Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 196
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِيْ : میں زُبُرِ : صحیفے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (پیغمبر)
اور اس کی خبر پہلے پیغمبروں کی کتابوں میں (لکھی ہوئی) ہے
وانہ لفی زبر الاولین۔ اور اس (قرآن) کا ذکر پہلی امتوں کی (آسمانی) کتابوں میں (بھی) ہے۔ اکثر اہل تفسیر نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ نزول قرآن کا ذکر کتب سابقہ میں کردیا گیا ہے ‘ مقاتل نے کہا محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر گزشتہ کتابوں میں کردیا گیا ہے بعض کے نزدیک قرآن کی طرف ضمیر راجع ہے۔ زبر کتابیں۔ مؤخر الذکر تفسیری قول ہی کی بناء پر بعض احناف کے نزدیک قرآن صرف معانی کا نام ہے کیونکہ معانی ہی کا اندراج کتب سابقہ میں تھا عربی الفاظ ان کتابوں میں نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) نے فارسی میں نماز کی قرأت کو جائز قرار دیا ہے (لیکن امام ابوحنیفہ کے قول کی بنیاد اس بات کو قرار دینا کہ قرآن صرف معنی کا نام ہے غلط ہے امام اعظم نے تو ان علماء بلاغت و اعجاز کے لئے فارسی میں صرف نماز کے اندر قرأت کو جائز قرار دیا تھا جو تلاوت قرآن کے وقت قرآن کی بلاغت میں ڈوب جاتے ہیں اور ان کا ادبی ذوق حلاوت و طلاوت عبارت کی کیفیت میں اتنا سرشار و بدمست ہوجاتا ہے کہ پھر ان کی کامل توجہ معبود کے سامنے حاضر ہونے کی طرف نہیں رہتی عوام کے لئے تو امام صاحب نے فارسی میں قرأت کو جائز نہیں قرار دیا اگر امام صاحب کے نزدیک قرآن صرف معنی کا نام ہوتا تو وہ ترجمۂ قرآن کو ہر مقام پر قرآن کا حکم دیتے یہاں تک کہ جنب اور حائضہ اور نفساء کے لئے بھی ترجمہ کو پڑھنا اور چھونا ممنوع قرار دیتے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مترجم) ۔ حضرت مفسر نے فرمایا احناف کا یہ قول غلط ہے قرآن عبارت اور معانی دونوں کا نام ہے اللہ نے اس کو قرآناً عربیاً فرمایا ہے اور عربی عبارت کی صفت ہوتی ہے (معنی تو عربی عبارتوں کے بھی ہوتے ہیں اور دوسری زبانوں کی عبارت کے بھی) مزید یہ کہ قرآن معجز ہے اور اعجاز عبارت کی خصوصیت ہے اسی لئے جنبی کے لئے فارسی میں قرآن پڑھنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے صرف نماز میں اجازت دی تھی کہ عربی کی جگہ دوسری کسی زبان کی عبارت (جو معانی پر دلالت کر رہی ہو) پڑھنی جائز ہے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ امام صاحب کے نزدیک قرآن کی عبارت کا پڑھنا نماز کا رکن نہیں ہے اور قرآن کی عبارت خضوع سے (بعض لوگوں کے لئے) مانع ہوجاتی ہے پھر اپنے اس قول سے امام صاحب نے رجوع بھی کرلیا تھا اور صاحبین (رح) کی طرح نماز کی قرأت فارسی میں ناجائز قرار دے دی تھی احناف کا اسی پر فتویٰ بھی ہے اور اکثر ائمہ کا بھی یہی قول ہے۔
Top