Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 37
وَ قَالَ مُوْسٰى رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى مِنْ عِنْدِهٖ وَ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ رَبِّيْٓ : میرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ : اس کو جو جَآءَ : لایا بِالْهُدٰى : ہدایت مِنْ عِنْدِهٖ : اس کے پاس سے وَمَنْ : اور جس تَكُوْنُ : ہوگا۔ ہے لَهٗ : اس کے لیے عَاقِبَةُ الدَّارِ : آخرت کا اچھا گھر اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُفْلِحُ : نہیں فلاح پائیں گے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور موسٰی نے کہا کہ میرا پروردگار اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے حق لےکر آیا ہے اور جس کے لئے عاقبت کا گھر (یعنی بہشت) ہے۔ بیشک ظالم نجات نہیں پائیں گے
وقال موسیٰ ربی اعلم بمن جآء بالھدی من عندہ . اور موسیٰ نے کہا : میرا رب خوب جانتا ہے اس کو جو اس کے پاس سے ہدایت (دین صحیح) لے کر آیا ہے۔ پس وہی جانتا ہے کہ میں حق پر ہوں اور تم لوگ باطل پرست ہو۔ وضوح آیات کے بعد حق کا انکار کرتے ہو باوجودیکہ تم دلوں سے اس پر یقین رکھتے ہو مگر غلط طور پر زبانوں سے انکار کرتے ہو۔ ومن تکون لہ عاقبۃ الدار انہ لا یفلح الظلمون . اور اس کو جس کا انجام اچھا ہوگا۔ بلاشبہ ظالم کامیاب نہیں ہوں گے۔ عَاقِبَۃُ الدَّار یعنی دار آخرت میں اچھا انجام۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ الدَّار سے دنیا مراد ہے اور اس کا اصلی انجام جنت ہے کیونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اصل مقصد ثواب ہی ہے اور عاقبت میں عذاب ہونا تو بالعرض ہے (اصل مقصد نہیں ہے) ۔ اہل تحقیق کا قول ہے کہ عقبی اور عاقبت کا اطلاق نیکیوں کے انجام یعنی ثواب پر ہوتا ہے اور عقاب ‘ عقوبت اور معاقبت کا اطلاق برائیوں کے انجام بد یعنی عذاب پر ہوتا ہے۔ اللہ نے فرمایا : خَیْرٌ ثَوَابً وَّخَیْرٌ عُقْبٰی۔ لَھُمْ عُقْبَی الدَّار۔ نِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ۔ وَالْعَقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ اور عذاب کے لئے فرمایا ہے : فَحَقَّ عِقَاب۔ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَا قِبُوْا بِمِثْلَ مَاعُوْقِبْتُمْ بِہٖ ۔ لاَ یُفْلِحُ الظَّلِمُوْنَ یعنی دنیا میں ہدایت یاب اور آخرت میں حسن ثواب پر فائز نہیں ہوتے۔
Top