Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 4
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ اِ۟فْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ ھٰذَآ : نہیں یہ اِلَّآ : مگر۔ صرف اِفْكُ : بہتان۔ من گھڑت افْتَرٰىهُ : اس نے سے گھڑ لیا وَاَعَانَهٗ : ور اس کی مدد کی عَلَيْهِ : اس پر قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ : دوسرے لوگ (جمع) فَقَدْ جَآءُوْ : تحقیق وہ آگئے ظُلْمًا : ظلم وَّزُوْرًا : اور جھوٹ
اور کافر کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) من گھڑت باتیں ہی جو اس (مدعی رسالت) نے بنالی ہیں۔ اور لوگوں نے اس میں اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ (ایسا کہنے سے) ظلم اور جھوٹ پر (اُتر) آئے ہیں
وقال الذین کفروا اور کافروں نے کہا۔ صراحت کے ساتھ کفروا کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انکار توحید کی طرح انکار نبوت بھی کفر ہے۔ کیونکہ (خالص) توحید تک پہنچنے کے لئے تنہا عقل کافی نہیں ہے بلکہ حقیقی توحید وہ ہے جو شریعت میں بیان کی گئی ہے۔ فلاسفہ اور متبعین نے الٰہیات (یعنی مافوق الطبیعیات مسائل) میں بہت سے غوطے کھائے ہیں راہ حقیقت سے واقف نہ تھے اس لئے خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ صحیحین میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے قبیلۂ عبدالقیس کے وفد کے قصہ میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ کے ماننے کے معنی کیا ہیں ؟ اہل وفد نے کہا اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بخوبی واقف ہے۔ فرمایا (اللہ کی توحید کو) ماننا یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دو ۔ ان ہذا الا افک افترہ کہ یہ تو کچھ بھی نہیں نرا جھوٹ ہے۔ ہذا یعنی قرآن جو محمد ﷺ پیش کر رہے ہیں۔ اِفْکٌجھوٹ کا رخ (حق و صداقت کی سمت سے) پھیر دیا جاتا ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد نے خود گھڑ لیا ہے (یہ محمد ﷺ : کا خود تراشیدہ ہے) ۔ واعانہ علیہ قوم اخرون اور اس کام میں کچھ دوسرے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے۔ مجاہد نے کہا قَوْمٌ اٰخَرُوْنَسے ان کی مراد تھی یہودیوں کی ایک جماعت۔ حسن نے کہا ایک حبشی (غلام) مراد تھا جس کا نام عبید بن الحصر تھا۔ یہ کاہن تھا۔ بعض نے کہا مکہ میں کچھ غلام تھے جن کے نام تھے ‘ جبر ‘ یسار ‘ عداس۔ یہ لوگ کتابی تھے ‘ قوم آخرون سے یہی لوگ مراد تھے۔ مشرکوں کا خیال تھا کہ محمد ﷺ ان سے ہی قرآن سیکھ لیتے ہیں۔ فقد جآء وا ظلما وزورا۔ پس بلاشبہ انہوں نے بہت ہی بےجا بات کی اور جھوٹ (کہا) ۔ ظلم (بےجا حرکت) یہ کہ اللہ کے کلام کو یہودیوں سے سیکھا ہوا من گھڑت کلام قرار دیا اور زور (جھوٹ) یہ بنایا کہ ایسے شخص کو تہمت تراش اور دروغ باف قرار دیا جو قطعاً ان کے الزامات سے پاک تھا۔ بیضاوی نے لکھا ہے لفظ جآء یا اتیٰ کا استعمال فعل (کیا) کے معنی میں بھی ہوتا ہے اس وقت یہ فعل متعدی بنفسہٖ ہوجاتے ہیں۔
Top