Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 28
اِذْهَبْ بِّكِتٰبِیْ هٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَیْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَا ذَا یَرْجِعُوْنَ
اِذْهَبْ : تو لے جا بِّكِتٰبِيْ : میرا خط ھٰذَا : یہ فَاَلْقِهْ : پس اسے ڈال دے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف ثُمَّ تَوَلَّ : پھر لوٹ آ عَنْهُمْ : ان سے فَانْظُرْ : پھر دیکھ مَاذَا : کیا يَرْجِعُوْنَ : وہ جواب دیتے ہیں
یہ میرا خط لے جا اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں
اذھب بکتنی ھذا فالقہ الیھم ثم تول عنھم فانظر ماذا یرجعون . میرے اس خط کو لے جا کر ان لوگوں کے پاس ڈال کر الگ ہوجانا پھر دیکھتے رہنا وہ لوگ باہم کیا گفتگو کرتے ہیں۔ حسب الحکم ہدہد خط لے کر بلقیس کے پاس پہنچا ‘ بلقیس اس وقت صنعاء سے تین منزل پر مقام مآرب میں تھی۔ ہدہد ملکہ کے قصر میں پہنچا تو دروازے سب مقفل پائے اور کنجیاں ملکہ نے اپنے سرہانے رکھ لی تھیں۔ غرض ہدہد (کسی طرح) بلقیس کے قریب پہنچ گیا۔ بلقیس چت لیٹی سو رہی تھی ‘ ہدہد نے خط اس کے سینہ پر رکھ دیا۔ کذا اخرج عبد بن حمید وابن المنذر و ابن ابی حاتم عن قتادہ۔ مقاتل کا بیان ہے کہ ہدہد اپنی چوند میں خط پکڑ کرلے گیا اور بلقیس کے سرہانے جا کھڑا ہوا۔ باڈی گارڈ ‘ سردار اور سپانی موجود تھے۔ ہدہد نے پر پھڑپھڑائے ‘ لوگ اس کو دیکھتے رہے آخر ملکہ نے خود سر اٹھایا ‘ ہدہد نے فوراً خط ملکہ کی گود میں ڈال دیا۔ وہب بن منبہ اور ابن زید کا بیان ہے کہ سورج کے رخ پر ایک روشن دان تھا اور سورج سامنے سے نکلتا تھا۔ جونہی ملکہ روشندان (یا دریجہ) سے اس کی طرف دیکھتی اور سورج نظر آتا ‘ فوراً اس کو سجدہ کرتی تھی۔ ہدہد اس دریچہ میں گھس گیا اور دونوں بازو پھیلا کر روشندان کو بند کردیا۔ سورج حسب معمول اونچا ہوا لیکن روشندان بند ہونے کی وجہ سے ملکہ کو پتہ نہ چلا۔ جب دیر ہوگئی تو اٹھ کر سورج کو دیکھنے گئی۔ ہدہد نے فوراً خط اس کی طرف پھینک دیا۔ بلقیس پڑھی ہوئی تھی خط لے کر مہر دیکھی مہر دیکھتے ہی لرز گئی کیونکہ سلیمان ( علیہ السلام) کی حکومت (کا نقشہ) مہر میں موجود تھا۔ سمجھ گئی کہ جس نے یہ خط بھیجا ہے وہ مجھ سے بڑا بادشاہ ہے۔ ہدہد خط پھینک کر کچھ پیچھے ہٹ گیا۔ بلقیس نے خط پڑھا پھر جا کر تخت پر بیٹھی اور اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا۔ یہ سردار بارہ ہزار تھے ‘ ہر سردار کے ماتحت ایک لاکھ سپاہی تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ایک روایت میں آیا ہے کہ بلقیس کے ساتھ ایک لاکھ اقیال تھے اور ہر قیل کے پاس ایک لاکھ فوج تھی۔ قیل بمعنی نواب یا بادشاہ جو شہنشاہ کے ماتحت ہوتا ہے۔ قتادہ اور مقاتل نے کہا : بلقیس کی مشورہ کمیٹی 313 آدمیوں کی تھی ہر ممبر شوریٰ کے تحت دس دس ہزار سپاہی تھے ‘ سب آکر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے
Top