Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 40
لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَ
لَعَلَّنَا : تاکہ ہم نَتَّبِعُ : پیروی کریں السَّحَرَةَ : جادوگر (جمع) اِنْ : اگر كَانُوْا هُمُ : ہوں وہ الْغٰلِبِيْنَ : غالب (جمع)
تاکہ اگر جادوگر غالب رہیں تو ہم ان کے پیرو ہوجائیں
لعلنا نتبع السحرۃ ان کانوا ہم الغلبین۔ تاکہ جادوگر اگر غالب ہوجائیں تو ہم ان کی راہ پر رہیں۔ جادوگروں سے مراد ہیں وہ جادوگر جن کو فرعون نے موسیٰ کے مقابلے کے لئے بلوایا تھا۔ لَعَلَّ امید ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور امید کا لفظ اسی کی تائید کر رہا ہے کہ جادوگروں سے مراد ہیں فرعون کے جمع کئے ہوئے جادوگر۔ (حضرت مؤلف نے کہا) جادوگروں سے مراد ہیں موسیٰ ( علیہ السلام) اور ہارون ( علیہ السلام) اور ان کی قوم والے اور اتباع سے مراد ہے اتباع دینی۔ اس وقت امید کا (حقیقی اصلی معنیٰ مراد نہ ہوگا بلکہ) مطلب یہ ہوگا کہ اگر موسیٰ اور ہارون غالب ہوگئے تو شاید ہم ان کے دین پر چلنے لگیں ‘ یعنی ہم ان کے دین پر نہیں چلیں گے۔
Top