Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 129
وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَۚ
وَتَتَّخِذُوْنَ : اور تم بناتے ہو مَصَانِعَ : مضبوط۔ شاندار محل) لَعَلَّكُمْ : شاید تم تَخْلُدُوْنَ : تم ہمیشہ رہو گے
اور محل بناتے ہو شاید تم ہمیشہ رہو گے
وتتخذون مصانع جس کو محض فضول (بلا ضرورت) بناتے ہو اور بڑے بڑے محل تعمیر کرتے ہو۔ استفہام ‘ زجری یا تقریری ہے۔ کل ریع میں استغراق حقیقی نہیں (کیونکہ ہر اونچی جگہ میں قوم عاد نہ قصر بناتی تھی نہ ایسا ممکن تھا) اور کثرت اضافی بھی مراد نہیں ہے (کیونکہ یہ بھی خلاف واقعہ ہے) بلکہ فی نفسہٖ کثرت مراد ہے۔ یعنی بہت سے مقامات میں تم یادگاریں تعمیر کرتے ہو۔ والبی نے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ریع کا ترجمہ کیا اونچا مقام ‘ بلند جگہ۔ ضحاک اور مقاتل نے ترجمہ کیا ہر راستہ میں۔ عوفی کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ : کا بھی یہی قول آیا ہے۔ مجاہد نے کہا دو پہاڑوں کے درمیان کا راستہ۔ مجاہد کا دوسرا قول مروی ہے کہ ریع کا معنی ہے منظر۔ قاموس میں ہے ریع کسرہ اور فتحہ کے ساتھ زمین کا اونچا حصہ۔ یا پہاڑ کے اندر شگافی راستہ یا اونچا پہاڑ یا ہر اونچے مقام کی وادی کی سیلان گاہ۔ ریع بالکسر یہودیوں کا گرجا ‘ خانقاہ اور کبوتروں کا برج۔ آیت بمعنی یادگار۔ بانی کو یاد دلانے والی عمارت۔ تَعْبَثُوْنَ یعنی فضول کام کرتے ہوئے آخرت میں ان کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ دنیا میں بھی بیکار ہیں۔ یا آیت سے مراد ہے مسافروں کے لئے بنائے جانے والے نشان چونکہ قوم عاد والے ستاروں کو دیکھ کر اپنی سفری راہیں پہچان لیتے تھے اس لئے فرمایا کہ تم یہ بیکار کام کرتے ہو۔ بعض اہل تفسیر نے کہا عاد کی قوم والے اونچے مقامات پر عمارتیں بناتے تھے تاکہ اوپر چڑھ کر آنے جانے والے راہگیروں کو دیکھیں اور ان سے ہنسی مذاق کریں۔ سعید بن جبیر نے کہا قوم عاد والے کبوتر بازی کرتے تھے کبوتروں کے لئے انہوں نے برج بنا رکھے تھے۔ حضرت ہود نے ان کے اس فعل کو پسند نہیں کیا اور ان برجوں کے بنانے کو لغو قرار دیا اس کی دلیل یہ ہے کہ آیت میں تعبثون آیا ہے یعنی تم لوگ ان سے کھیلتے ہو۔ میں کہتا ہوں کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ یادگار قائم رکھنے کے لئے محلات ‘ اونچی عمارتیں اور قلعے تعمیر کرتے تھے دنیا پرستوں کا شیوہ یہی ہے۔ اس کی غرض یہ ہوتی تھی کہ ہمیشہ ان عمارتوں کو بنانے والوں کی یادگار باقی رہے۔ اسی کے متعلق اللہ نے فرمایا (اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ) کیا تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے رب نے بڑی بڑی لاٹیں بنانے والی عاد ارم کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ چونکہ یہ عمل فضول اور بےنتیجہ تھا اس لئے حضرت ہود نے اس کو پسند نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ : کو بھی یہ تعمیری عمل پسند نہیں تھا اسی لئے حضور اقدس نے ارشاد فرمایا جب اللہ کسی بندہ کی برائی چاہتا ہے تو کچی اینٹوں اور گارے میں اس کی ہمت کو محصور کردیتا ہے کہ وہ عمارتیں بنانے لگتا ہے۔ رواہ الطبرای بسند جید من حدیث جابر۔ طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوالبشر انصاری ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ جب کسی بندہ کی ذلت چاہتا ہے تو وہ بندہ اپنا مال عمارت بنانے میں خرچ کرتا ہے۔ حضرت واثلہ بن اسقع کی روایت سے طبرانی نے بیان کیا کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہر عمارت اپنے مالک کے لئے وبال ہے سوائے اس کے جو ایسی ہو حضور نے یہ فرماتے وقت اپنی ہتھیلی سے اشارہ کیا تھا۔ حضرت انس راوی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر نکلے (یعنی بازار کو گئے) ایک گول اونچے گنبد (نما مکان) کو دیکھ کر فرمایا یہ کیا ہے صحابہ نے عرض کیا یہ فلاں انصاری کا ہے حضور خاموش ہوگئے مگر یہ بات اپنے دل میں لئے رہے جب اس کا مالک رسول کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس وقت لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما تھے اس شخص نے سلام کیا آپ نے منہ پھیرلیا ایسا کئی مرتبہ ہوا وہ شخص سمجھ گیا کہ حضور مجھ سے ناراض ہیں اس لئے بےرخی برت رہے ہیں (لیکن ناراضگی کی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آئی) صحابہ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کا رخ مجھے غیر غیر دکھائی دیتا ہے کیا وجہ ہے صحابہ نے کہا باہر تشریف لے گئے تھے اور تمہارے بنائے ہوئے گنبد کو دیکھا تھا یہ سنتے ہی وہ شخص فوراً لوٹ پڑا اور جا کر گنبد کو ڈھا کر زمین کے برابر کردیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ایک روز پھر باہر تشریف لے گئے اور گنبد دکھائی نہیں دیا تو فرمایا وہ گنبد کیا ہوا صحابہ نے عرض کیا اس کے مالک نے حضور کی بےرخی کا ہم سے شکوہ کیا تھا ہم نے اس کو بات بتادی اس نے جا کر گنبد کو ڈھا دیا۔ فرمایا سنو ہر عمارت اپنے مالک کے لئے وبال ہوگی سوائے اس کے جو ضروری ہو جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ امام احمد اور ابن ماجہ نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر عمارت قیامت کے دن اپنے مالک کے لئے وبال ہوگی۔ سوائے مسجد اور (سکونت کے) گھر کے۔ مصانع حوض ‘ تالاب ‘ مضبوط اونچے محل ‘ قلعے۔ لعلکم تخلدون۔ اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہو گے مضبوط عمارتیں بناتے ہو۔ مسئلہ لمبی لمبی آرزؤیں کرنی مکروہ ہے آرزو کی کمی مستحب ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ : کا بیان ہے ایک بار رسول اللہ ﷺ نے میرے جسم کے کسی حصہ کو پکڑ کر فرمایا دنیا میں اس طرح رہنا جیسے تو پردیسی ہے ‘ یا راہگیر ہے اور اپنے آپ کو مردوں (کی فہرست) میں شمار کرنا۔ رواہ البخاری۔ یہ بھی حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ ایک بار ہماری طرف رسول اللہ ﷺ کا گزر ہوا میں اور میری ماں کچھ مٹی سے کر رہے تھے (یعنی مٹی کی لسائی یا لپائی کر رہے تھے) فرمایا عبداللہ یہ کیا ہے میں نے کہا ہم کچھ درستی (مرمت) کر رہے ہیں۔ فرمایا امر (یعنی تقدیری حکم) اس سے بھی پہلے پہنچنے والا ہے (یعنی موت سر پر کھڑی ہے معلوم نہیں اس کی درستی سے پہلے آجائے) رواہ احمد والترمذی۔ ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ (بچے ہوئے) پانی کو بہا دیا کرتے تھے (آگے بڑھ کر سفر میں جب پانی کی ضرورت ہوتی اور پانی موجود نہ ہوتا تو) تیمم کرلیتے تھے میں عرض کرتا یا رسول اللہ پانی قریب ہی ہے۔ حضور فرماتے مجھے کیا معلوم شاید میں پانی تک نہ پہنچ سکوں۔ رواہ البغوی فی شرح السنۃ وابن الجوزی فی کتاب الوفاء۔
Top