Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 8
فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَا١ؕ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَهَا : اس ( آگ) کے پاس آیا نُوْدِيَ : ندا دی گئی اَنْۢ بُوْرِكَ : کہ برکت دیا گیا مَنْ : جو فِي النَّارِ : آگ میں وَمَنْ : اور جو حَوْلَهَا : اس کے آس پاس وَسُبْحٰنَ : اور پاک اللّٰهِ : اللہ رَبِّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں
جب موسیٰ اس کے پاس آئے تو ندا آئی کہ وہ جو آگ میں (تجلّی دکھاتا) ہے بابرکت ہے۔ اور جو آگ کے اردگرد ہیں اور خدا جو تمام عالم کا پروردگار ہے پاک ہے
فلما جاء ھا نودی ان بورک من فی النار ومن حولھا . پھر جب موسیٰ ( علیہ السلام) آگ کے قریب پہنچے تو ندا دی گئی کہ جو اس آگ کے اندر ہے اس پر بھی برکت ہے اور جو آگ کے آس پاس ہے اس پر بھی برکت ہے۔ آگ پر پہنچنے سے مراد ہے آگ کے قریب پہنچنا جب کوئی شخص فرودگاہ کے قریب پہنچ جائے تو عرب کہتے ہیں بَلَغَ فَلانٌ المَنْزِلَ فلاں شخص منزل کے قریب پہنچ گیا۔ نُوْدِیَ ندا دی گئی۔ نداء کے اندر قول کا معنی ہے یعنی پکار کر کہا گیا بُوْرِکَ مَنْ فِیْ النَّار یعنی پاک ہے وہ جو آگ کے اندر جلوہ افروز ہے اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ ۔ حضرت ابن عباس ‘ سعید بن جبیر اور حسن نے بھی تفسیر کی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو ندا دی اور اپنا کلام سنایا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ وہ آگ نہ تھی اللہ تبارک و تعالیٰ کا نور جلوہ افروز تھا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے اس کو آگ خیال کیا تھا اسی لئے لفظ نار (آگ) کہا تھا۔ مسلم نے حضرت ابو موسیٰ کا قول نقل کیا ہے حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا ہمارے (جلسہ کے) اندر رسول نے کھڑے ہو کر پانچ باتیں فرمائیں فرمایا : اللہ سوتا نہیں نہ اس کے لئے سونا سزاوا رہے ‘ وہی ترازو کے پلڑے کو اونچا نیچا کرتا ہے (یعنی گھٹاتا بڑھتا اور ذلت و عزت دیتا ہے) اس کے سامنے رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال رات کے اعمال سے پہلے پیش کئے جاتے ہیں ‘ اس کا حجاب نور ہے اگر کھل جائے تو اس کی ذات کے چمکارے وہاں تک مخلوق کو سوختہ کردیں جہاں تک اس کی نظر کی رسائی ہو (یعنی سارے جہان کو جلا ڈالے) ۔ سعید بن جبیر نے کہا وہ بعینہ آگ ہی تھی جو اللہ (کی ذات) کے لئے حجاب تھی جیسا کہ بعض روایات میں حِحَابُہ النُّور کی بجائے حِجَابُہ النَّار آیا ہے۔ اس تفسیر پر اس آیت کا شمار متشابہات میں ہوگا جیسا دوسری آیت میں آیا ہے ھَلْ یَنْظُرُوْنَ الاَّ اَنْ یَّاْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وہ صرف اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ غمام کے سائبانوں میں ان کے پاس آپہنچے۔ چونکہ آیت مذکورہ سے اس بات کا وہم پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کسی مکان اور کسی شکل کا محتاج ہے حالانکہ خدا ہر عیب و نقص سے پاک ہے (نہ اس کو کوئی مکان گھیر سکتا ہے ‘ نہ اس کی کوئی شکل ہے یہ دونوں چیزیں اس کے لئے باعث نقص ہیں۔ مترجم) اس لئے آئندہ آیت میں اللہ نے اپنی پاکی کی صراحت کی اور فرمایا۔ وسبحن اللہ رب العلمین . اور پاکی کا اقرار کرو اس اللہ کی جو سارے جہان کا رب ہے۔ مجاہد کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے بُوْرِکَتِ النَّار یعنی آگ کو برکت دی گئی۔ سعید بن جبیر روای ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا میں نے ابیّ کو پڑھتے سنا۔ اَنْ بُوْرِکَتِ النَّارُ وَمَنْ حَوْلَھَا اس روایت میں مَنْ حَوْلَھَا میں مَنْ زائد ہوگا (یعنی برکت نازل کی گئی آگ پر اور آگ کے گردا گرد) ۔ بُوْرِکَ النَّار اور بُوْرِکَ فِیْ النَّارِ (دونوں کا ایک ہی معنی ہے عرب کہتے ہیں بارک اللّٰہُ اور بارک اللّٰہُ فِیْہ اور بارک اللّٰہُ عَلَیہ سب کا ایک ہی معنی ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ جو آگ میں ہیں (یعنی ملاہ کہ) اور جو آگ کے گرد ہیں (یعنی موسیٰ ( علیہ السلام) سب کو برکت دی گئی نار کی صفت مبارکۃ آتی ہے جیسے بقعۃ کی صفت مبارکۃ آیت فِیْ الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ (مبارک مقام) میں آئی ہے۔ بعض اہل علم نے کہا : بُوْرِکَ مِنْ فِیْ النَّار میں مضاف محذوف ہے یعنی بُوْرِکَ مِنْ فِیْ طَلَبِ النَّارِ (برکت دی گئی اس کو جو آگ کی طلب میں ہے) یا بُوْرِکَ مِنْ فِیْ مَکَان النَّارِ (مبارک ہے وہ جو آگ کے مقام پر ہے) بہرحال اس سے مراد حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ہیں اور مَنْ حَوْلَھَا سے ملائکہ مراد ہیں جو آگ کے آس پاس موجود تھے اللہ کی طرف سے موسیٰ ( علیہ السلام) کے لئے اس لفظ میں پیام برکت تھا جیسے حضرت ابراہیم کو فرشتوں کی زبانی پیام برکت و رحمت دیا گیا تھا اور فرشتوں نے کہا تھا : رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ ۔ بعض نے کہا : مِنْ فِیْ النَّارِ سے مراد ملائکہ ہیں اور مَنْ حَوْلَھَا سے مراد موسیٰ ( علیہ السلام) ۔ جو نور موسیٰ ( علیہ السلام) نے دیکھا تھا اس کے اندر ملائکہ تسبیح ‘ تحمید اور تقدیس میں مشغول تھے اور موسیٰ ( علیہ السلام) آگ کے قریب تھے۔ بعض عطماء نے کہا : مَنْ حَوْلَھَا کا لفظ عام ہے وادی کے اندر جو کوئی تھا سب کو یہ لفظ شامل تھا اور ارض شام (جس کا مخزن انبیاء ہونے کی وجہ سے برکات بھی کہا گیا ہے) بھی اس میں داخل ہے اور خطاب کا صیغہ ذکر کرنے سے پہلے مَنْ حَوْلَھَا کا ذکر کرنا موسیٰ ( علیہ السلام) کو ایک طرح کی بشارت اور اس امر کی پہلے سے خوشخبری ہے کہ تمہارا واقعہ بڑی عظمت والا ہوگا تمہاری برکتیں ارض شام میں پھلیں گی ان تمام تاویلات پر سبحان اللہ رب العالمین سے دو باتیں مستفاد ہوں گی ایک تو توہُّمِ تشبیہ کی نفی ہوجائے گی دوسری بات یہ کہ آئندہ واقعہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی عظمت کا اظہار اور اس کا تعجب آفریں ہونا معلوم ہوجائے گا۔
Top