Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 80
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تُسْمِعُ : تم نہیں سنا سکتے الْمَوْتٰى : مردوں کو وَلَاتُسْمِعُ : اور تم نہیں سنا سکتے الصُّمَّ : بہروں کو الدُّعَآءَ : پکار اِذَا وَلَّوْا : جب وہ مڑ جائیں مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو (بات) نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر پھر جائیں آواز سنا سکتے ہو
انک لا تسمع الموتی . آپ یقیناً مردوں کو (یعنی کافروں کو) نہیں سنا سکتے۔ کافروں کو قرآن سننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے ان کو مردوں سے تشبیہ دی۔ مردوں کو قرآن سنانے سے کوئی فائدہ نہیں جیسا کہ آیت میں کافروں کو بہرا کہا گیا ہے۔ ولا تسمع الصم الداء اذا ولوا مدبرین . اور نہ آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں (خصوصاً ) جب کہ وہ پشت پھر کر چل دیں۔ ایک سوال اِذا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ کہنے کا کیا فائدہ ‘ بہرے تو بہرحال نہیں سنتے خواہ منہ سامنے کئے ہوں یا پیٹھ پھیرے جا رہے ہوں۔ جواب صرف تاکید اور کلام میں زور پیدا کرنے کے لئے ایسا کہا۔ یہ جواب بعض اہل تفسیر نے دیا ہے۔ بعض نے کہا : اگر بہرا سامنے منہ کئے ہو تو کبھی چلا کر بات کرنے کی آواز سن لیتا ہے کبھی ہونٹوں کے اشارہ یا کنایہ سے سمجھ جاتا ہے لیکن پشت پھیرے ہو تو بالکل نہیں سمجھتا۔ آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ کافر انتہائی طور پر دعوت سے کتراتے اور بےرخی اختیار کئے ہوئے ہیں اسی لئے مردوں کی طرح ہیں جن کو سنانے کا کوئی راستہ نہیں یا پشت پھیرے ہوئے بہروں کی طرح ہیں جن کو سنانا ممکن نہیں۔
Top