Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 21
فَخَرَجَ مِنْهَا خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ١٘ قَالَ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠   ۧ
فَخَرَجَ : پس وہ نکلا مِنْهَا : وہاں سے خَآئِفًا : ڈرتے ہوئے يَّتَرَقَّبُ : انتظار کرتے ہوئے قَالَ : اس نے کہا (دعا کی) رَبِّ : اے میرے پروردگار نَجِّنِيْ : مجھے بچا لے مِنَ : سے الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کی قوم
موسٰی وہاں سے ڈرتے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں (کیا ہوتا ہے) اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔
فخرج منھا خآبفًا یترقب . (یہ بات سنتے ہی) موسیٰ نکل کھڑے ہوئے ڈرتے ڈرتے ٹوہ لگاتے (کہ پیچھے سے کوئی تلاش کرنے والا نہ آ رہا ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ سے مدد کی امید کرتے ہوئے اور دشمنوں سے ڈرتے ہوئے نکل چلے) ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اللہ کے سوا مخلوق سے بھی ڈرتے ہیں حالانکہ لاَ یَخْشَوْنَ اَحَدًا الاَّ اللّٰہِ قرآن کی نص قطعی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انی جان کا خوف فطری چیز ہے اور فطری خوف منافی نبوت نہیں۔ انبیاء جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے اوامرو نواہی کے اظہار و اشاعت میں ذاتی ضرر پہنچنے سے وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ‘ ان کو کسی کی سوائے اللہ کے پرواہ نہیں ہوتی۔ انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگ آدمیوں سے ایسا ہی ڈرتے ہیں جیسا اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اللہ کے خوف سے بھی زیادہ ان کو بندوں کا ڈر ہوتا ہے۔ انسانوں کے ہاتھوں پہنچنے والی تکلیف کو وہ اللہ کے عذاب کے برابر جانتے ہیں۔
Top