Tafseer-e-Mazhari - Al-Faatiha : 1
وَ صَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ
وَصَدَّهَا : اور اس نے اس کو روکا مَا : جو كَانَتْ تَّعْبُدُ : وہ پرستش کرتی تھی مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے اِنَّهَا : بیشک وہ كَانَتْ : تھی مِنْ قَوْمٍ : قوم سے كٰفِرِيْنَ : کافروں
اور وہ جو خدا کے سوا (اور کی) پرستش کرتی تھی، سلیمان نے اس کو اس سے منع کیا (اس سے پہلے تو) وہ کافروں میں سے تھی
وصدھا ما کانت تعبدو من دون اللّٰہ انھا کانت من قوم کفرین . اور سلیمان نے اس کو ان معبودوں کی عبادت سے منع کردیا جن کو اللہ کے سوا وہ پوجتی تھی۔ بلاشبہ کافر قوم میں سے تھی۔ یعنی سورج کی پوجا سے سلیمان ( علیہ السلام) نے اس کو منع کردیا۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ صَدَّ کا فاعِل ماَ کَانَتْ تَعْبُدُ ہے یعنی اللہ کے سوا جن معبودوں کو پوجتی تھی ‘ انہوں نے اس کو توحید سے روک دیا تھا ‘ عقل کی کمزوری یا خرابی نے اس کو توحید سے نہیں روکا تھا اس لئے جن کا یہ کہنا غلط تھا کہ اس کی سمجھ میں فتور ہے۔ جملہ اَنَّھَا کَانْتْ مستانفہ ہے یعنی بلقیس ایسی قوم میں سے ہے جو آفتاب کی پجاری تھی۔ اسی آفتاب پرست قوم میں وہ پلی بڑھی تھی اس لئے سورج کی پوجا کے سوا وہ کسی اور کی عبادت سے واقف نہیں تھی۔ اس کے بعد حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے چاہا کہ بلقیس کے قدموں اور پنڈلیوں کی حالت کا انکشاف کسی تدبیر سے خود ہوجائے ‘ انکشاوف کی درخواست نہ کرنی پڑے ‘ اس لئے آپ نے شیطانوں کو حکم دیا کہ ایک شیش محل یا شیشہ گھر تیار کریں جو سفیدی میں پانی معلوم ہو۔ بعض نے کہا : شیشہ کا صحن خانہ تیار کرنے کا حکم دیا جس کے نیچے پانی ہی پانی رکھا اور پانی میں مینڈکیاں اور طرح طرح کی مچھلیاں چھوڑ دیں ‘ پھر اس صحن کے شہ نشین میں اپنا تخت بچھوا دیا اور اس پر رفنق افروز ہوگئے۔ پرندے ‘ جنات اور انسان آپ کے اردگرد جمع ہوگئے۔ بعض کا خیال ہے کہ شیشہ کا ایک صحن تیار کرایا تھا جس کے نیچے مچھلیوں اور مینڈکیوں کی مورتیں رکھی تھیں ‘ دیکھنے والا اس کو پانی ہی سمجھتا تھا۔ غرض اس کے بعد بلقیس کو بلوایا۔
Top