Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 87
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ
وَ يَوْمَ : جس دن يُنْفَخُ : پھونک ماری جائے گی فِي الصُّوْرِ : صور میں فَفَزِعَ : تو گھبرا جائیگا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوا مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہے وَكُلٌّ : اور سب اَتَوْهُ : اس کے آگے آئیں گے دٰخِرِيْنَ : عاجز ہو کر
اور جس روز صور پھونکا جائے گا تو جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب گھبرا اُٹھیں گے مگر وہ جسے خدا چاہے اور سب اس کے پاس عاجز ہو کر چلے آئیں گے
ویوم ینفخ فی الصور . اور یاد کرو اس دن کو جب کہ صور کے اندر پھونک ماری جائے گی۔ حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ سے صور کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : وہ ایک سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ رواہ ابو داؤد والترمذی وحسنہ والنسائی و ابن حبان و الحاکم۔ حضرت ابن مسعود سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ رواہ مسدد بسند صحیح۔ حضرت زید بن ارقم راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : میں کیسے چین پاسکتا ہوں ؟ سینگ (صور) والا تو سینگ منہ میں لئے پیشانی آگے کو جھائے اور کان لگائے ہوئے ہے کہ کہ اس کو (پھونکنے) کا حکم دیا جاتا ہے۔ صحابہ کو یہ فرمان سن کر بڑی دشواری ہوگئی (کہ جب رسول اللہ کا یہ حال ہے کہ دل کو کسی وقت سکون میسر نہیں تو ہمارا کیا ٹھکانہ ہے) فرمایا : کہو حَسْبُنَا اللہ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی اچھا ذمہ دار ہے۔ احمد ‘ حاکم ‘ بیہقی اور طبرانی ہے حضرت ابن عباس کی روایت سے یہ حدیث اسی طرح بیان کی ہے اور ترمذی ‘ حاکم اور بیہقی نے حضرت ابو سعید کی روایت سے بھی یونہی نقل کیا ہے اور ابو نعیم نے حضرت جابر کی روایت سے بھی ایسا ہی بیان کیا ہے۔ سعید بن منصور اور بیہقی نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جبرئیل اس کے یعنی اسرافیل کے دائیں جانب اور میکائیل بائیں جانب ہیں اور وہی صور والا ہے۔ قرطبی نے لکھا ہے : تمام (پیغمبروں کی) امتوں کے علماء کا اتفاق ہے کہ اسرافیل ہی صور پھونکیں گے۔ ففرع من فی السموت ومن فی الارض الا من شا اللہ . پس گھبرا جائیں گے وہ جو آسمانوں میں ہوں گے یعنی ملائکہ اور ارواح المؤمنین اور جو زمین میں ہیں یعنی انسان سوائے ان کے جن کو خدا نہ چاہے وہ نہیں گھبرائیں گے۔ یہ نفخۂ فزع یا نفخۂۂ صعق (نفخۂ بیہوشی یا نفخۂ موت) ہی ہوگا یا دونوں الگ الگ ہوں گے۔ علماء کے اس میں دو قول ہیں : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صور تین بار پھونکا جائے گا ‘ ایک نفخۂ فزع جس سے ساری مخلوق گھبرا جائے گی اور خوف زدہ ہوجائے گی۔ دوسرا نفخۂ صعق جس کو سن کر لوگ بےہوش جائیں گے یعنی مرجائیں گے۔ تیسرا نفخۂ بعث جس سے لوگ زندہ ہو کر قبروں سے اٹھ کر کھڑے ہوں گے۔ اس آیت میں نفخۂ فزع کی صراحت ہے اور نفخۂ صعق و نفخۂ بعث کا ذکر آیت وَنُفِعَ فِیْ الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِیْ الْاَرْضِ الاَّ مَنْ شَآءَ اللہ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَاھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ میں کیا گیا ہے۔ یہ قول ابن عربی کا ہے۔ تینوں نفخات کا ذکر حضرت ابوہریرہ کی روایت کردہ طویل حدیث میں آیا ہے جس کو ہم عنقریب ذکر کریں گے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ صرف دو نفخات ہوں گے ‘ نفخۂ فزع ہی نفخۂ صعق ہوگا۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ نفخہ ایک ہی ہوگا جس میں دونوں حالتیں پیدا ہوجائیں گی اور یہ دونوں باہم لازم ملزوم ہوں گی ‘ صور کی آواز سن کر پہلے گھبراہٹ ‘ پھر بےہوشی اور موت ہوجائے گی۔ قرطبی نے اس قول کو صحیح قرار دیا ہے اور استدلال میں کہا ہے کہ نفخۂ فزع سے اس جگہ مَنْ شَآءَ اللہ کو مستثنیٰ کرلیا گیا ہے جس طرح کہ نفخۂ صعق سے مَن شَآءَ اللہ کو مستثنیٰ کیا گیا ہے ‘ دونوں کے متعلق الاَّ مَنْ شَآءَ اللہ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ نفخات نہیں ہوں گے بلکہ ایک ہی نفخہ ہوگا (جس کو نفخۂ فزع بھی کہا گیا ہے اور نفخۂ صعق بھی) ۔ میں کہتا ہوں : یہ دلیل صحیح نہیں ہے ‘ اس سے دونوں نفخوں کا ایک ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ بیشک مستثنیٰ منہ دونوں کلاموں میں ایک ہی ہے لیکن مَنْ شَآءَ اللہ کو دونوں جگہ مستثنیٰ کرلینے کا یہ معنی نہیں کہ دونوں مستثنیٰ ایک ہی ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے : مستثنیٰ کون لوگ ہوں گے ‘ اس کی تعیین میں علماء کے اقوال میں اختلاف ہے۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ سے آیت الاَّ مَنْ شَآءَ اللہ کی بابت دریافت کیا گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : وہ شہداء ہوں گے کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہموجود ہیں ‘ ان کو فزع لاحق نہ ہوگا۔ بغوری نے اس جگہ کلبی اور مقاتل کا قول نقل کیا ہے جس کا ذکر ہم آگے کریں گے ‘ لیکن بغوی کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ مستثنیٰ دونوں جگہ ایک ہی ہے اور نفخۂ فزع اور نفخۂ صعق بھی الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی ہیں اور ظاہر ہے کہ دونوں نفخے الگ الگ ہوں گے۔ ذیل میں ان احادیث اور آثار کا ذکر کرتے ہیں جو استثناء کے متعلق ہیں۔ ابویعلی ‘ بیہقی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ذکر کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : میں نے جبرئیل سے آیت وَنُفِعَ فِیْ الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِیْ الْاَرْضِ الاَّ مَنْ شَآءَ اللہ کے سلسلہ میں دریافت کیا کہ وہ کون ہیں جن کو اللہ بےہوش کرنا (یا صور کی آواز سے مردہ کرنا) نہ چاہے گا ؟ جبرئیل نے جواب دیا : وہ شہداء ہوں گے جو تلواریں لٹکائے عرش کے گرداگرد ہیں۔ علماء نے استثناء شہداء کی بابت ی وجہ بیان کی ہے کہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے : بعض آثار میں آیا ہے کہ شہدا اللہ کے استثناء کردہ ہیں یعنی اللہ نے خود نفحۂ صور کے اثر سے ان کو مستثنیٰ کردیا ہے۔ کذا روی ہناد بن السری والبیہقی والخاس فی معانی القرآن عن سعید بن جبیر۔ کلبی اور مقاتل نے کہا ہے : جن کا اللہ نے استثناء کیا ہے وہ جبرئیل اور میکائیل ‘ اسرافیل اور ملک الموت ہیں (انہی کو مستثنیٰ کیا ہے) کیونکہ فریابی نے اپنی تفسیر میں حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے آیت وَنُفِعَ فِیْ الصُّوْرِ فَصَعِقَ سے الاَّ مَنْ شَآءَ اللہ تک تلاوت کی تو صحابہ نے دریافت کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ کون لوگ ہیں جن کا اللہ نے استثناء کیا ہے ؟ فرمایا : جبرئیل و میکائل ‘ فرشتۂ موت ‘ اسرافیل اور حاملین عرش۔ جب اللہ مخلوق (یعنی انسانوں) کی روحیں قبض کرلے گا تو ملک الموت سے فرمائے گا : اب کون باقی ہے ؟ ملک الموت جواب دے گا : اے مالک عظمت و عزت ! تو پاک ہے ‘ بڑی خیر والا ہے ‘ بزرگ و برتر ہے ‘ جبرئیل اور میکائیل اور ملک الموت باقی ہیں۔ اللہ فرمائے گا : میکائیل کی جان لے لے۔ ملک الموت میکائیل کی جان لے لے گا اور میکائیل بڑے پہاڑ کی طرح گرجائے گا۔ پھر اللہ فرمائے گا : (اب) کون باقی رہا ؟ ملک الموت عرض کرے گا : جبرئیل اور ملک الموت۔ اللہ فرمائے گا : اے موت کے فرشتے ! تو مرجا۔ موت کا فرشتہ مرجائے گا۔ اللہ فرمائے گا : جبرئیل اب کون باقی رہے گا ؟ جبرئیل جواب دے گا : تیری ذات کریم لافانی اور جبرئیل میت فانی۔ اللہ فرمائے گا : (موت تو تجھے بھی آنی ہے) مرے بغیر چارہ نہیں۔ جبرئیل فوراً سجدہ میں گرجائے گا ‘ اپنے دونوں بازو پھڑپھڑانے لگے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرئیل کی جسمانی ساخت کی میکائیل کی جسمانیت پر بیشی ایسی ہے جیسے بڑے پہاڑ کی بڑائی چھوٹے ٹیلہ پر۔ بیہقی نے آیت فَنُفِعَ فِیْ الصُّوْرِ کے ذیل میں حضرت انس کی مرفوع روایت نقل کی ہے کہ جن کو اللہ نے مستثنیٰ کیا ہے ان میں سے تین اشخاص ہوں گے : جبرئیل اور میکائیل اور ملک الموت۔ اللہ باوجودیکہ خوب جانتا ہوگا ‘ فرمائے گا : اے ملک الموت کون باقی رہا ؟ ملک الموت عرض کرے گا : تیری لافانی ذات کریم اور تیرہ بندہ جبرئیل اور میکائیل اور ملک الموت۔ اللہ فرمائے گا : میکائیل کی جان لے لے۔ پھر فرمائے گا ‘ باوجودیکہ خوب واقف ہوگا : (اب) کون باقی رہا ؟ ملک الموت عرض کرے گا : تیری ذات کریم لافانی اور تیرا بندہ ملک الموت اور وہ بھی مرنے والا ہے۔ اللہ فرمائے گا : تو بھی مرجا (ملک الموت بھی مرجائے گا) پھر فرمائے گا : میں نے ہی مخلوق کو شروع میں پیدا کیا تھا پھر میں ہی دوبارہ تخلیق کروں گا۔ اب کہاں ہیں مغرور متکبر ؟ کوئی بھی جواب نہیں دے گا۔ پھر اللہ پکار کر فرمائے گا : آ حکومت کس کی ہے ؟ کوئی بھی جواب دینے والا نہ ہوگا۔ اللہ خود ہی فرمائے گا : ایک غالب کل اللہ کی۔ اس کے بعد (ملک الموت کو سب سے پہلے اٹھایا جائے گا اور) دوبارہ صور میں پھونک ماری جائے گی اور یکدم سب کھڑے ہوجائیں گے (اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے) ۔ بیہقی نے زید بن اسلم کا قول نقل کیا ہے کہ جن کو اللہ نے مستثنیٰ کیا ہے وہ بارہ ہیں : جبرئیل ‘ میکائیل ‘ اسرافیل ‘ ملک الموت اور آٹھ حاملین عرش۔ بغوی نے لکھا ہے : روایت میں آیا ہے کہ جبرئیل و میکائیل کی روح قبض کی جائے گی ‘ پھر حاملین عرش کی ‘ پھر اسرافیل کی روح ‘ پھر ملک الموت کی روح۔ بیہقی نے مقاتل کا قول نقل کیا ہے (اول) میکائیل کی روح قبض کی جائے گی ‘ پھر جبرئیل کی روح ‘ پھر اسرافیل کی روح ‘ پھر ملک الموت کو بھی (مر جانے کا) حکم ہوگا وہ بھی مرجائے گا۔ ابو الشیخ نے کتاب العظمتہ میں وہت کا قول نقل کیا ہے کہ ان چاروں یعنی جبرئیل ‘ میکائیل ‘ اسرافیل اور ملک الموت کو اللہ نے سب سے پہلے پیدا کیا اور سب کے آخر میں ان کو وفات دے گا اور پھر سب سے پہلے ان کو زندہ کرے گا۔ یہی ہیں اَلْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا (کاموں کا انتظام کرنے والے ملائکہ) اور اَلْمُقَسِّمَاتِ اَمْرًا (کاموں کو تقسیم کرنے والے ملائکہ) یعنی قرآن کی اس آیت میں یہی مراد ہے۔ سیوطی نے لکھا : استثناء کی ان تمام روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ ان تمام روایات کو اس طرح جمع کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب مستثنیٰ ہیں (چاروں ملائکہ بھی اور آٹھوں حاملین عرش بھی) ۔ میں کہتا ہوں : جتنی احادیث اور آثار آئی ہیں وہ نفخۂ صعق (نفخۂ موت) سے استثناء کے متعلق ہیں ‘ نفخۂ فزع سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ میرے نزدیک آیت سے جن لوگوں کا استثناء کیا گیا ہے ان سے مراد وہ نیکوکار مؤمن ہیں جن کا ذکر آیت میں مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ قَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْھَا وَھُمْ مِنْ فَزَعٍ یَّوْمَءِذٍ اٰمِنُوْنَ اور آیت اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتُ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی اُولٰٓءِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ لاَ یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَھُمْ فِیْمَا اشتَھَتْ اَنْفُسْھُمْ خَالِدُوْنَ لاَ یَحْزُنُھُمْ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ میں کیا گیا ہے۔ ان آیات میں صراحت ہے کہ جو لوگ دوزخ میں جائے بغیر جنت میں چلے جائیں گے ان پر نفخۂ فزع کے وقت گھبراہٹ طاری نہ ہوگی اور نفخۂ فزع کے وقت سوائے کافروں کے اور کوئی موجود ہی نہ ہوگا۔ رسول اللہ نے فرمایا : قیامت صرف شریروں پر برپا ہوگی۔ رواہ احمد و مسلم عن ابن مسعود۔ یہ بھی رسول اللہ کا ارشاد ہے۔ قیامت اسی وقت قائم ہوگی جب زمین پر اللہ اللہ (کہنے والا ہی نہ ہوگا اور اللہ اللہ) نہیں کہا جائے گا۔ رواہ احمد و مسلم والترمذی عن انس۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا : قیامت برپا ہوگی یہاں تک کہ کعبہ کا حج نہیں کیا جائے گا (کوئی حج کرنے والا ہی نہ ہوگا اس وقت قیامت آئے گی) رواہ عبدالرزاق فی الجامع۔ یہ بھی حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ کعبہ اور قرآن اٹھا لیا جائے گا (اس وقت آئے گی) رواہ السنجری عن ابن عمر۔ اس مضمون کی اور احادیث بھی آئی ہیں اسی لئے رسول اللہ نے ارواح شہداء کو مستثنیٰ قرار دیا کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں۔ باقی ملائکہ اور ارواح انبیاء بھی استثناء میں داخل ہیں ‘ وہ بھی بالکل گھبراہٹ سے مستثنیٰ ہوں گی۔ ابن جریر نے تفسیر میں ‘ طبرانی نے المطولات میں ابویعلی نے مسند میں ‘ بیہقی نے البعث میں ابو موسیٰ مدینی نے المطوطات میں ‘ علی بن معبد نے کتاب الطاعتہ و العصیان میں ‘ ابو الشیخ نے ککتاب اعظمتہ میں ‘ نیز عبد بن حمید نے حضرت ابوہریرہ کی روایت کردہ ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ پھر تین بار صور پھونکا جائے گا۔ پہلا نفخہ ‘ نفخۂ فزع ہوگا اور دوسرا نفخۂ صعق اور تیسرا نفخۂ وہ نفخہ جس کے بعد سب رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ اللہ اسرافیل کو پہلی بار صور پھونکنے کا حکم دے گا۔ اسرافیل پھونکے گا جس سے (سارے) اہل سموات وارض گھبرا جائیں گے (سخت خوف زدہ ہوجائیں گے) سوائے ان کے جن کو اللہ (محفوظ رکھنا) چاہے گا (وہ محفوظ رہیں گے) یہاں تک کہ حضور ﷺ نے فرمایا : پھر دودھ پلانے والیاں اپنے شیر خوار بچوں کو بھول جائیں گی ‘ حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہوجائیں گے ‘ بچوں کے بال سفید ہوجائیں گے اور شیطان اڑے اڑے بھاگ کر زمین کے کناروں پر پہنچ جائیں گے۔ ملائکہ آکر ان کے منہ پر مار مار کر واپس لوٹا دیں گے ‘ سامنے سے ملائکہ آکر ا کے منہ پر مار مار کر واپس لوٹا دیں گے۔ لوگ پیٹھ پھیرے بھاگ رہے ہوں گے ‘ ایک دوسرے کو پکارے گا۔ اللہ نے اسی دن کو یَوْمُ التَّنَادِ (پکار کا دن) فرمایا ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ (قبروں کے اندر) اس بیرونی کیفیت سے بالکل بیخبر ہوں گے ‘ ان کو کچھ معلوم نہ ہوگا کہ اوپر کیا ہو رہا ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کون لوگ ہیں جن کو اللہ نے مستثنیٰ کیا ہے اور فرمایا ہے الا من شاء اللہ ؟ فرمایا : وہ شہداء ہوں گے (تمام) زندوں تک وہ خوف پہنچے گا (مگر شہیدوں تک نہیں پہنچے گا) اور وہ اپنے رب کے پاس زندگی کی حالت میں ہوں گے۔ ان کو اللہ کی طرف سے روزی ملتی ہے ‘ اللہ ان کو اس روز کے خوف سے محفوظ رکھے گا اور اس گھبراہٹ سے وہ امن میں رہیں گے۔ یہ عذاب انہی لوگوں پر قائم ہوگا جو اللہ کی مخلوق میں سب سے برے (یعنی کافر) ہوں گے۔ اللہ نے فرمایا ہے : یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ انَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْیءٌ عَظِیْمٌ الخ اللہ جتنی مدت چاہے گا لوگ اسی حالت میں رہیں گے پھر نفخۂ صعق کا حکم دے گا تو سارے آسمان و زمین والے مرجائیں گے سوائے ان کے جن کو اللہ (موت سے محفوظ رکھنا) چاہے۔ ملک الموت عرض کرے گا : آسمان و زمین والے (سارے) مرگئے سوائے ان کے جن کو تو نے محفوظ رکھنا) چاہا۔ اللہ فرمائے گا ‘ حالانکہ وہ خوب جانتا ہوگا : اب کون باقی رہا ؟ پھر (بروایت ابوہریرہ رسول اللہ نے جبرئیل ‘ میکائیل ‘ ملک الموت اور حاملین عرش کے مرنے کا تذکرہ حضرت انس کی روایت کردہ حدیث کے مطابق کیا۔ ایک شبہ آسمانوں میں تو کوئی شیطان نہیں اور یہ گھبراہٹ انہی انس و جن کے شیطانوں پر طاری ہوگی جو اشرار خلق ہیں ‘ پھر فَزِعَ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ (آسمانوں والے گھبرا جائیں گے) کا کیا معنی ہے ؟ ایک ازالہ میں کہتا ہوں : شاید مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ کا ذکر مبنی بر فرض ہے (یعنی بالفرض اگر آسمانوں پر شیاطین ہوں گے تو وہ بھی خوف زدہ ہوجائیں گے) یا یوں کہا جائے کہ چوری چھپے فرشتوں کی کوئی بات سننے کے لئے کبھی شیاطین آسمان تک پہنچ جاتے ہیں ‘ یا آسمانوں سے مراد بادل ہے۔ لفظ سماء کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو تمہارے اوپر ہو۔ اللہ نے فرمایا : فَلْیَمْدُدْ سَبَبًا اِلَی السَّمَآءِ اس کو چاہئے کہ چھت تک رسی تان لے یا یوں کہا جائے کہ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ سے مراد ہیں بعض مؤمنوں کی روحیں اور سَبَقَتُ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی سے مراد ہیں انبیاء اور مقربین بارگارہ الٰہی۔ نفخۃ الصعق سے مستثنیٰ کون ہوں گے ‘ اس مبحث میں صحیح قول وہ ہے جو صاحب مفہم نے کہا ہے کہ لفظ صعق سے بطور عموم مجاز ایسا مفہوم مراد ہے جو موت کو بھی شامل ہے اور صرف بےہوشی کو بھی۔ زندوں کے لئے موت اور مردوں کے لئے بےہوشی ہوجائے گی۔ یہ بےہوشی تمام انبیاء کو (جو عالم بزرخ میں موجود ہیں) ہوگی ‘ البتہ حضرت موسیٰ کے لئے بےہوش ہونے میں تردد ہے ‘ کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی۔ شیخیننے صحیحین میں اور ترمذی و ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ذکر کیا ہے کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا : قسم ہے اس کی جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا کی۔ یہ بات سن کر ایک انصار نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور یہودی کے طمانچہ مارا اور کہا : تو ایسی بات کہتا ہے حالانکہ ہم میں رسول اللہ موجود ہیں۔ اس بات کا تذکرہ رسول اللہ کے سامنے کیا گیا تو ارشاد فرمایا کہ اللہ نے فرمایا ہے : وَنُفِعَ فِیْ الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِیْ الْاَرْضِ الاَّ مَنْ شَآءَ اللہ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَاھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ پس میں ہی سب سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا تو اچانک دیکھوں گا کہ موسیٰ عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے پہلے انہوں نے اپنا سر اٹھا لیا (اور اٹھ کھڑے ہوئے) یا ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ نے مستثنیٰ کردیا ہے۔ جب لفظ صعق موت اور بےہوشی دونوں کو شامل ہے اور انبیاء پر (عالم بزرخ میں) غشی طاری ہوجائے گی تو شہداء کا بےہوش ہونا بدرجۂ اولیٰ ہوگا اور ملائکہ بھی بےہوش ہوں گے البتہ جبرئیل ‘ میکائیل ‘ اسرافیل ‘ ملک الموت اور حاملین عرش کی موت صور پھونکنے کی آواز سے نہیں ہوگی بلکہ یہ ملائکہ بعد کو مریں گے جیسا کہ احادیث میں آچکا ہے۔ وکل اتوہ دخرین . اور سب کے سب اس کے سامنے دبے جھکے رہیں گے۔ یعنی تمام آسمانوں و زمین والے نفخۂ بعث کے بعد مؤقف میں عاجزی کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ چونکہ یہ واقعہ آئندہ یقینی ہوگا ‘ اس کی قطعیت ظاہر کرنے کے لیے اتوہ بصیغۂ ماضی فرمایا۔
Top