Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 199
فَقَرَاَهٗ عَلَیْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِیْنَؕ
فَقَرَاَهٗ : پھر وہ پڑھتا اسے عَلَيْهِمْ : ان کے سامنے مَّا : نہ كَانُوْ : وہ ہوتے بِهٖ : اس پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور وہ اسے ان (لوگوں کو) پڑھ کر سناتا تو یہ اسے (کبھی) نہ مانتے
فقراہ علیہم ما کانوا بہ مؤمنین۔ اور وہ ان کو پڑھ کر سناتا تو یہ اس پر ایمان لانے والے نہ ہوتے اعجمین اعجم کی جمع ہے اعجم اس شخص کو کہتے ہیں جو فصیح عربی اچھی طرح نہ بول سکے خواہ نسباً عربی ہی ہو اور عجمی کی نسبت عجم کی طرف ہے عجمی اس شخص کو کہتے ہیں جو نسباً غیر عربی خواہ عربی فصیح بولتا ہو۔ اس تشریح لغوی کی بنا پر آیت کا یہ معنی ہوگا کہ اگر ہم یہ قرآن کسی ایسے شخص پر نازل کرتے جس کی عربی زبان فصیح نہ ہوتی۔ بیضاوی نے لکھا ہے اعجمین اعجمی کی جمع ہے اسی لئے اس کو بصیغۂ جمع سالم ذکر کیا ہے یعنی اگر اعجم کی جمع ہوتی تو پھر اس کی جمع سالم نہ آتی کیونکہ اس کا مؤنث عجماء آتا ہے اور جس وزن افعل کا مؤنث بروزن فعلاء آتا ہے اس کی جمع سالم نہیں آتی اس کی نظیر اشعرون ہے جو اشعری کی جمع ہے۔ اصل میں اشعریوں تھا تخفیفاً اشعرون کرلیا گیا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر ہم قرآن میں ہی یا عربی زبان میں کسی ایسے شخص پر نازل کرتے جو فصیح عربی سے واقف نہ ہوتا تب بھی یہ اہل مکہ ایمان نہ لاتے ان کا ذاتی عناد اور غرور اور اعجمی کے اتباع سے نفرت ان کو ایمان سے روکتی یا نہ سمجھنے کی وجہ سے ایمان نہ لاتے اور صاف کہہ دیتے کہ ہم سمجھتے ہی نہیں تم کہتے کیا ہو اسی مضمون کو دوسری آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ قُرْآنًا اَعْجَمِیًّا لَقَالُوْا لَوْ لَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ ۔
Top