Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 25
قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗۤ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا لِمَنْ : انہیں جو حَوْلَهٗٓ : اس کے اردگرد اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ : کیا تم سنتے نہیں
فرعون نے اپنے اہالی موالی سے کہا کہ کیا تم سنتے نہیں
قال لمن حولہ الا تستمعون۔ اور اپنے گردوپیش کے لوگوں سے فرعون (بطور تعجب) کہنے لگا کیا تم سن رہے ہو۔ یعنی موسیٰ کا جواب تم نے سنا میں نے اس سے اس کے رب العالمین کی حقیقت پوچھی اور یہ اس کے افعال و آثار کا ذکر کرنے لگا یا یہ مطلب ہے کہ آسمان تو قدیم بالذات ہیں اور یہ کہہ رہا ہے کہ ان کا رب (خالق) ہے شاید فرعون دہریہ کا خیال تھا (جو عالم کو قدیم اور خود کو فنا جانتے ہیں مترجم) ۔ یا یہ مطلب ہے کہ آسمان کسی موثر فاعل کے محتاج نہیں ہیں اور یہ ان کو رب مانتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے دیکھا کہ آسمان و زمین کی تخلیق و حدوث تو ان لوگوں کے سامنے نہیں اس لئے یہ آسمانوں کو قدیم خیال کرنے لگے ایسی دلیل پیش کرنا چاہئے اور ایسی مخلوق کا رب ہونا ظاہر کرنا چاہئے جس کے قدیم ہونے کا ان کو تو ہم بھی نہ ہو اور جس کی احتیاج کسی مصور حکیم کی جانب بالکل نمایاں ہو اس لئے موسیٰ نے کہا۔
Top