Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ پہلے تو چار بار خدا کی قسم کھائے کہ بےشک وہ سچا ہے
والذین یرمون ازواجہم اور جو لوگ اپنی بیویوں کی طرف زنا کی نسبت کرتے ہیں۔ کیفیت وحی دور ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت (اِن کَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْن) تک تلاوت فرمائی حسب الحکم ہلال آئے اور انہوں نے شہادت دی یعنی لعان کیا اور حضور برابر فرماتے رہے کہ اللہ جانتا ہے کہ تم دونوں میں ایک جھوٹا ہے تو کیا تم دونوں میں سے کوئی ایک اپنے قول سے رجوع کرلے گا۔ ہلال کی شہادت کا بعد عورت کھڑی ہوئی اور اس نے شہادت دی یعنی لعان کیا جب پانچویں شہادت کا نمبر آیا تو لوگوں نے اس کو روکا اور کہا یہ شہادت فیصلہ کردینے والی ہے (اگر تو نے جرم کیا ہے تو شہادت سے اب بھی لوٹ سکتی ہے) عورت ذرا جھجکی اور مڑی یہاں تک کہ ہمارا خیال ہوا کہ یہ (شہادت سے) لوٹ جائے گی پھر کہنے لگی میں اپنے خاندان کو آئندہ ہمیشہ کے لئے رسوا نہیں کروں گے چناچہ اس نے شہادت جاری رکھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس عورت کو دیکھتے رہنا (اگر اس کے بچہ پیدا ہو اور آنکھیں سرمگیں ہوں سرین بھاری ہوں اور پنڈلیاں گداز ہوں تو (خیال کرلینا کہ) وہ شریک بن سمحا کا ہے۔ چناچہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ ایسا ہی تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر کتاب اللہ کا فیصلہ نازل نہ ہوا ہوتا تو پھر میں اس عورت سے سمجھتا۔ صحیح میں حضرت سہل بن سعد ساعدی کی روایت سے آیا ہے کہ ابن عویمر عجلانی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو (مشغول) دیکھ لے تو کیا کرے اگر وہ قتل کر دے گا تو لوگ (قصاص میں) اس کو قتل کردیں گے (گواہ لینے جائے گا تو مرد فارغ ہو کر جا چکے گا) بتائیے وہ کیا کرے حضور ﷺ نے فرمایا تمہارے اور تمہاری بیوی کے معاملہ میں حکم نازل ہوگیا ہے جاؤ اپنی بیوی کو لے کر آؤ حضرت سہل کا بیان ہے پھر دونوں نے مسجد کے اندر لعان کیا میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا لعان سے دونوں فارغ ہوگئے تو عویمر نے عرض کیا یا رسول للہ اب اس کے بعد میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں گا تو (گویا) میں نے اس پر تہمت تراشی کی (کیونکہ غیرت مند آدمی زنا کار عورت کو اپنے نکاح میں نہیں رکھتا ہے) چناچہ انہوں نے عورت کو تین طلاقیں دے دیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ذرا دیکھتے رہنا اگر اس عورت کے بچہ پیدا ہو اور وہ سانولا ‘ سیاہ چشم بھاری سرینوں اور گداز پنڈلیوں والا ہو تو میرا خیال ہوجائے گا کہ عویمر (یعنی ابن عویمر) نے سچ کہا تھا اور اگر اسی کی طرح سرخ رنگ کا ہوا ہو تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس عورت پر دروغ بندی کی چناچہ جب بچہ پیدا ہوا تو ویسا ہی تھا جس سے رسول اللہ ﷺ کے بیان کے مطابق عویمر کی سچائی ظاہر ہوتی تھی چناچہ آئندہ اس بچہ کا نسب ماں سے ملایا جاتا (اور ولد عویمر نہیں کہا جاتا تھا) ۔ امام احمد نے بروایت عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ جب آیت (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْ بِاَرْبَعَۃٍ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوْا ہُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَلاَ تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا) نازل ہوئی تو انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا (کیا) اسی طرح آیت نازل ہوئی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے گروہ انصار سن رہے ہو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے (اس کو نزول آیت میں شبہ ہے) انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ان کو آپ برا نہ کہیں یہ بڑے غیر مند آدمی ہیں بخدا انہوں نے (کبھی کسی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح نہیں کیا) ہمیشہ ناکت خدا سے ہی نکاح کیا اور نہ اپنی کسی بیوی کو طلاق دی (یعنی جس عورت کا پردہ کسی مرد نے اٹھا لیا ہو اس کو انہوں نے کبھی ساتھ رکھنا پسند نہیں کیا اور انتہائی غیرت یہ کہ کسی عورت کو طلاق نہیں دی کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکے) ان کی اسی شدت غیرت کی وجہ سے ہم میں سے کوئی شخص جراءت نہیں کرسکتا کہ (اگر ان کی چھوڑی ہوئی کوئی عورت ہو تو) اس سے نکاح کرلے۔ حضرت سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ قربان بخدا یہ تو میں ضرور جانتا ہوں کہ یہ آیت حق ہے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے لیکن مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ اگر میں بدکار عورت کو اس حالت میں دیکھوں کہ کوئی شخص اس کو اپنی رانوں میں دبائے ہوئے ہے تو مجھے یہ بھی اجازت نہیں کہ میں اس کو اس کی جگہ سے ہلا سکوں جب تک کہ چار گواہ لا کر ان کو آنکھوں سے دکھا نہ دوں خدا کی قسم جب تک میں گواہ لاؤں گا وہ شخص اپنا کام کر کے چل دے گا۔ اس واقعہ کو زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ہلال بن امیہ کا قصہ ہوگیا حضرت ہلال ان تینوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہونے کی صراحت آیت میں آئی تھی (غزوۂ تبوک کو تین شخص باوجود مقدرت کے نہیں گئے تھے اور واپسی کے وقت حاضر خدمت ہو کر انہوں نے سچ سچ عرض کردیا تھا اور اپنے قصد کا اعتراف کرلیا تھا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان پر سخت عتاب کیا تھا اور مسلمانوں کو ان کے بائیکاٹ کا حکم دے دیا تھا انہوں نے چالیس پچاس دن برابر اللہ سے زاری کی اور روتے رہے آخر ان کی توبہ قبول ہوئی اور قبول توبہ کی آیت اللہ نے نازل فرما دی) واقعہ یوں ہوا کہ حضرت ہلال رات کو اندھیرا پڑے اپنی زمین سے واپس آئے آکر دیکھا کوئی شخص ان کی بیوی کے پاس موجود ہے (اور کام میں مشغول ہے) آپ نے اپنی آنکھوں سے ان کی حرکت دیکھی اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنیں لیکن اس شخص کو متنبہ نہیں کیا صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں اندھیرا پڑے گھر آیا تو میں نے اپنی بیوی کے پاس ایک آدمی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے (ان کی باتیں) سنیں رسول اللہ ﷺ : کو یہ اطلاع ناگوار ہوئی اور بار گزری۔ دوسری طرف انصار جمع ہوئے اور انہوں نے کہا سعد بن عبادہ کے قول نے ہم کو آزمائش میں ڈال دیا ‘ اب ہلال بن امیہ کو رسول اللہ ﷺ (کوڑے) لگوائیں گے اور لوگوں میں ان کی شہادت کو باطل قرار دیں گے۔ ہلال نے کہا خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لئے اس سے رہائی کا کوئی راستہ ضرور نکال دے گا (راوی کا بیان ہے) رسول اللہ ﷺ : کوڑے لگوانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ اللہ نے آپ ﷺ پر وحی نازل فرمائی۔ جب وحی نازل ہوگئی (اور حضور ﷺ نے سنا دی) لوگ ہلال کو کوڑے مارنے سے رک گئے۔ آیت نازلہ یہ تھی (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ ) ابو یعلیٰ نے ایسا ہی بیان حضرت انس ؓ : کا نقل کیا ہے ‘ بغوی نے یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد اس کے آخر میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہلال تم کو خوش خبری ہو اللہ نے تمہارے لئے کشائش پیدا کردی ہلال نے کہا مجھے اللہ سے اس کی امید تھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورت کو بلواؤ حسب الحکم عورت حاضر ہوئی۔ جب دونوں رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں اکٹھے ہوئے تو عورت سے (ہلال کا قول) کہا گیا عورت نے ہلال کے قول کو جھوٹا قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ یقیناً جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا تم دونوں میں سے کوئی (اپنے بیان سے) رجوع کرنے والا ہے۔ ہلال نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ قربان میں سچ کہہ چکا اور میں نے حق بات کہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو ان دونوں میں کے درمیان لعان کرا دو ۔ حسب الحکم ہلال سے کہا گیا ‘ شہادت دو ہلال نے چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں یقیناً سچا ہوں ‘ پانچویں شہادت کے وقت رسول اللہ ﷺ نے ہلال سے فرمایا ‘ ہلال اللہ سے ڈر دنیوی عذاب ‘ آخرت کے عذاب سے آسان ہے اور اللہ کا عذاب لوگوں کے عذاب سے بہت زیادہ سخت ہے اور یہ پانچویں شہادت واجب کردینے والی ہے (اگر تو جھوٹا ہے تو) عذاب کو تجھ پر واجب کر دے گی۔ ہلال نے کہا خدا کی قسم اللہ اس شہادت پر مجھے عذاب نہیں دے گا ‘ جس طرح رسول اللہ ﷺ اس پر میرے کوڑے نہیں ماریں گے۔ اس کے بعد پانچویں شہادت میں ہلال نے کہا کہ اللہ کی لعنت مجھ پر اگر میں جھوٹا ہوں ‘ پھر پانچویں شہادت کے وقت رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کو روکا اور فرمایا اللہ سے ڈر پانچویں شہادت یقیناً واجب کردینے والی ہے اور اللہ کا عذاب لوگوں کے عذاب سے زیادہ سخت ہے ‘ یہ سن کر عورت تھوڑی دیر کے لئے جھجکی اور اقرار کرنے کا ارادہ کیا لیکن پھر کہنے لگی ‘ خدا کی قسم میں اپنے خاندان کو رسوا نہیں کروں گی ‘ چناچہ اس نے پانچویں شہادت دے دی اور کہا اللہ کا مجھ پر غضب ہو اگر وہ (ہلال) سچا ہو ‘ آخر رسول اللہ ﷺ نے دونوں کو الگ الگ کردیا اور فیصلہ کردیا کہ بچہ (اگر ہوگا تو) عورت کا ہوگا باپ کی طرف اس کی نسبت نہیں کی جائے گی۔ لیکن بچہ کو ولد حرام نہیں کہا جائے گا۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر بچہ ایسا ایسا ہو تو شوہر کا ہوگا اور اگر ایسا ایسا ہو تو وہ اس شخص کا ہوگا جس کا نام لیا گیا ہے۔ چناچہ جب بچہ پیدا ہوا تو خاکستری رنگ کے اونٹ کی طرح بدشکل تھا جو آئندہ زندگی میں مصرکا حاکم بنا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ میرا باپ کون تھا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ تمام روایات میں حضرت ابن عباس ؓ کا بیان مندرجۂ ذیل آیا ہے۔ یہی مقاتل نے بیان کیا کہ جب آیت (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الخ) نازل ہوئی اور منبر پر رسول اللہ ﷺ نے پڑھ کر سنائی تو عاصم بن عدی انصاری نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ مجھے آپ پر قربان کر دے (یہ فرمائیے) اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو (مشغول) دیکھ لے اور جو کچھ دیکھا ہے اس کو بیان کر دے تو اس کے اسّی کوڑے مارے میں جائیں گے اور مسلمان اس کو فاسق کہیں گے اور آئندہ اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ ہم گواہ اس وقت تک کہاں سے لاسکتے ہیں گواہوں کی تلاش جائیں گے تو اتنے وقت میں وہ شخص اپنے کام سے فارغ ہو کر جا چکا ہوگا۔ انہی عاصم کے ایک چچا زاد بھائی تھے جن کا نام عویمر تھا اور عویمر کی بیوی خولہ بنت قیس بن محصن تھیں (چند روز بعد کا ذکر ہے کہ) عویمر عاصم کے پاس پہنچے اور کہا (بھائی) میں نے اپنی بیوی خولہ کے پیٹ پر سوار خود شریک بن سمحا کو دیکھ پایا (اب کیا کروں) عاصم نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَپڑھا اور آئندہ جمعہ کو رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! گزشتہ جمعہ کو جو بات میں نے عرض کی تھی اس میں مبتلا میرے ہی خاندان کا ایک شخص ہوگیا۔ عویمر ‘ خولہ اور شریک ‘ سب عاصم کے بنی عم (یعنی ایک ہی دادا کی اولاد) تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے سب کو طلب فرمایا اور عویمر سے ارشاد فرمایا وہ تیری بیوی اور تیرے چچا کی بیٹی ہے ‘ اللہ سے ڈر اس کو بہتان تراشی کا نشانہ نہ بنا۔ عویمر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے شریک کو اس کے پیٹ پر دیکھا اور چار مہینے سے میں خولہ کے قریب بھی نہیں گیا اس کو اگر حمل ہے تو کسی اور کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عورت سے فرمایا اللہ سے ڈر اور جو کچھ تو نے کیا مجھ سے بیان کر دے۔ عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! عویمر بڑا غیرت مند آدمی ہے اس نے دیکھا کہ میں اور شریک دیر تک بیدار رہتے اور باہم باتیں کرتے رہتے ‘ اس کو غیرت آئی اور غیرت نے اس سے وہ بات کہلوائی (جو اس نے آپ سے کہی تھی) رسول اللہ ﷺ نے شریک سے فرمایا تیرا کیا بیان ہے ؟ اس نے کہا جو عورت کہہ رہی ہے وہی میں کہتا ہوں ‘ اس پر اللہ نے آیت (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَجَہُمْ ) نازل فرمائی۔ حضور ﷺ نے منادی کو حکم دیا کہ الصلوٰۃ جامعۃ کی ندا کر دے ‘ منادی نے ندا کردی لوگ جمع ہوگئے۔ آپ نے عصر کی نماز پڑھی پھر عویمر سے فرمایا اٹھ اور کھڑا ہو کر اللہ کو گواہ کر کے کہہ کہ خولہ زانیہ ہے اور میں یقیناً بلاشبہ سچا ہوں۔ عویمر نے کھڑے ہو کر یہی شہادت دی ‘ پھر دوسری شہادت میں عویمر نے کہا میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے شریک کو خولہ کے پیٹ پر دیکھا اور میں بلاشبہ سچا ہوں اور پھر تیسری شہادت میں عویمر نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ اس عورت کو جو حمل ہے وہ میرا نہیں کسی اور کا ہے اور میں سچا ہوں ‘ پھر چوتھی شہادت میں عویمر نے کہا میں اللہ کو شاہد جان کر کہتا ہوں کہ میں نے چار مہینے سے اس سے قربت نہیں کی اور بلاشک میں سچا ہوں۔ پھر پانچویں مرتبہ عویمر نے کہا اگر عویمر اس بات میں جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت ہو (اس کے بعد) ۔ حضور ﷺ نے خولہ سے فرمایا کھڑی ہو (اور قسم کھا کر بیان کر) خولہ کھڑی ہوئی اور اس نے کہا میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں زانیہ نہیں ہوں اور عویمر جھوٹا ہے ‘ پھر دوسری شہادت میں خولہ نے کہا میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ عویمر نے شریک کو میرے پیٹ پر نہیں دیکھا اور عویمر جھوٹا ہے ‘ پھر تیسری شہادت میں عورت نے کہا میں عویمر سے حاملہ ہوں اور یہ جھوٹا ہے ‘ پھر چوتھی شہادت میں عورت نے کہا عویمر نے کبھی مجھے زنا کی حالت میں مبتلا نہیں دیکھا اور یہ جھوٹا ہے ‘ پھر پانچویں شہادت میں اس نے کہا اگر عویمر اس قول میں سچا ہو تو خولہ پر اللہ کا عذاب ٹوٹے ‘ تکمیل شہادت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دونوں کو الگ کرا دیا اور فرمایا اگر یہ قسمیں نہ ہوتیں تو اس وقت اس عورت کے معاملے میں کچھ رائے ہوتی ‘ پھر لوگوں سے فرمایا بچے کی پیدائش کے وقت کو دیکھتے رہو اگر بچے کے دونوں ابرو کشادہ ہوں دونوں میں فاصلہ ہو بال بھورے ہوں رنگ مائل بہ سرخی ہو تو (سمجھو کہ) وہ شریک بن سمحا کا ہے اور اگر رنگ خاکستری ہو بال گھنگھریالے ہوں اعضاء کے جوڑ اونٹ کی طرح ہوں تو سمجھو کہ وہ اس شخص کا نہیں ہے جس کی طرف زنا کی نسبت کی گئی ہے (بلکہ وہ عویمر کا ہوگا) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا خولہ کے بچہ پیدا ہوا تو وہ شریک سے بہت زیادہ مشابہ تھا۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ائمہ (روایت) کا اس آیت کے سبب نزول میں اختلاف ہے کسی کے نزدیک عویمر کے حق میں اس کا نازل ہونا راجح ہے۔ کسی نے ہلال کے بارے میں اس کے نزول کو راجح قرار دیا ہے۔ قرطبی نے آیت کا نزول دو مرتبہ مانا ہے۔ بعض نے دونوں روایتوں میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور بیان کیا ہے کہ سب سے پہلے یہ آیت ہلال کے متعلق نازل ہوئی اور اتفاق سے اسی زمانے میں عویمر کا قصہ بھی ہوگیا اس لئے (کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں واقعات سبب نزول ہیں) علامہ نوری کا بھی اسی قول کی طرف میلان ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ پہلے ہلال کے متعلق آیت کا نزول ہوچکا ہو پھر جب عویمر اپنا قصہ لے کر آئے اور ان کو ہلال کے واقعہ کا کچھ علم نہ تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم قرآنی بتادیا۔ اسی لئے حضرت ہلال ؓ کے قصے میں آیا ہے کہ جبرئیل ( علیہ السلام) یہ آیت لے کر اترے اور حضرت عویمر سے فرمایا کہ تیرے معاملے میں یعنی تیرے واقعہ کی طرح ایک واقعہ ایک اور شخص کا ہوا تھا اس کے معاملہ میں اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی ہے۔ ابن الصباغ نے الشامل میں بھی یہی جواب دیا ہے۔ مسئلہ چونکہ آیت (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ ) عام ہے اس لئے امام مالک (رح) امام شافعی (رح) اور امام احمد نے فرمایا کہ جو جوڑا (شوہر اور اس کی بیوی) ایسا ہو کہ ان کے درمیان طلاق ہوسکتی ہو ان کے درمیان لعان کا حکم بھی جاری ہوگا خواہ دونوں آزاد ہوں یا دونوں مملوک یا ایک آزاد اور دوسری مملوک۔ دونوں عادل ہوں یا دونوں فاسق ‘ ایک عادل ہو اور دوسرا فاسق بلکہ دونوں کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں۔ ایک مسلمان ہو اور دوسری کافر (کتابی) یا دونوں کافر ہوں۔ امام مالک نے کفر فریقین کی صورت میں اختلاف کیا ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک کافروں کا آپس میں نکاح ہی صحیح نہیں ہوتا ‘ اس لئے طلاق بھی صحیح نہیں ہوتی اور طلاق صحیح نہیں تو لعان بھی جائز نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا جب تک دو شرطیں نہ ہوں گی لعان جائز نہ ہوگا ایک شرط یہ ہے کہ مرد اہل شہادت ہو یعنی مسلمان آزاد عاقل بالغ ہو دوسری شرط یہ ہے کہ عورت ایسی ہو کہ اس کے قاذف (تہمت زنا لگانے والے) کو حد لگائی جاسکتی ہو یعنی مسلمان ہو ‘ آزاد ہو ‘ عاقل ہو ‘ بالغ ہو اور (اس سے پہلے) اس کی طرف زنا کی نسبت نہ کی گئی ہو امام صاحب کے اس قول پر اگر عورت ایسی ہو کہ اس کے قاذف کو حد زنا لگائی جاسکتی ہو اور مرد غلام ہو یا کافر ہو یا تہمت زنا کا پہلے سزا یافتہ ہو (اور ایسا مرد تہمت زنا لگائے) تو لعان کا حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ حاکم اگر مناسب سمجھے گا تو تعزیری سزا مرد کو دے گا۔ ہاں اگر شوہر نابینا یا فاسق ہے تو دونوں میں لعان کا حکم دینا جائز ہے ‘ کیونکہ فاسق کی شہادت کو قبول کرنے کا اختیار تو بہرحال قاضی کو حاصل ہے فاسق کی شہادت قابل قبول نہیں اگر حاکم چاہے تو لے سکتا ہے۔ اور نابینا کی شہادت عام معاملات میں اس لئے قبول نہیں کی جاتی کہ وہ مدعی اور مدعی علیہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ‘ لیکن قذف کا معاملہ تو اس کا ذاتی ہے وہ اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور اپنی بیوی سے اپنا امتیاز کرتا ہے اس لئے اس شہادت کا اہل ہے دوسری شہادتوں کا اہل نہیں ہے ‘ ابن مبارک (رح) نے امام ابوحنیفہ (رح) : کا جو قول نقل کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک نابینا قاذف ہو تو لعان نہیں کرایا جائے گا۔ اسی طرح امام صاحب کے نزدیک مندرجہ صورتوں میں نہ حد قذف ہے نہ لعان۔ عورت باندی ہو یا کافرہ ہو یا نابالغ ہو یا پاگل ہو یا اس نے نکاح فاسد کیا اور شوہر نے بہ نکاح فاسد اس سے قربت کرلی ہو۔ یا اس کا کوئی بچہ ہو جس کا باپ معلوم نہ ہو یا اس نے اپنی عمر میں کبھی زنا کی ہو خواہ ایک ہی مرتبہ کی ہو پھر توبہ کرلی ہو یا اس سے شبہ کے طور پر مرد نے جماع کرلیا ہو اور واقع میں وہ جماع حرام ہو مرد کو حلال ہونے کا شبہ ہوگیا ہو ان تمام صورتوں نہ حد قذف قاذف پر جاری ہوگی نہ لعان کا حکم دیا جائے گا البتہ حاکم مناسب سمجھے تو عورت کو تعزیری سزا دے سکتا ہے۔ امام صاحب نے جو عورت کے لئے شرط لگائی ہے کہ وہ ایسی ہو جس کے قاذف کو حد لگائی جاسکتی ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر سے حد قذف کو دور کرنے کے لئے لعان کا حکم دیا گیا ہے جن احادیث میں نزول آیت کا سبب بیان کیا گیا ہے ان سے یہی ثابت ہوتا ہے دیکھو رسول اللہ ﷺ نے ہلال سے فرمایا ہلال تم کو بشارت ہو اللہ نے تمہارے لئے کشائش پیدا کردی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شوہر کے حق میں لعان حد قذف کا بدل ہے اسی لئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو دنیا کا عذاب یعنی حد۔ عذاب آخرت کے مقابلہ میں بہت آسان ہے پس جب ایسی عورت ہی نہ ہو جس کے قاذف پر حد قذجاری ہوسکتی ہو تو پھر حد کا بدل یعنی لعان کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔ ایک شرط امام صاحب نے یہ بھی لگائی تھی کہ شوہر شہادت کا اہل ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے۔ ولم یکن لہم شہدآء الا انفسہم اور ان کے پاس سوائے اپنے آپ کے اور گواہ نہ ہوں۔ اللہ نے اس آیت میں خود ازواج (شوہروں) کو شہداء (گواہ) قرار دیا ہے کیونکہ اِلَّا اَنْفُسُہُمْکا نفی سے استثناء کیا ہے اور نفی سے استثناء اثبات ہوتا ہے (ترجمہ یوں ہوگا اور نہ ہوں ان کے لئے گواہ سوائے اس کے کہ وہ اپنے آپ ہی گواہ ہوں) ۔ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اس آیت میں مجازاً شہداء سے مراد ہیں قسم کھانے والے کیونکہ اس تاویل پر مطلب یہ ہوگا کہ ان کے پاس قسم کھانے والے نہ ہوں سوائے اس کے کہ وہ خود ہی اپنے لئے قسم کھانے والے ہوں۔ یہ مطلب درست نہیں ہے حقیقت میں اس جگہ شہادت کو بمعنی حلف لینا ایک کلیہ کی فرع ہے جس کا بجائے خود کوئی وجود نہیں کلیہ یہ ہے کہ (اپنے لئے اپنی شہادت ناجائز ہے اور) دوسرے کے لئے حلف جائز ہے۔ اگر شہادت کا حقیقی معنی قسم ہوتا بھی تب بھی اس جگہ مجازی معنی (یعنی گواہی) کی طرف رجوع کرنا پڑتا (کیونکہ دوسرے کے لئے حلف کا کوئی وجود نہیں) اور جب شہادت کا حقیقی معنی حلف ہے ہی نہیں بلکہ شہادت سے قسم مجازاً مراد لے لی جاتی ہے تو بدرجۂ اولیٰ اس جگہ شہادت سے مراد قسم نہیں بلکہ گواہی ہے۔ امام صاحب نے شوہر کے لئے شہادت کا اہل ہونے کی شرط لگائی ہے اور یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ عورت ایسی ہو جس کے قاذف پر حد قذف جاری کی جاسکتی ہو ان دونوں باتوں کا ثبوت عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت کردہ حدیث سے ملتا ہے اس حدیث کو ابن ماجہ اور دارقطنی نے چند طرق سے نقل کیا ہے۔ (1) دارقطنی نے بروایت عثمان بن عبدالرحمن زہری بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چار (صورتیں) ہیں جن میں لعان نہیں ہے۔ آزاد مرد اور باندی عورت کے درمیان لعان نہیں ہے۔ غلام مرد اور آزاد بی بی کے درمیان لعان نہیں ہے۔ مسلم مرد اور یہودیہ عورت کے درمیان لعان نہیں ہے۔ مسلم مرد اور نصرانی عورت کے درمیان لعان نہیں ہے۔ یحییٰ ‘ بخاری ‘ ابو حاتم رازی اور ابو داؤد نے کہا عثمان ابن عبدالرحمن کچھ نہیں ہے (ہیچ ہے ناقابل اعتبار ہے) یحییٰ نے ایک بار کہا وہ جھوٹ کہتا تھا ابن حبان نے کہا موضوع احادیث کی روایت کا سلسلہ قابل اعتماد راویوں سے ملاتا تھا اس کی روایت کردہ حدیث کو حجت میں پیش کرنا جائز نہیں۔ نسائی اور دارقطنی نے کہا یہ متروک الحدیث ہے۔ (2) دارقطنی اور ابن ماجہ نے عثمان بن عطاء خراسانی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چار عورتوں سے لعان نہیں۔ عیسائی عورت مسلمان مرد ‘ یہودی عورت مسلمان مرد ‘ باندی عورت آزاد مرد ‘ آزاد عورت غلام مرد۔ یحییٰ اور دارقطنی نے عثمان بن عطا کو ضعیف کہا ہے ابو حاتم اور ابن حبان نے کہا اس کی حدیث سے احتجاج جائز نہیں۔ علی بن جنید نے کہا یہ متروک الحدیث ہے۔ دارقطنی نے کہا عثمان کی متابعت یزید بن زریع نے بھی کی ہے اس نے بھی بروایت عطا یہ حدیث بیان کی ہے لیکن یزید بن زریع بھی ضعیف ہے۔ (3) دارقطنی نے عماد بن مطر کی وساطت سے عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عتاب بن اسید کو بھیجا ‘ اس کے بعد حدیث مذکور نقل کی ہے۔ ابو حاتم رازی نے کہا عماد بن مطر جھوٹ بنایا کرتا تھا ‘ ابن عدی نے کہا اس کی حدیثیں بےحقیقت ہیں۔ یہ متروک الحدیث ہے۔ امام احمد نے کہا حماد بن عمرو (جو عماد بن مطر کا راوی ہے) جھوٹ بناتا تھا اور حدیث خود گڑھتا تھا۔ ساجی نے کہا باجماع اہل روایت یہ متروک الحدیث ہے۔ نسائی اور دارقطنی نے حماد بن عمرو کے راوی زید بن رفیع کو ضعیف کہا ہے (گویا عماد بن مطر از حماد بن عمرو از زید بن رفیع از عمرو بن شعیب کے سلسلہ میں اوّل الذکر تینوں راوی ضعیف جھوٹے اور ناقابل اعتبار ہیں) ۔ ابن جوزی نے لکھا ہے اوزاعی اور ابن جریج نے جو امام الحدیث ہیں یہ حدیث بوساطت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ بیان کی ہے اور اس کو عمرو بن شعیب کے دادا کا قول قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ : کی طرف اس کی نسبت نہیں کی۔ ابن ہمام نے لکھا ہے ضعیف حدیث اگر متعدد طریقوں سے مروی ہو (اور ہر سند میں ضعف ہو) تو وہ حجت (قابل استدلال) ہوجاتی ہے۔ یہ حدیث اسی قسم کی ہے اس کی تائید اوزاعی اور ابن جریج کی روایت سے ہو رہی ہے کہ دونوں اماموں نے اس کو عمرو بن شعیب کے دادا کا قول قرار دیا ہے (اگرچہ اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ : کی طرف نہیں کی اور مرفوعاً نہیں بیان کیا پھر بھی موقوفاً ضرور کہا ہے) ۔ فشہادۃ احدہم اربع شہادات باللہ انہ لمن الصدقین۔ تو ان میں سے ایک (یعنی مرد) کی شہادت یہی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہہ دے کہ بلاشبہ میں سچا ہوں۔ امام شافعی (رح) نے اس آیت سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے اس آیت میں شہادت سے مراد قسمیں ہیں۔ گواہیاں مراد نہیں ہیں ‘ کیونکہ لفظ شہادت میں دونوں معنی کا احتمال تھا گواہی اور قسم لیکن لفظ باللہ سے قسم کا معنی محکم ہوگیا۔ لفظ اشہد کہہ کر اگر کوئی قسم مراد لے تو قسم ہوجائے گی معلوم ہوا کہ شہادات کا لفظ بول کر قسمیں مراد لینے کا احتمال تھا لفظ باللہ نے اس معنی کو متعین کردیا۔ شریعت میں اپنی ذات کے لئے خود شہادت دینا قابل قبول نہیں ہاں اپنے لئے قسم کھا سکتا ہے اور اس کی بھی شریعت میں کوئی نظیر نہیں کہ ایک مقام پر (ایک وقت میں) ایک ہی شخص بار بار شہادت ادا کرتا ہو ‘ ہاں قسم کی تکرار کی مثال موجود ہے جیسے قسامت میں ہوتا ہے ‘ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ شہادت کسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے ہوتی اور قسم نفی کے لئے یہ بات ناقابل تصور ہے کہ حقیقت شہادت کا تعلق ایک ہی امر سے ہو لامحالہ ایک کی حقیقت اور دوسرے کے مجازی معنی پر عمل واجب ہوگا اور لفظ شہادت کا مجازی معنی (یعنی قسم) مراد ہوگا اور جب شہادت سے قسم مراد ہوگی تو لعان کے لئے شہادت کا اہل ہونا لازم نہ ہوگا۔ ہم کہتے ہیں بیشک اپنے لئے خود شہادت دینے اور بار بار ایک مقام پر شہادت ادا کرنے کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں ہے تو دوسرے کے لئے قسم کھانے کی مثال بھی تو کوئی نہیں ہے اور کسی حکم کو واجب کرنے کے لئے قسم کھانا بھی تو شریعت میں کہیں موجود نہیں ہے۔ قسم تو دفع حکم کے لئے ہوتی ہے نہ کہ ایجاب حکم کے لئے۔ پس جس کو موجود کرنے معدوم کرنے اور جیسا چاہے ویسا حکم دینے کا کامل اختیار و استحقاق ہے جب ایک محل میں دونوں امور کو ابتداً مشروع کرنا اس کے لئے جائز ہے تو اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ ابتداً اس کو مشروع کر دے (اور اس کا ابتداً قانون بنا دے۔ نظیر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں) ۔ رہا اپنے لئے خود شہادت دینے کی مثال تو یہ قرآن مجید میں موجود ہے اللہ نے فرمایا ہے شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ الاَّ ہُوَاللہ خود شاہد ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جو مؤذن کو اذان میں اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْل اللّٰہِکہتے سنا تو فرمایا اَنَااَشْہَدُ اَنَا اَشْہَدُمیں بھی شہادت دیتا ہوں میں بھی شہادت دیتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ : کا اپنی رسالت کی شہادت دینا خود اپنے لئے شہادت ہے۔ باقی اس جگہ تکرار شہادت کیوں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا کے گواہ جب کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصرہو تو اس کی جگہ یہ چار شہادتیں بطور بدلیت ضروری قرار پائی ہیں کیونکہ تہمت کے وقت اپنے لئے شہادت (یعنی ایک شہادت) قبول نہیں کی جاسکتی (اس لئے تکرار شہادت ضروری قرار پائی) اگر تہمت کا موقع نہ ہو تو ایک شہادت بھی اپنے لئے قبول کی جاتی ہے جیسے مندرجۂ بالا آیت اور حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے پس کسی تہمت کے مقام پر اپنے لئے بار بار شہادت دینا اور قسم سے اس کو پختہ کرنا اور بصورت کذب اپنے لئے لعنت اور غضب خدا کی بددعا کرنا (اور لعنت و غضب کا اپنے کو مستحق ظاہر کرنا) بعید از فہم نہیں ہے۔
Top