Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 101
وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ
وَلَا صَدِيْقٍ : اور نہ کوئی دوست حَمِيْمٍ : غم خوار
اور نہ گرم جوش دوست
ولا صدیق اور نہ کوئی سچا دوست ہے۔ شافعین کی جمع اور صدیق کو مفرد ذکر کرنے کی چند وجوہ ہوسکتی ہیں (1) عام طور پر سفارشی تو بہت ہوجاتے ہیں اور سچا دوست کم ہی ملتا ہے۔ (2) جتنی کوشش متعدد سفارشی کرتے ہیں ان سب سے زیادہ لگن کے ساتھ ایک دوست کوشش کرتا ہے۔ (3) صدیق کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور جمع پر بھی کیونکہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ وزن فعول و فعیل کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور متعدد پر بھی۔ (4) صدیق اصل میں جنبین اور صہیل کی طرح مصدر ہے (بطور صفت استعمال کرلیا گیا ہے اور مصدر میں واحد جمع کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ مصادر کی جمع نہیں آتی۔ مترجم) ۔ حمیم۔ قریب قاموس میں ہے حمیم بروزن امیر بمعنی قریب۔ اس کی جمع احماء ہے کبھی حمیم کا استعمال جمع اور مؤنث کے لئے بھی ہوتا ہے۔ کافروں کے کلام کا مطلب یہ ہوگا کہ آج نہ ہمارا کوئی سچا دوست ہے نہ قرابت دار جو ہماری سفارش کرسکے۔ اللہ نے فرمایا ہے (اَلْاَخِلاَّءُ یَوْمَءِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّا الاَّ الْمُتَّقِیْنَ ) اس روز گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے ہاں متقی (باہم دشمن نہ ہوں گے) بغوی نے حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت سے بیان کیا۔ حضرت جابر نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ آدمی جنت کے اندر کہے گا میرا فلاں دوست کیا ہوا (کہاں گیا) اس وقت اس جنتی کا دوست جہنم میں ہوگا اللہ حکم دے گا اس کے دوست کو دوزخ سے نکال کر جنت میں لے جاؤ اس کے بعد جو لوگ دوزخ میں رہ جائیں گے وہ کہیں گے فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ وَلاَ صَدِیْقِ حَمِیْمٍحسن نے فرمایا اپنے مؤمن دوستوں کی تعداد زیادہ کرو کیونکہ قیامت کے دن وہ شفاعت کریں گے۔
Top