Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
بلکہ آخرت (کے بارے) میں ان کا علم منتہی ہوچکا ہے بلکہ وہ اس سے شک میں ہیں۔ بلکہ اس سے اندھے ہو رہے ہیں
بل ادرک علمھم فی الاخرۃ . بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم (بالوقوع) ہی نیست ہوگیا۔ اِدَّارَکَ اصل میں تَدَارَکَ تھا اور تَدَارَکَ کا معنی ہے تکامل یعنی آخرت کے معاملہ میں ان کا علم تعلیم انبیاء (جتنا ہونا تھا) پورا ہوگیا (اس سے زیادہ ممکن نہیں) یا یہ مطلب ہے کہ آخرت میں جب قیامت کے معائنہ کرلیں گے اس وقت ان کا علم مکمل ہوجائے گا (یہاں تو تعیین وقت کا علم ممکن نہیں) ۔ تَدَارَکَ الفَاکِھۃ پھل بالکل پک گیا۔ عرب کا محاورہ ہے یعنی پکنے کی انتہائی مدت کو پہنچ گیا۔ مؤمنوں کا دنیا میں وقوع قیامت کا علم تو حاصل ہو ہی چکا اور کافروں کے لئے بھی بایں معنی حصول علم قیامت ہوگیا کہ وقت قیامت کا قطعی دلائل سے ثبوت ہوگیا۔ بل ھم فی شک منھا . بلکہ یہ لوگ اس سے شک میں ہیں۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کا قیامت کی خبر دینا علم قیامت کے وجود میں شک ہے ‘ یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ ہَلِ ادَّارَکَ بطور استفہام ہے یعنی کیا ان کو علم قیامت کے معاملہ میں مکمل ہوگیا ہے ؟ ان کو پورا پورا علم حال ہوگیا ہے ‘ ایسا نہیں ہوا۔ علم قیامت ان کو حاصل نہیں ‘ ابھی یہ علم قیامت تک نہیں پہنچ سکے۔ قیامت کا وجود ان کی علمی رسائی سے خارج ہے۔ اس مطلب کی تائید حضرت ابن عباس ؓ کی قرأت سے ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی قرأت میں بَلٰی اَدَّارَکَ آیا ہے یعنی بَلْ کی جگہ بَلٰی کلمۂ ایجاب اور اَدَّارَکَ بہمزہ استفہام آیا ہے جس کو وصل کے بعد بَلِ اَدَّارَکَ پڑھا گیا ہے۔ اور حضرت ابی کی قرأت میں اَمُ تَدَارَکَ آیا ہے۔ عرب بَلْ کو اَمْ کی جگہ اور اَمْ کو بَلْ کی جگہ استعمال کرلیتے ہیں۔ علی بن عیسیٰ اور اسحاق نے کہا کہ اس جگہ بَلْ بمعنی لَوْ کے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو علم آخرت میں ان کو ہونا ہے اگر وہ دنیا میں ہی ہوجاتا تو وہ شک نہ کرتے۔ اب ان کو یقین نہیں ہے بلکہ وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ بل ھم منھا عمون . بلکہ یہ قیامت کی طرف سے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ عَمُوْنَ ‘ عَمْیٌ کی جمع ہے۔ اور نابینائی سے مراد ہے دل کی نابینائی۔ شروع میں اللہ نے علم غیب کی نفی کی پھر اس کی تاکید نفی شعور سے کردی کہ ان کو اپنے مآل کا شعور بھی نہیں ہے ‘ پھر اس سے بھی اعراض کر کے صراحت کی کہ دلائل اور آیات کے ذریعہ سے صرف ان کو اتنا علم ہے کہ قیامت ہوگی اور ضرور ہوگی لیکن کب ہوگی ‘ یہ کسی آیت یا دلیل نے نہیں بتلایا۔ پھر اس سے بھی ترقی کے طور پر فرمایا کہ باوجود یہ کہ ثبوت قیامت کے دلائل موجود ہیں مگر یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں اور ایسے متحیر ہیں جیسے کوئی دلیل نہ پانے والا متحیر ہوتا ہے۔ اب یہ اپنے شک کو دور کر ہی نہیں سکتے۔ پھر اس سے بھی آگے ترقی کے طور پر فرمایا کہ یہ لوگ بالکل اندھے ہیں ‘ تحیر سے بڑھ کر نابینائی کے درجہ میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کے دل کور بصیرت ہوچکے ہیں ‘ ان کو ثبوت قیامت کی کوئی دلیل سوجھائی نہیں دیتی۔ یہ حالت صرف مشرکوں کی ہے لیکن جس طرح بعض افراد کے فعل کو پوری جماعت کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے ‘ اسی طرح مشرکوں کے مخصوص حال کو عموماً من فی السمٰوٰت والارض کی طرف منسوب کردیا ہے۔ بعض اہل علم نے کہا کہ پہلے لفظ بَلْ سے شعور وقت قیامت کی نفی سے اعراض ہے اور بطور استہزاد اعراض ہے گویا بطور استہزاد فرمایا کہ آخرت کے معاملہ میں تو ان کا علم بالکل مستحکم اور مکمل ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ادارک کا معنی ہے انتہا کو پہنچ گیا اور انتہا کو پہنچ کر نیست و نابود ہوگیا۔ ہر چیز جب اپنی ترقی کی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو پھر وجود کی جگہ عدم آجاتا ہے۔ یعنی آخرت کے معاملہ میں ان کا علم ختم وہ گیا ‘ نیست ہوگیا۔
Top