Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 11
قَوْمَ فِرْعَوْنَ١ؕ اَلَا یَتَّقُوْنَ
قَوْمَ فِرْعَوْنَ : قوم فرعون اَلَا يَتَّقُوْنَ : کیا وہ مجھ سے نہیں ڈرتے
(یعنی) قوم فرعون کے پاس، کیا یہ ڈرتے نہیں
قو فرعون الا یتقون۔ یعنی فرعون کی قوم والوں کے پاس جاؤ (اور دیکھو کہ) کیا وہ ہمارے غضب سے نہیں ڈرتے۔ یعنی اس واقعہ کو یاد کرو جب آپ کے رب نے موسیٰ کو پکارا تھا موسیٰ نے درخت کو اور (درخت سے اٹھتی ہوئی) آگ کو دیکھا اس وقت اللہ نے ان کو ندا دی تھی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کے لئے پیام تسکین ہے کہ آپ کافروں کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اپنی جان کا نقصان نہ کریں اور اس وقت کو یاد کریں جب اللہ نے موسیٰ کو ندا دی تھی اور قوم فرعون کے پاس جا کر ہدایت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اَلظَّالِمِیْنَظلم کرنے والے یعنی کفر کرنے والے یعنی اسرائیل کو غلام بنانے والے اور ان کو طرح طرح کی اذیتیں دینے والے ‘ یہاں تک کہ ان کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کردینے والے۔ قَوْمَ فِرَعَوُنَفرعون تو ان کا فرماں روا تھا۔ سب کام اسی کے حکم سے ہوتے تھے اس لئے فرعون کا ذکر نہیں کیا صرف قوم فرعون کا ذکر کیا۔ اَلاَ یَتَّقُوْنَاستفہام انکاری توبیخی ہے جس سے مراد ہے امر یعنی اللہ کی اطاعت و عبادت کر کے ان کو اللہ کے عذاب سے اپنی جانوں کو محفوظ کرنا چاہئے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اصل کلام الا یَاقومِ اتَّقونہو۔ قوم کو حذف کردیا (منادیٰ کبھی محذوف کردیا جاتا ہے) جیسے الا یَسْجُدُوْاکی اصل الا یاقوم اُسْجُدُوْاتھی (پھر یاء کو اتقون سے ملا دیا اور امر کی ہمزہ کو حذف کردیا) مطلب یہ ہوگا کہ قوم فرعون کے پاس جاؤ اور کہو اے میری قوم اللہ سے ڈرو۔
Top