Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 24
فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ
فَسَقٰى : تو اس نے پانی پلایا لَهُمَا : ان کے لیے ثُمَّ تَوَلّيٰٓ : پھر وہ پھر آیا اِلَى الظِّلِّ : سایہ کی طرف فَقَالَ : پھر عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں لِمَآ : اس کا جو اَنْزَلْتَ : تو اتارے اِلَيَّ : میری طرف مِنْ خَيْرٍ : کوئی بھلائی (نعمت) فَقِيْرٌ : محتاج
تو موسٰی نے اُن کے لئے (بکریوں کو) پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف چلے گئے۔ اور کہنے لگے کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے
ولما وردمآ مدین . اور جب مدین کے پانی پر اترے۔ یعنی مدین کے کنویں تک پہنچے جس کا پانی کھینچ کر لوگ اپنے جانوروں کو پلاتے تھے۔ وجد علیہ امۃ من الناس یسقون . تو پانی کے (کنارے) لوگوں کا ایک (بڑا) گروہ دیکھا (اپنے مویشیوں کو) پانی پلا رہا تھا۔ ووجد من دونھم امراتین تذدون . اور ان سے درے (یعنی نشیبی مقام میں) دو عورتیں پائیں جو (اپنے جانوروں کو) روکے ہوئے (کھڑی تھیں۔ یعنی اپنی بکریوں کو الگ روکے کھڑی تھیں تاکہ ان کی بکریاں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر پانی پر نہ چلی جائیں۔ قال ما خطبکما . موسیٰ نے کہا : تمہارا کیا واقعہ ہے ؟ یعنی کیا وجہ ہے کہ تم اپنے مویشیوں کو پانی سے روک رہی ہو ؟ خَطْبٌ کا معنی ہے حال کذا قال فی القاموس بعض نے کہا : خَطْب مصدر ہے بمعنی اسم مفعول یعنی تمہارا کیا مقصد ہے۔ قالتا لا نسقی حتی یصدر الرعآء وابونا شیخ کبیر . دونوں عورتوں نے کہا : ہم (اپنے جانوروں کو) اس وقت تک پانی نہیں پلاتے جب تک چرواہے (اپنے جانوروں کو پانی پلا کر) نکال کرلے (نہ) جائیں اور ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں۔ یعنی ضعف پیری کی وجہ سے خود آکر جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے ‘ مجبوراً ہم کو پانی پلانا ہوتا ہے۔ یُصْدِرَ الرِّعَآء یعنی چرواہے اپنے جانوروں کو پانی سے واپس نہ لے جائیں۔ قَالَتَا لاَ نَسْقِیْ الخ سے عورتوں کے جذبۂ عفت کے اظہار اور مردوں کے ساتھ اختلاط سے ان کے اجتناب کو بیان کرنا مقصود ہے۔ وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ یہ جواب بظاہر سوال کے مطابق نہیں معلوم ہوتا لیکن حقیقت میں سوال ہی کا جواب ہے کیونکہ حضرت موسیٰ کا مقصد تھا بکریوں کو روکے رکھنے کا سبب دریافت کرنا۔ باوجود یہ کہ پانی موجود تھا اور پلانے کی ضرورت بھی تھی ‘ عورتوں نے سبب بیان کردیا کہ ہم کمزور عورتیں ہیں ‘ مردوں میں قوت کے ساتھ گھس کر آگے بڑھنا ہماری طاقت سے باہر ہے ‘ پھر ہم کو مردوں سے اختلاط کرنے میں شرم بھی آتی ہے۔ باپ بہت زیادہ بوڑھے ہوگئے ہیں ‘ وہ خود یہ کام کر نہیں سکتے۔ شیخ کبیر کا کیا نام تھا ‘ بغوی نے لکھا ہے کہ مجاہد ‘ ضحاک ‘ سدی اور حسن کے نزدیک یہ بزرگ حضرت شعیب پیغمبر تھے۔ وہب اور سعید بن جبیر نے کہا : شیروں کا نام تھا جو حضرت شعیب کے بھائی کا بیٹا تھا۔ حضرت شعیب کی وفات تو اس واقعہ سے پہلے نابینا ہونے کی حالت میں ہوچکی تھی اور آپ کو مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان دفن کردیا گیا تھا۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ ایک اور مرد مؤمن تھا جو حضرت شعیب پر ایمان لے آیا تھا۔ فسقٰی لھما . پھر موسیٰ نے ان دونوں عورتوں (کی بکریوں) کو پانی پلا دیا۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ لوگوں کو ہٹاتے ہوئے کنویں پر پہنچے اور عورتوں کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موسیٰ نے برابر والے کنویں کے منہ پر ڈھانکا ہوا پتھر اکھاڑ کر الگ کردیا۔ یہ کنواں پہلے کنویں کے قریب تھا اور پتھر اتنا بڑا بھاری تھا کہ ایک جماعت ہی اس کو اٹھا سکتی تھی۔ بعض لوگوں نے کہا : دس آدمی اس کو اٹھاتے تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت موسیٰ نے ایک ڈول پانی کھینچا اور برکت کی دعا کی ‘ ایک ہی ڈول سے سب بکریاں سیراب ہوگئیں۔ ثم تولی الی اظل . پھر پشت پھیر کر ایک (درخت کے) سایہ کی طرف چلے گئے۔ یعنی گرمی سخت تھی ‘ شدت گرمی کی وجہ سے ایک درخت کے سایہ میں جا بیٹھے۔ امتحان سخت ہوچکا تھا اس لئے اپنی مولیٰ ہی سے اپنے دکھ کا شکوہ کیا اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رب کی بھیجی ہوئی تکلیف کا شکوہ اپنے رب ہی سے کرے۔ فقال رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر . 1 ؂ پھر کہا : اے میرے رب ! اس وقت جو نعمت تو نے مجھے دے میں اس کا سخت حاجت مند ہوں (ترجمہ مولانا تھانوی) ۔ علماء کے نزدیک لِمَا اَنْزَلْتَمیں لام بمعنی الی ہے۔ فَقِیْرٌ لَہٗ اور فَقِیْرٌ اِلَیہ دونوں طرح مستعمل ہے ‘ اِنْزَال (اتارنا سے مراد ہے عطاء کرنا ‘ اَنزَلَ اللہ نِعَمَہ اور نعمَتُہ عَلَی الْخَلِق اللہ نے مخلوق کو اپنی نعمتیں عطاء فرمائیں یا اپنی نعمت عطا کی۔ اللہ کی طرف سے عطاء نعمت کبھی براہ راست اتارنے ہی کے ذریعہ سے ہوتی ہے جیسے قرآن کا اتارنا ‘ بارش کا اوپر سے اتارنا۔ کبھی وہ نعمت براہ راست اوپر سے نہیں اتاری جاتی بلکہ اس کے اسباب اتارے جاتے ہیں اور اس کی طرف رہنمائی اوپر سے ہوتی ہے جیسے اللہ نے فرمایا : وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ اور ہم نے لوہا اتارا ‘ اور اللہ نے تمہارے آٹھ جوڑے چوپایوں کے اترے ‘ اور ہم نے تم پر لباس اتارا (یہ مختلف مقامات کی آیات کا ترجمہ ہے ‘ ان تمام آیات میں مذکورہ اشیاء کے اتارنے سے مراد ہے ان کے اسباب مولودہ کا اتارنا) ۔ اَنْزَلْتَ اگرچہ ماضی کا صیغہ ہے لیکن اس جگہ مستقبل کے معنی میں ہے ‘ یعنی جو کچھ تو مجھے عطا فرمائے میں اس کا محتاج ہوں یا اَنْزَلْتَکا معنی ہے قَدَّرْتَ اِنْزَالَہ (اس وقت صیغہ ماضی ہی کا ترجمہ کیا جائے گا۔ مترجم) یعنی میرے لئے جس چیز کا عطا کرنا تو نے مقدر کردیا ہے میں اس کا محتاج ہوں۔ مَنْ خَیْرٍ یعنی کھانا تھوڑا ہو یا بہت ‘ فقیر یعنی محتاج ہوں ‘ سائل ہوں۔ چونکہ لفظ فقیر اپنے اندر سوال کا معنی رکھتا ہے اس لئے الی کی جگہ لام استعمال کیا گیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : موسیٰ نے اللہ سے ایک لقمہ طلب کیا جس سے اپنی کمر سیدھی کرسکیں۔ امام باقر علیہ الرحمتہ نے فرمایا : موسیٰ اس وقت چھوارے کے ایک ٹکڑے کے محتاج تھے اس لئے مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ فرمایا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : حضرت موسیٰ نے رَبِّ اِنِّیْ لِمَا اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ کہا حالانکہ آپ اللہ کے نزدیک بڑی عزت والے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت آپ چھوارے کے ایک ٹکڑے کے محتاج تھے۔ مجاہد نے کہا : حضرت موسیٰ نے سوائے خیر کے اور کچھ نہیں مانگا۔ بعض علماء نے کہا : لِمَا میں لام سببیہ ہے یعنی اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے خیر عطا فرمائی ہے (خیر سے مراد ہے دین اور حکمت) اس لئے میں فقیر ہوں۔ فرعون کی مذہبی مخالفت میں نے کی اس لئے میری یہ حالت ہوگئی۔ جب تک حضرت موسیٰ فرعون کے پاس رہے بڑے عیش سے رہے (پھر مخالفت مذہبی نے اختلاف پیدا کردیا اور آخر یہ نوبت آگئی کہ دانہ دانہ کو محتاج ہوگئے۔ اس کلام سے حضرت موسیٰ کا مقصد تھا اظہار مسرت و اداء شکر۔ میں کہتا ہوں : اس تفسیر پر یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ موسیٰ نے کہا : اے میرے رب ! تو نے مجھے دین اور علم عطا فرمایا ‘ میں محتاج ہوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ مجھے عطا فرما۔ یہی مضمون رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کا ہے۔ میں کہتا ہوں : اَنْزَلْتَکو نُزْلسے بھی مشتق قرار دیا جاسکتا ہے اور نُزْل کا معنی ہے طعام مہمانی یعنی اے میرے رب ! میرے لئے جو کچھ کھانا تو فراہم کر دے میں اس کا محتاج اور سائل ہوں۔
Top