Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 8
اُولٰٓئِكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّ سَلٰمًاۙ
اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ يُجْزَوْنَ : انعام دئیے جائیں گے الْغُرْفَةَ : بالاخانے بِمَا صَبَرُوْا : ان کے صبر کی بدولت وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا : اور پیشوائی کیے جائینگے اس میں تَحِيَّةً : دعائے خیر وَّسَلٰمًا : اور سلام
ان (صفات کے) لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیئے جائیں گے۔ اور وہاں فرشتے ان سے دعا وسلام کے ساتھ ملاقات کریں گے
اولئک یجزون الغرفۃ ان لوگوں کو (جن کے اوصاف اوپر ذکر کردیئے گئے) ثواب میں جنت کے اعلیٰ مقامات دیئے جائیں گے۔ شیخین نے صحیحین میں اور امام احمد نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کے حوالہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل جنت اپنے سے اوپر بالائی منزلوں والوں کو آپس کے تفاوت مراتب کی وجہ سے اس طرح دیکھیں گے جیسے تم لوگ ابر آلود آسمان میں مشرقی یا مغربی افق سے ستارے کو دیکھتے ہو۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو انبیاء کے مکان ہوں گے دوسرا کوئی وہاں نہیں پہنچے گا۔ فرمایا ‘ کیوں نہیں ‘ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کو سچا جانا (وہ انسان ان مراتب تک پہنچ سکتے ہیں) حضرت سہل بن سعد کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث آئی ہے۔ احمد ‘ حاکم اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے اور ترمذی و بیہقی نے حضرت علی ؓ کی روایت سے اور امام احمد نے حضرت ابو مالک اشعری کی روایت سے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کے اندر کچھ بالا خانے ایسے ہیں جن کے اندر کی حالت باہر سے اور باہر کی حالت اندر سے دکھائی دے گی۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ بالا خانے کن لوگوں کے لئے ہوں گے ‘ فرمایا ان لوگوں کے لئے جو پاکیزہ کلام کرتے ہیں (غریبوں کو) کھانا کھلاتے ہیں اور جب دوسرے لوگ سوئے ہوتے ہیں تو وہ رات کو (نماز میں) کھڑے رہتے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں یہ حدیث اسی طرح آئی ہے۔ حضرت علی ؓ کی روایت کے لحاظ سے حدیث مذکور ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ ان لوگوں کے لئے ہیں جو پاکیزہ کلام کرتے ہیں اسلام پھیلاتے ہیں کھانا کھلاتے ہیں اور رات میں ایسے وقت نماز پڑھتے ہیں کہ (اور) لوگ سوتے ہوتے ہیں۔ حضرت ابو مالک ؓ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو کھانا کھلاتے ہیں ‘ نرم کلام کرتے ہیں ‘ متواتر روزے رکھتے ہیں اور رات میں نماز پڑھتے ہیں جبکہ (اور) لوگ سوتے ہوتے ہیں۔ بیہقی اور ابو نعیم نے حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو جنت کے بالا خانوں کے متعلق نہ بتاؤں ‘ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں ‘ اے اللہ کے رسول ﷺ (فرمائیے) ارشاد فرمایا ‘ جنت کے اندر یقیناً کچھ بالا خانے قسم قسم کے جواہرات کے ایسے (شفاف) ہیں کہ ان کے اندر سے اندر کی نعمتیں لذتیں اور عزت بخشیاں دکھائی دیں گی اور اندر سے باہر کی راحت لذت اور عزت دکھائی دے گی یہ نعمت لذت اور عزت ایسی ہوگی جو نہ کسی آنکھ نہ دیکھی اور نہ کسی کان نے سنی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ بالا خانے کن لوگوں کے لئے ہوں گے فرمایا ان لوگوں کے لئے جنہوں نے سلام کو پھیلایا ‘ کھانا کھلایا ‘ ہمیشہ روزے رکھے اور رات میں ایسے وقت نماز پڑھی جبکہ (اور) لوگ سوتے ہوں۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ایسا کرنے کی کس میں طاقت ہے۔ فرمایا ‘ میری امت اس کی طاقت رکھتی ہے میں اس کی تفصیل تم کو بتاتا ہوں جو اپنے بھائی (مسلمان) سے ملا اور اس کو سلام کیا اور سلام کا جواب دیا۔ اس نے سلام کو پھیلایا اور جس نے اپنے اہل و عیال کو پیٹ بھر کھانا کھلایا تو اس نے (ضروری) کھانا کھلا دیا اور جس نے رمضان کے اور ہر مہینے تین دن کے (یعنی 13‘ 14 اور 15 تاریخوں کے) روزے رکھے اس نے (گویا) ہمیشہ روزے رکھے اور جس نے عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو بیشک اس نے رات ایسے وقت نماز پڑھی کہ یہودی عیسائی اور مجوسی اس وقت خواب میں ہوتے ہیں۔ اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے۔ ابن عدی اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی شک نہیں کہ جنت کے اندر کچھ بالا خانے ایسے ہیں کہ ان کے اندر رہنے والا اگر ان کے اندر ہوگا تو بالا خانہ سے پیچھے والی چیزیں اس سے پوشیدہ نہ ہوں گی اور اگر بالا خانوں سے پیچھے (باہر) ہوگا تو اندر کی چیزیں اس سے مخفی نہ ہوں گی۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول یہ بالا خانے کن کے لئے ہوں گے فرمایا ان کے لئے جنہوں نے پاکیزہ کلام کیا ‘ مسلسل روزے رکھے ‘ سلام کو پھیلایا اور رات میں ایسے وقت نماز پڑھی کہ لوگ سوتے ہوں عرض کیا گیا کلام کی پاکیزگی سے کیا مراد ہے ‘ فرمایا سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ قیامت کے دن جب ان کا قائل (محشر کے میدان میں) آئے گا تو یہ کلمات آگے پیچھے ہوں گے اور نجات دلانے والے ہوں گے عرض کیا گیا ‘ مسلسل روزے رکھنے کا کیا مطلب ہے فرمایا ‘ جس نے رمضان کے روزے رکھے اس نے بلاشبہ (ہمیشہ کے) مسلسل روزے رکھے عرض کیا گیا کھلانے سے کیا مراد ہے فرمایا جس نے اپنے عیال کو کھانا دیا۔ عرض کیا گیا سلام کو پھیلانے سے کیا مراد ہے ‘ فرمایا اپنے (مسلمان) بھائی کی مصاحبت اور اس کو سلام کرنا عرض کیا گیا لوگوں کے سونے کی حالت میں نماز کا کیا مطلب ‘ فرمایا عشاء کی نماز۔ حکیم ترمذی نے حضرت سہل بن سعد کی مرفوع روایت سے اس آیت کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ بالاخانہ سرخ یاقوت ‘ سبز زبرجد اور سفید موتی کا ہوگا جس میں نہ کوئی شگاف ہوگا نہ کوئی عیب۔ بما صبروا ان کے صبر کرنے کی وجہ سے 1 ؂۔ یعنی انہوں نے چونکہ دنیا میں نفسانی خواہشات کو ترک کیا ‘ مجاہدات کی تکلیفیں اٹھائی تھیں ‘ کافروں کی طرف سے پہنچنے والی اذیتیں برداشت کی تھیں اور طاعت و عبادت کی وجہ سے پہنچنے والے دکھ پر ثابت قدم رہے تھے اس لئے ان کو مذکورہ بالا مراتب ملیں گے۔ ابو نعیم نے ابوجعفر کا قول نقل کیا ہے کہ صبر کرنے سے مراد ہے دنیا میں ناداری پر صبر کرنا۔ ویلقون فیہا تحیۃ وسلم ا اور ان کو اس بہشت میں (فرشتوں کی طرف سے) بقا کی دعا اور سلام ملے گا۔ یعنی بالا خانوں کے اندر فرشتے تحیۃ وسلام کے ساتھ استقبال کریں گے ‘ مراد یہ ہے کہ ان کے لئے اللہ سے سلامتی و عافیت کی دعا کریں گے یا یہ مراد ہے کہ ان کو ہر آفت سے سالم رہنے اور ہمیشہ باقی رہنے کی بشارت دیں گے۔ کلبی نے کہا مراد یہ ہے کہ وہ باہم ایک دوسرے کو سلام کریں گے اور اللہ کی طرف سے ان کو سلام بھیجا جائے گا۔ احمد ‘ بزار اور ابن حبان نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی مخلوق میں سے جنت کے اندر وہ فقراء مہاجرین داخل ہوں گے جن کے ذریعہ سے سرحدوں کی حفاظت کی جاتی ہے اور انہی کی وجہ سے مکروہات سے (مسلمانوں کا) بچاؤ ہوتا ہے (لیکن ان کی خود یہ حالت ہوتی ہے کہ) وہ اپنی ضروریات کو اپنے سینے میں لے کر مرجاتے ہیں اور (زندگی بھر ان کو پورا نہیں کرسکتے۔ اللہ اپنے فرشتوں میں سے جن کو چاہے گا حکم دے گا کہ جاؤ ان کو سلام کرو۔ (ان کا استقبال کرو) ۔ ملائکہ عرض کریں گے ‘ اے ہمارے رب ہم تیرے آسمان کے باشندے ہیں اور تیری مخلوق میں سے تیرے برگزیدہ بنائے ہوئے ہیں۔ پھر تو ہی ہم کو حکم دے رہا ہے کہ ہم ان کے پاس جائیں اور ان کو سلام کریں ‘ اللہ فرمائے گا یہ وہ لوگ ہیں جو میری (ہی) عبادت کرتے تھے میرا ساجھی کسی کو نہیں بناتے تھے انہی کے ذریعہ سے سرحدوں کی حفاظت کی جاتی تھی اور انہی کی وجہ سے مکروہات سے بچاؤ ہوتا تھا لیکن وہ ایسی حالت میں مرجاتے تھے کہ ان کی ضروریات ان کے سینوں کے اندر ہوتی تھیں اور وہ ضروریات کو پورا نہ کرسکے تھے۔ حسب الحکم ملائکہ ان کے پاس جائیں گے اور ہر دروازے سے داخل ہو کر کہیں گے۔ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبٰی الدَّارِ ۔ بعض لوگوں نے کہا آیت کا یہ مطلب ہے کہ ان کو تحیت یعنی بقائے دوامی اور سلام یعنی ہر آفت سے سلامتی کی پیش کش کی جائے گی۔
Top