نے دوبارہ آکر وہی پہلی بات کہی اور حضور ﷺ نے بھی حکم دے کر دھتکار کر اس کو نکلوا دیا ماعز پھر تیسری مرتبہ آئے اور وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی اور حضور ﷺ نے حکم دے کر دھکے دلوا کر اس کو نکلوا دیا آخر میں ماعز نے جب چوتھی بار آکر وہی پہلی بات کہی تو حضور ﷺ نے فرمایا کیا تو نے دخول و خروج کیا ماعز نے جواب دیا جی ہاں اس وقت حضور ﷺ نے اس کو سنگسار کردینے کا حکم دے دیا۔ یہ حدیث اور اس جیسی دوسری حدیثیں جن کا ذکر موجب طوالت ہے صاف طور پر تعدد مجالس پر دلالت کر رہی ہیں اس لئے اوّل الذکر حدیث کو بھی ہم تعدد مجالس پر محمول کریں گے اور پہلی حدیث میں جو آیا ہے کہ ماعز ہٹ کر رسول اللہ ﷺ کے منہ کے سامنے آگئے اس کو اقرار اوّل کا ہی ایک حصہ شمار کریں گے کیونکہ مجلس نہیں بدلی تھی اس سے آگے جو ذکر کیا گیا ہے کہ ماعز نے چار شہادتیں دیں (چار مرتبہ اقرار کیا) تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چار مجالس میں اقرار کیا تھا اس طرح سب روایات میں مطابقت ہوجائے گی۔ امام مالک ‘ امام شافعی ‘ ابو ثور ‘ حسن اور حماد بن سلیمان کے نزدیک ایک بار اقرار کرنے سے ہی زنا کا ثبوت ہوجاتا ہے کیونکہ حضرت زید بن خالد اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ حدیث میں آیا ہے کہ (جب مزدور نے صاحب خانہ کی بیوی سے زنا کا اقرار کیا تو) رسول اللہ ﷺ نے (حضرت انس سے) فرمایا اس عورت کے پاس جاؤ۔ اگر وہ اقرار کرلے تو اس کو سنگسار کر دو ۔ حضرت انس نے جا کر اس سے دریافت کیا اس نے اقرار کرلیا حضرت انس ؓ نے اس کو سنگسار کردیا۔ ان علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ غامدیہ عورت کے قصہ میں ایک بار اقرار کرنے کا ذکر ہے معلوم ہوا کہ ثبوت زنا کے لئے ایک بار اقرار کرنا کافی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا تھا کہ اگر وہ اقرار کرلے تو اس کو سنگسار کردینا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ایسا اقرار کرلے جو حد زنا کے لئے قابل قبول (یعنی چار بار اقرار کرلے) تو اس کو سنگسار کردینا۔ یہ تفصیل حضور ﷺ نے اس لئے بیان نہیں کی کہ آپ واقف تھے کہ صحابہ اس کو جانتے ہیں۔ ماعز وغیرہ کا واقعہ صحابہ کے سامنے گزر ہی چکا تھا۔ باقی یہ کہنا کہ غامدیہ عورت کے قصہ میں صرف ایک بار اقرار کرنے کا ذکر ہے قابل تسلیم نہیں ہے بلکہ ابو داؤد اور نسائی کی روایت میں تو یہ بھی آیا ہے کہ صحابہ آپس میں کہتے تھے کہ ماعز اور غامدیہ عورت اگر اقرار کے بعد بھی لوٹ جاتے تو حضور ان سے مواخذہ نہ کرتے۔ آپ نے چار مرتبہ اقرار کے بعد ہی دونوں کو رجم کرایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل ثابت کر رہا ہے کہ غامدیہ عورت نے چار بار اقرار کیا تھا۔ البتہ اس کی تفصیل کسی روایت میں نہیں آئی۔ ہاں بزار نے مسند میں زکریا بن سلیم کی وساطت سے کسی قریشی بوڑھے کے حوالہ سے بروایت عبدالرحمن بن ابی بکرہ ‘ ابوبکرہ کا بیان نقل کیا ہے کہ غامدیہ عورت نے چار مرتبہ اقرار کیا تھا اور ہر مرتبہ رسول اللہ ﷺ اس کو رد کرتے رہے پھر آخر میں اس سے فرمایا جا اور وضع حمل کا انتظار کر۔ اس روایت میں ایک راوی مجہول ہے اس لئے ابو داؤد و نسائی کی روایت کی کمی اس سے پوری نہیں ہوسکتی۔ مسئلہ حاکم کے لئے مستحب ہے کہ اقرار زنا کرنے والے کو پردے پردے میں اقرار سے لوٹ جانے کی تعلیم دے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ماعز سے فرمایا شاید تو نے بوسہ لیا ہوگا ‘ شاید تو نے چھو لیا ہوگا۔ مسئلہ چار مرتبہ اقرار کرنے کے بعد حد جاری ہونے سے پہلے یا حد جاری ہونے کے بعد اقرار سے لوٹ جائے تو تینوں اماموں کے نزدیک اس کا رجوع قبول کیا جائے گا اور حد ساقط ہوجائے گی۔ امام مالک (رح) کے اس مسئلہ میں دو قول مروی ہیں (منفی ‘ مثبت) ائمہ کی دلیل یہ ہے کہ اقرار کی طرح خبر میں سچے اور جھوٹے ہونے کا احتمال ہے اور تکذیب کرنے والا کوئی شخص موجود نہیں ہے اس لئے اقرار کے بعد انکار کی وجہ سے اقرار میں شبہ پیدا ہوجائے گا اور حدود و شبہات سے ساقط ہوجاتی ہے۔ ہاں جن مسائل میں حق عبد موجود ہو اور اللہ کے حق کے ساتھ بندے کا حق بھی اس سے متعلق ہو) تو اقرار کے بعد انکار معتبر نہیں مثلاً قصاص اور تہمت زنا کی حد کا سقوط نہیں ہوسکتا کیونکہ اس صورت میں انکار کی تکذیب کرنے والا شخص (مدعی) موجود ہوتا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت یزید بن منعم کی روایت سے حضرت ماعز کے قصہ کی جو تفصیل بیان کی ہے اس میں راوی کا یہ قول بھی منقول ہے کہ پتھر لگنے سے ماعز کو جب چوٹ کی تکلیف محسوس ہوئی تو وہ تیزی کے ساتھ بھاگ نکلے۔ سب مارنے والے لوگ پکڑ نہ سکے صرف عبداللہ بن انیس نے ماعز کو جا لیا اور اونٹ کے پاؤں کی ہڈی ماعز کے پھینک ماری جس سے وہ ختم ہوگئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا تم لوگوں نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا۔ شاید وہ توبہ کرلیتا اور اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا اور گناہ معاف فرما دیتا) ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حضرت ماعز ؓ کا جو قصہ بیان کیا ہے وہ اسی جیسا ہے 1 ؂۔ فصل مسئلہ اگر مریض زنا کرلے اور رجم کا مستحق ہوجائے تو اس کو سنگسار کردیا جائے گا۔ بیماری کا عذر مانع نہ ہوگا کیونکہ رجم کا مقصد ہی ہلاک کردینا ہے لیکن اگر زانی مریض سزائے تازیانہ کا مستحق ہو تو صحت یاب ہونے تک سزا کو ملتوی رکھا جائے گا تاکہ سزا موجب ہلاکت نہ ہوجائے۔ اگر زانی مریض ایسے مرض میں مبتلا ہو جس سے صحت یاب ہونے کی امید ہی نہ ہو۔ مثلاً سل کے مرض میں مبتلا ہو یا پیدائشی طور پر ضعیف ہو تو امام ابوحنیفہ اور امام شافعی (رح) کے نزدیک ایک ایسا گچھا جس میں سو قمچیاں ہوں لے کر ایک مرتبہ اس گچھے سے اس کو اس طرح مار دیا جائے کہ ہر قمچی اس کے بدن پر پڑجائے۔ جیسا کہ بغوی نے شرح السنتہ میں اور ابن ماجہ نے حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف کی وساطت سے حسب روایت سعید بن سعد بن عبادہ بیان کیا ہے کہ ہماری باندیوں میں ایک مرد رہتا تھا جو پیدائشی طور پر بہت کمزور تھا ایک روز دیکھتے کیا ہیں کہ وہ ایک باندی پر پڑا ہوا فعل گناہ میں مشغول ہے۔ حضرت سعد بن عبادہ نے اس کا واقعہ رسول اللہ ﷺ : تک پہنچا دیا حضور ﷺ نے فرمایا اس کے سو کوڑے مارو۔ حضرت سعد نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ‘ وہ تو بہت ہی کمزور ہے اگر ہم اس کے سو کوڑے ماریں گے تو وہ یقیناً مرجائے گا فرمایا تو ایک گچھا جس میں سو قمچیاں ہوں ایک بار اس کے مارو پھر اس کو نکال دو ۔ ابو داؤد نے یہ حدیث حضرت ابو امامہ بن سہل کی روایت سے ایک انصاری کے حوالہ سے بیان کی ہے اور نسائی نے بروایت ابو امامہ بن سہل عن ابیہ (یعنی سہل کی وساطت سے) اور طبرانی نے بروایت ابو امامہ بحوالۂ ابو سعید خدری بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے یہ تمام طرق روایت محفوظ ہیں گویا ابو امامہ نے صحابہ کی ایک جماعت کی روایت سے اس کو بیان کیا ہے اور بیہقی نے اس کو ابو امامہ سے مرسلاً بیان کیا ہے۔ مسئلہ حاملہ عورت کو زنا کی سزا میں وضع حمل سے پہلے حد زنا نہیں ماری جائے گی تاکہ پیٹ کا بچہ ہلاک نہ ہوجائے اگر وہ سزائے تازیانہ کی مستحق ہو تو نفاس سے فراغت سے پہلے اس کو کوڑے نہ مارے جائیں حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا تھا لوگو اپنے باندی غلاموں پر حد شرعی جاری کرو۔ شادی شدہ ہو یا ناکت خدا۔ رسول اللہ ﷺ : کی ایک باندی نے جب زنا کیا تھا تو حضور ﷺ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں اس کے کوڑے ماروں لیکن نفاس شروع ہوئے اس کو تھوڑا ہی زمانہ گزرا تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں اس کے کوڑے ماروں گا تو یہ مرجائے گی۔ میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا فرمایا تم نے خوب کیا۔ رواہ مسلم۔ ابو داؤد کی روایت اس طرح ہے اس وقت تک باندی کو رہنے دو کہ اس کا خون بند ہوجائے پھر اس پر حد جاری کرنا اور اپنے باندی غلاموں پر حد زنا قائم کرتے رہنا۔ اور اگر نفاس میں مبتلا عورت کی سزا رجم ہو تو اس کو سنگسار کردیا جائے گا۔ کیونکہ بچہ پیدا ہوچکا اور وہ رجم کی مستحق ہے اس کو تو مرنا ہی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا عورت کو رجم کرنے میں اتنی مدت تاخیر کی جائے گی کہ بچہ کو اس کی ضرورت نہ رہے کیونکہ اگر کوئی شخص بچہ کی تربیت کا ذمہ دار نہ ہوگا تو وہ ہلاک ہوجائے گا اس لئے بچہ کی حفاظت کے لئے۔ اس صورت میں ماں کا ہونا ضروری ہے مسلم نے حضرت بریدہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ غامدیہ عورت کے رجم کرنے کو وضع حمل تک حضور ﷺ نے ملتوی کردیا تھا۔ ایک انصاری نے اس کی ذمہ داری لے لی جب بچہ پیدا ہوگیا تو انصاری نے آکر اطلاع دی کہ بچہ پیدا ہوگیا فرمایا ابھی اس کو رجم نہ کرو کیونکہ اس صورت میں شیر خوار بچہ رہ جائے گا اور کوئی دودھ پلانے والی نہ ہوگی یہ سن کر ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ﷺ اس کو دودھ پلوانا میرا ذمہ ہے ‘ انصاری کی بات سن کر حضور ﷺ نے غامدیہ کو سنگسار کرا دیا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غامدیہ سے فرمایا جا اور اس وقت تک انتظار کر کہ بچہ پیدا ہوجائے جب بچہ پیدا ہوگیا اور وہ عورت پھر آئی تو حضور ﷺ نے فرمایا جا اور بچہ کو دودھ پلاتی رہ جب دودھ چھڑا دے تو آنا جب غامدیہ نے (مدت پوری کر کے) دودھ چھڑا دیا تو بچہ کو لے کر آئی بچہ کے ہاتھ میں روٹی کی کرچ تھی ‘ عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ اب میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا اور یہ کھانا کھانے لگا ہے حضور ﷺ نے وہ بچہ ایک مسلمان کے سپرد کردیا (تا کہ وہ پرورش کرتا رہے) اس کے بعد ایک گڑھا کھدوا کر جس کی گہرائی عورت کے سینہ تک تھی لوگوں کو حکم دیا کہ اس کو سنگسار کر دو ۔ سب نے سنگسار کردیا۔ آیت فاجْلِدُوْا میں حاکموں کو خطاب ہے اسی لئے امام ابوحنیفہ کے نزدیک کوئی آقا ‘ حاکم کی اجازت کے بغیر اپنے باندی غلام پر حد جاری نہیں کرسکتا ‘ امام شافعی ‘ امام احمد اور امام مالک کا قول اس کے خلاف ہے ایک روایت میں امام مالک کے نزدیک باندی پر اس کا آقا اجازت حاکم کے بغیر حد جاری کرسکتا ہے ہاں اگر باندی کسی کی منکوحہ ہو تو خود حد جاری نہیں کرسکتا۔ امام شافعی (رح) نے کہا کہ اگر آقا کوئی ذمی کافر ہو یا مکاتب ہو یا عورت ہو تو اس کو از خود حاکم کی اجازت کے بغیر حد قائم کرنے کا اختیار نہیں ہے امام شافعی (رح) کا اختلاف ہر حد شرعی کے سلسلہ میں ہے یہاں تک کہ مرتد کو قتل کرنے یا راہزن کو مار ڈالنے یا چور کا ہاتھ کاٹنے کا بھی بغیر حکم کی اجازت کے اختیار ہے ‘ نووی (شافعی) نے کہا صحیح تر یہ بات ہے کہ (بغیر اجازت حاکم کے) اقامت حدود کا حکم عام ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ میں اطلاق ہے (ہر حد کی اقامت کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے) تہذیب میں ہے کہ قطع دست اور قتل کرا دینے کا اختیار صرف حاکم کو ہے یہی صحیح ترین قول ہے۔ تینوں ائمہ نے مندرجۂ ذیل احادیث سے استدلال کیا ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا جس باندی نے زنا کی ہو اور وہ منکوحہ نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے فرمایا اگر اس نے زنا کیا ہو اس کے کوڑے مارو پھر دوبارہ زنا کرے تو کوڑے مارو ‘ پھر بھی زنا کرے تو کوڑے مارو۔ اگر (چوتھی بار پھر) زنا کرے تو اس کو بیچ ڈالو خواہ بالوں کی ایک رسی کے عوض ہی ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جن باندی غلاموں کے تم مالک ہو ان پر حدود جاری کرو۔ رواہ النسائی والبیہقی من حدیث علی ؓ ۔ مسلم میں یہ حدیث حضرت علی ؓ پر موقوفاً آئی ہے۔ امام شافعی (رح) نے روایت کی ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ نے اپنی باندی کے جس نے زنا کیا تھا کوڑے لگوائے تھے (یعنی خود حد زنا جاری کی تھی) ابن وہب نے بوساطت ابن جریج بروایت عمرو بن دینار بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ اپنی باندی کے پچاس کوڑے لگواتی تھیں اگر اس نے ارتکاب زنا کیا ہوتا تھا۔ امام شافعی نے بحوالۂ امام مالک بروایت نافع بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ایک غلام نے چوری کی ‘ حضرت عبداللہ نے سعید بن عاص حاکم مدینہ کے پاس ہاتھ کاٹنے کے لئے بھیج دیا۔ سعید نے غلام کا ہاتھ کاٹنے سے انکار کردیا اور کہا غلام کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگر اس نے چوری کی ہو۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا آپ نے یہ کس کتاب میں پڑھا ہے ‘ پھر آپ نے خود حکم دے دیا اور اس غلام کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ عبدالرزاق نے مصنف میں بروایت معمر از ایوب نافع کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے ایک غلام نے چوری کی تھی اور ایک غلام نے زنا کا ارتکاب کیا آپ نے از خود حاکم کے پاس بھیجے بغیر چور غلام کا ہاتھ کٹوا دیا اور زانی کے کوڑے لگوائے۔ ابن ماجہ نے (چور کے ہاتھ کاٹنے کی) روایت نقل کی ہے لیکن اس میں یہ قصہ حضرت عائشہ ؓ : کا بیان کیا ہے سعید بن منصور نے بروایت ہشیم از ابن ابی لیلیٰ از نافع بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ امام مالک (رح) نے مؤطا میں لکھا ہے اور امام شافعی (رح) نے امام مالک کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ : ؓ مکہ کو تشریف لے گئیں آپ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد کا ایک غلام بھی تھا ‘ اس قصہ میں آیا ہے کہ اس غلام نے چوری کی اور اقرار کیا حضرت عائشہ ؓ کے حکم سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ امام مالک نے مؤطا میں لکھا ہے کہ حضرت حفصہ نے اپنی ایک باندی کو قتل کرا دیا جس نے جادو کیا تھا۔ عبدالرزاق نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد اتنا زائد بیان کیا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان نے اس فعل کو غیر مشروع قرار دیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا آپ ام المؤمنین کے اس عمل کو غیر مشروع قرار دے رہے ہیں جو انہوں نے ایک جادوگر عورت کے سلسلہ میں کیا تھا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اپنے مسلک کے استدلال میں اصحاب السنن کی اس روایت کو پیش کیا جو انہوں نے اپنی کتابوں میں موقوفاً و مرفوعاً لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ نے چار چیزوں کو حاکموں کے اختیار میں دیا ہے۔ حدود ‘ زکوٰۃ (کی وصولی اور تقسیم) صلوٰۃ جمعہ اور مال فے (یعنی مال غنیمت کو جمع کرنا اور تقسیم کرنا) ۔ ولا تاخذکم بہما رافۃ فی دین اللہ اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے۔ رافت بمعنی رحم ‘ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِاللہ کی طاعت میں یعنی اللہ کی قائم کردہ حدود کو ترک نہ کرو رحم کی وجہ سے ان کو جاری کرنا چھوڑ دو ۔ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ عطا ‘ نخعی ‘ شعبی اور سعید بن جبیر نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی قریش کے لئے اس معاملہ نے بڑی پریشان کن حیثیت اختیار کرلی انہوں نے مشورہ کیا کہ کوئی رسول اللہ ﷺ سے اس کی سفارش کردیتا ‘ سب نے کہا کہ سوائے اسامہ بن زید کے جو رسول اللہ ﷺ کے محبوب ہیں اور کوئی اس کی جرأت نہیں کرسکتا۔ چناچہ حضرت اسامہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں گزارش کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم اللہ کی قائم کردہ حد کے متعلق سفارش کر رہے ہو۔ پھر حضور اقدس ﷺ نے (منبر پر) کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا اور فرمایا تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے تباہ کردیئے گئے کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حد جاری کرتے تھے۔ خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ اہل تفسیر نے آیت کی تشریح اس طرح کی ہے کہ تم کو اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑ لے کہ ہلکی مار مارو۔ ایسا نہ کرو بلکہ دردناک مار مارو۔ سعید بن مسیب اور حسن نے یہی تفسیر کی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا زنا کی حد تو سختی سے جاری کی جائے پھر اس سے کم سختی شراب کی حد مارنے میں کی جائے اور تہمت زنا کی سزا میں اور بھی خفت سے کام لیا جائے۔ کیونکہ ممکن ہے تہمت زنا لگانے والا واقع میں سچا ہو (لیکن اپنے قول کو شہادت سے ثابت نہ کرسکا ہو) اور شراب پینے کی حد میں غلطی کا احتمال نہیں ہوسکتا اور زنا کا جرم شراب خواری سے بڑا ہے (اس لئے اس کی سزا کو جاری کرنے میں بہت زیادہ سختی سے کام لینا چاہئے) قتادہ کا قول ہے کہ شراب خواری اور تہمت زنا کی سزا میں خفت برتی جائے۔ زنا کی سزا جاری کرنے میں سختی سے کام لیا جائے۔ زہری نے کہا جرم زنا اور تہمت زنا کی سزا دینے میں سختی کی جائے کیونکہ ان کی سزائیں کتاب اللہ میں مذکور ہیں اور شراب کی سزا میں خفت اختیار کی جائے کیونکہ شراب کی سزا صرف حدیث میں آئی ہے قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے۔ بغوی کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی ایک باندی نے زنا کیا آپ نے اس کے کوڑے لگوائے اور کوڑے مارنے والے سے فرمایا ‘ اس کی پیٹھ اور ٹانگوں پر کوڑے مارنا ‘ آپ کے ایک بیٹے نے کہا لاَ تَاْخُذُکُمْ بِہِمَا رَافَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ (اللہ کا حکم ہے) حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا بیٹے ! اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں اس کو قتل کر دوں۔ میں نے (کوڑے) مار دیئے اور درد پہنچا دیا۔ (اتنا ہی کافی ہے) ۔ ان کنتم تو منون باللہ والیوم الاخر اگر تم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یعنی تمہارا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ہے تو اللہ کے حکم کی تعمیل میں سستی نہ کرو اور اسکی قائم کی ہوئی حدود کو کوشش کے ساتھ جاری کرو۔ ایمان کا یہی تقاضا ہے۔ ولیشہد عذابہما طآئفۃ من المؤمنین۔ اور ان کو سزا دینے کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضرہو تاکہ مجرم کو زیادہ عبرت ہو۔ بعض وقت رسوائی وہ عبرت آفریں اثر کرتی ہے جو سزا نہیں کرتی۔ طآئفۃ ایک گروہ۔ ممکن ہے کہ وہ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو (یعنی تعداد بہت ہو) طائفہ ‘ طواف سے ماخوذ ہے۔ طائفہ کی کم سے کم تعداد بعض علماء نے چار بیان کی ہے۔ جو چار اطراف میں ہوں۔ ہر طرف ایک آدمی۔ بعض نے کہا تین کافی ہیں۔ جمع کی کم سے کم تعداد تین ہے۔ اس مطلب پر طائفۃ ‘ طائف کی جمع ہوگی۔ بعض نے کہا ایک دو پر بھی طائفہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ (اس وقت طائفہ کا معنی ہوگا ایک فریق) ۔ اللہ نے فرمایا ہے وَاِنْ طَآءِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا اگر مسلمانوں کے دو فریق لڑ پڑیں۔ قاموس میں ہے طَائفۃ من الشئٍکسی چیز کا ٹکڑا یا ایک اور زیادہ یا ایک سے ہزار تک یا کم سے کم دو آدمی یا ایک ہی آدمی۔ جب ایک آدمی مراد ہوگا تو نفس کے معنی میں ہوگا۔ میں کہتا ہوں ممکن ہے یہ جمع ہو جس کو بطور کنایہ واحد کہا جاتا ہو۔ یہ بھی صحیح ہے کہ (بطورر مبالغہ) راویہ اور غلام کی طرح مبالغہ کا صیغہ قرار دیا جائے۔ نخعی اور مجاہد نے کہا کم سے کم ایک آدمی اور اس سے زیادہ کو طائفہ کہتے ہیں ‘ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یہ معنی ایک روایت میں منقول ہیں۔ امام احمد ‘ عطا ‘ عکرمہ اور اسحاق نے کہا دو یا اس سے زیادہ طائفہ ہے۔ زہری اور قتادہ کے نزدیک دو اور اس سے زیادہ کو طائفہ کہتے ہیں۔ امام مالک (رح) اور ابن زید نے طائفہ کی تعداد چار بتائی ہے۔ (زنا کے گواہوں کی یہی تعداد ہے۔ حسن بصری نے کہا دس اور اس سے زائد طائفہ ہے۔ میں کہتا ہوں یہی قول صحت کے زیادہ قریب ہے کیونکہ آیت کا مقصد تشہیر ہے۔ الزانی لا ینکح الا زانیۃ او مشرکۃ والزانیۃ لا ینکحہا الا زان او مشرک زنا کرنے والا نکاح نہیں کرتا مگر زنا کرنے والی سے یا شرک کرنے والی سے اور زانیہ سے نکاح نہیں کرتا مگر زانی یا مشرک۔ ابو داؤد ترمذی نسائی اور حاکم نے بروایت عمرو بن شعیب از شعیب از جد عمرو بیان کیا ہے کہ مرثد تام کا ایک آدمی تھا جو مکہ سے قیدیوں کو سوار کر کے لا رہا تھا تاکہ ان کو مدینہ پہنچا دے مکہ میں اس کی ایک عورت دوست تھی جس کا نام عناق تھا مرثد نے رسول اللہ ﷺ سے عناق کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت طلب کی۔ حضور ﷺ نے اس وقت کچھ جواب نہیں دیا ‘ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ نزول آیت کے بعد حضور ﷺ نے مرثد کے سامنے یہ آیت وَحُرِّمَ ذٰلِکَ علَیَ الْمُؤْمِنِیْنَتک تلاوت فرمائی اور فرمایا تم اس سے نکاح مت کرو۔ نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک عورت جس کو ام مہزول کہا جاتا تھا وہ بدکار پیشہ ور عورت تھی کسی صحابی نے اس سے نکاح کرنا چاہا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ سعید بن منصور نے مجاہد کا بیان نقل کیا ہے کہ جس وقت اللہ نے زنا کو حرام کردیا اس زمانہ میں کچھ زنا کار عورتیں تھیں جو خوبصورت تھیں ‘ کچھ لوگوں نے ارادہ کیا کہ جا کر ان سے نکاح کرلیں اس وقت اس آیت کا نزول ہوا۔ بغوی کا بیان ہے کہ جب مہاجر مدینہ میں آئے تو ان میں کچھ لوگ بالکل نادار تھے کچھ مال و متاع نہ تھا اور قبیلہ والے موجود نہ تھے مدینہ میں کچھ پیشہ ور عورتیں رہتی تھیں جو خود فروش تھیں اور اس زمانہ میں مدینہ کے اندر سب سے زیادہ مالدار تھیں کچھ نادار مہاجروں نے ان سے نکاح کرنا چاہا تاکہ ان کے بےمایہ لوگوں کے خرچ کی کفالت وہ عورتیں کرلیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی اجازت طلب اس وقت یہ آیت نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پیشہ ور عورتوں سے نکاح کرنا مؤمنوں کے لئے حرام کردیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ مشرک ہیں۔ یہ تفصیل و تفسیر عطا بن ابی رباح ‘ مجاہد ‘ قتادہ ‘ زہری اور شعبی نے بیان کی اور عوفی کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کا بھی یہی قول آیا ہے۔ میں کہتا ہوں اس کو ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں سعید بن جبیر کی مرسل حدیثوں کے مجموعے سے نقل کیا ہے (یعنی یہ قول مرسل ہے) ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ عکرمہ نے بیان کیا اس آیت کا نزول مکہ اور مدینہ کی چند عورتوں کے حق میں ہوا۔ جن میں سے نو عورتوں کے جھنڈے پیشہ ور عورتوں کی طرح لگے ہوئے تھے جن سے ان کی شناخت ہوجاتی تھی ان میں سے ایک عورت تھی ام مہزول یہ سائب بن ابی السائب مخزومی کی باندی تھی۔ جاہلیت کے زمانہ میں لوگ زنا کار لوگوں سے نکاح کرلیتے تھے پھر ان کی کمائی کھاتے تھے کچھ مسلمانوں نے بھی ان عورتوں سے اسی طور پر نکاح کرنے کا ارادہ کیا (کہ نکاح کے بعد ان کی کمائی کھائیں گے) چناچہ ایک مسلمان نے ام مہزول سے نکاح کرنے کی رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت اور احادیث مندرجۂ بالا کی روشنی میں امام احمد نے فرمایا جب تک زانی اور زانیہ توبہ نہ کرے ان کا نکاح جائز نہیں۔ توبہ کرنے کے بعد ان کو زانی نہیں کہا جائے گا (گناہ سے توبہ کرنے والا بےگناہ کی طرح ہوجاتا ہے۔ الحدیث) ۔ باقی تینوں اماموں کے نزدیک زانی کا نکاح بھی صحیح ہے اور زانیہ کا نکاح بھی۔ (لیکن یہ قول بظاہر مفہوم آیت کے خلاف ہے اس لئے) اس آیت کی تشریح میں تاویل کی گئی ہے بعض نے کہا کہ آیت میں نہی کا صیغہ ہے نفی کی خبر ہے جملہ خبریہ منفیہ ہے (ایک واقعہ اور ایک حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے) زانی فاسق ہوتا ہے اس لئے پاک دامن نیک عورتوں سے نکاح کرنے کی طرف اس کو رغبت نہیں ہوتی اور زانیہ بھی فاسقہ ہوتی ہے اس لئے نیک مردوں کو بھی اس سے نکاح کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا اخلاقی مشابہت اور عملی یکسانیت موجب الفت ہوتی ہے اور خلقی اختلاف باعث نفرت ہوتا ہے۔ تقابلی بیان کا تقاضا تھا کہ الزانیۃ لا ینکحہا الا زانٍکی بجائے الزانیۃ لا تنکح الا من زانٍکہا جاتا لیکن آیت کا منشا چونکہ مردوں کے احوال کا بیان ہے کہ مردوں کو ایسی عورتوں کی رغبت نہیں ہوتی اس لئے اسلوب بیان بدلا گیا۔ وحرم ذلک علی المؤمنین۔ اور یہ فعل مؤمنوں کے لئے حرام کردیا گیا ہے۔ مؤخر الذکر تفسیر کے بموجب اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ مؤمن ایسا فعل نہیں کرتے ایسی حرکت سے بچتے رہتے ہیں اس عمل سے اہل ایمان کو پاک رکھا گیا ہے گویا تحریم سے مراد ہے پاک کردینا۔ تنزیہ اور تطہیر کو بطور مبالغہ تحریم فرمایا ‘ امام مالک کے نزدیک زنا کار سے نکاح مکروہ تحریمی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے بعض علماء کے نزدیک آیت میں نکاح سے مراد ہے جماع۔ آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ زانی زنا نہیں کرتا مگر زانیہ سے یا مشرک سے اور زانیہ زنا نہیں کرتی مگر زانی مشرک سے۔ یہ تفسیری قول سعید بن جبیر اور ضحاک بن مزاحم کا ہے اور والبی نے اس قول کی نسبت حضرت ابن عباس ؓ کی طرف بھی کی ہے۔ زید بن ہارون نے کہا مراد یہ ہے کہ زانی اگر زانیہ سے جماع کو حلال سمجھ کر کرتا ہے تو وہ مشرک (کافر) ہے اور حرام سمجھ کر کرتا ہے تو وہ زانی ہے۔ اس تفسیر پر بھی جملہ منفیہ خبریہ ہوگا (انشائیہ منہیہ نہ ہوگا) ۔ علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ آیت میں نفی بمعنی نہی ہے بلکہ لاینکح کی جگہ لا ینکح (بصیغۂ نہی) بعض قرأتوں میں آیا بھی ہے زانیہ سے حرمت نکاح اپنی جگہ قائم ہے لیکن (ہر شخص کے لئے ممانعت نہیں ہے بلکہ) یہ حرمت ان خاص مہاجروں کے لئے تھی جنہوں نے زنا کار عورتوں سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن یہ تخصیص مہاجرین میرے نزدیک بعید از صحت ہے کیونکہ کلام کا آغاز ممانعت سے کیا گیا ہے اگر ممانعت صرف مہاجروں کے لئے ہوتی تو کلام اس طرح ہوتا کہ مؤمن نکاح نہ کرے مگر صالحہ مؤمنہ سے۔ پھر اقوال صحابہ کی روشنی میں بھی) یہ تخصیص غلط ہے حضرت ابن مسعود ؓ زانیہ سے نکاح کرنے کو حرام قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے جب زانی زانیہ سے نکاح کرلیتا ہے تو ہمیشہ کے لئے دونوں زانی رہتے ہیں۔ حسن نے کہا سزا یافتہ زانی نکاح نہیں کرتا یا نکاح نہ کرے مگر سزا یافتہ زانیہ سے اور سزا یافتہ زانیہ سے نکاح نہیں کرتا یا نکاح نہ کرے مگر سزا یافتہ زانی۔ ابو داؤد نے عمرو بن شعیب کی روایت سے بوساطت ابو سعید مقبری از ابوہریرہ ؓ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سزا یافتہ زانی نکاح نہیں کرتا۔ (یا نکاح نہ کرے) مگر اپنی ہی جیسی سے۔ ان دونوں قولوں کا حاصل یہ ہے کہ حرمت عام ہے اور آیت منسوخ نہیں ہے۔ سعید بن مسیب اور اہل تفسیر کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اسی آیت کی وجہ سے زانیہ سے نکاح حرام تھا لیکن جب آیت وَاَنْکِحُوا الْاٰیَامٰی مِنْکُمْنازل ہوئی تو اس سے حرمت مذکورہ منسوخ ہوگئی (بےشوہری عورتوں سے نکاح کرانے کی اجازت عام ہوگئی) ۔ زانیہ بھی ایامیٰ میں داخل ہے اس سے بھی نکاح جائز ہوگیا۔ زانیہ سے نکاح کا جواز حضرت جابر ؓ کی روایت کردہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جو بغوی نے نقل کی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میری بیوی کسی چھونے والے (یا طلبگار) کے ہاتھ کو دفع نہیں کرتی۔ فرمایا تو اس کو طلاق دے دے ‘ اس شخص نے کہا وہ خوبصورت ہے مجھے اس سے محبت ہے (طلاق کیسے دے دوں) فرمایا تو اسی سے مزے اڑا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تو ایسی حالت میں اسے روکے رکھ۔ کذا راوی الطبرانی والبیہقی عن عبیداللہ بن عمر عن عبدالکریم بن مالک عن ابی الزبیر عن جابر۔ ابن ابی جابر نے کہا میں نے اس حدیث کو اپنے باپ سے پوچھا تو انہوں نے کہا حدثنا محمد بن عبد کثیر عن معتمر ‘ عن عبدالکریم حدثنی ابوالزبیر عن مولی لبنی ہاشم۔ ہم سے محمد بن کثیر نے بحوالہ معتمر از روایت عبدالکریم بیان کیا عبدالکریم نے کہا مجھ سے ابوالزبیر نے بنی ہاشم کے کسی آزاد کردہ غلام کی روایت سے بیان کیا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے بعد حدیث مذکور راوی نے بیان کی۔ ثوری نے بھی یہ حدیث نقل کی ہے اور اس حاضر ہونے والے آدمی کا نام ہشام بتایا ہے جو بنی ہشام کا آزاد کردہ تھا ابو داؤد اور نسائی نے عبداللہ بن عبیداللہ بن عمیر کے طریق سے بروایت ابن عباس ؓ بیان کیا ہے اور نسائی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک راوی نے اس حدیث کو حضرت ابن عباس ؓ کی روایت تک پہنچایا ہے اور دوسرے راوی نے اس حدیث کو حضرت ابن عباس ؓ تک اس روایت کو نہیں پہنچایا۔ موصول ثابت نہیں اس کا مرسل ہونا صحیح ہے۔ شافعی نے اس کی روایت مرسلاً کی ہے۔ نسائی اور ابو داؤد نے عکرمہ کی روایت سے اس کو حضرت ابن عباس ؓ تک پہنچایا ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا اس روایت کی سند بہت صحیح ہے۔ نووی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے ابن جوزی نے باوجودیکہ اس کو صحیح سند کے ساتھ لکھا ہے لیکن موضوعات میں اس کو داخل کیا ہے۔ امام احمد کا قول منقول ہے کہ اس موضوع کی کوئی حدیث نہیں اور ہر روایت بےاصل ہے۔ فائدہحدیث مذکور میں آیا ہے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کی شکایت کرتے ہوئے عرض کیا وہ کسی چھونے والے (یا طلبگار) کے ہاتھ کو دفع نہیں کرتی۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ بعض اہل علم نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بدکاری کرنا چاہتا ہے اور اس کو چھوتا ہے وہ کسی کے ہاتھ کو نہیں روکتی یہ مطلب نسائی ‘ ابو عبیدہ ‘ ابن الاعرابی ‘ خطابی ‘ فریابی اور نووی نے بیان کیا ہے بغوی اور رافعی نے یہی مطلب سمجھ کر اس سے اپنے مقصد پر استدلال کیا ہے (کہ زانیہ سے نکاح جائز ہے وہ عورت زانیہ تھی مگر رسول اللہ ﷺ نے آخر میں اس شخص کو اجازت دے دی کہ اگر تو اس کو طلاق نہیں دے سکتا تو اپنے نکاح میں روکے رکھ) بعض علماء نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی سائل کے ہاتھ کو رد نہیں کرتی بڑی فضول خرچ ہے جو کوئی اس سے کچھ چیز مانگتا ہے وہ دے دیتی ہے۔ امام احمد اصمعی اور محمد بن نصر اسی مطلب کی طرف گئے ہیں۔ اس مطلب پر حدیث ناقابل استدلال ہے۔ زانیہ کے جواز نکاح کا ثبوت اس سے نہیں ہوتا۔ بغوی نے لکھا ہے روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے زنا کے سلسلہ میں ایک مرد اور ایک عورت کو پٹوایا اور ان کو ترغیب دی کہ دونوں میں نکاح ہوجائے لیکن اس مرد نے انکار کردیا (معلوم ہوا کہ زانیہ سے زانی کا نکاح جائز ہے) طبرانی اور دارقطنی نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور پھر اس سے نکاح کرلینا چاہے تو کیا حکم ہے ‘ فرمایا حرام حلال کو حرام نہیں بنا دیتا۔ عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ نے اپنی اپنی مصنف میں بیان کیا ہے کہ کسی نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا اگر کسی نے کسی عورت سے زنا کیا ہو پھر نکاح کرلینا چاہتا ہو تو کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا اس کا آغاز زنا ہے اور انجام نکاح۔
Top